مصنف اور ان کا "نقطۂ نظر"

مصنف اور ان کا "نقطۂ نظر"

احمد جاوید
ایڈیٹر روزنامہ انقلاب، پٹنہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ہندستان کے ان معدودے چند علماے دین میں ہیں، جن سے ملیے تو آپ کی طبیعت کی گرانی ہلکی ہوجاتی ہے، زاہدانہ خشکی نہ واعظانہ لفاظی، خطیبانہ پھکڑ پن نہ مناظرانہ ادّعا، علامانہ پندار نہ تحکمانہ تکلف اور تصنع، طبیعت میں روانی، افکار میں سنجیدگی، رائے میں اصابت، زبان وبیان میں سادگی، مسائل کے ساتھ حکیمانہ برتاؤ، چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ اور ہر بات ٹھہر ٹھہر کر کہنے کی خاص ادا، آپ ان کو پڑھیں یا سنیں طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ متکلم کسی روایتی مدرسہ کا فارغ ہے یا سرسید و شبلی اسکول کا فیض یافتہ، آپ ان کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن سننے سے انکار اور ٹھہر کر سوچنے سے بچنے کا حوصلہ نہیں جٹا سکتے۔
انسان کو اس کی خود پسندی اپنی ہر چیز کے ساتھ عظمت وابستہ کرنے پر مائل کرتی ہے اور چونکہ افکار اس کی اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہیں، وہ ان کے ساتھ بڑی رغبت سے ایسا کرتا ہے، وہ جیسے ہی ان کو لکھتا ہے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا ہے، اکثر کاغذ پر اترتے ہی آپ کے افکار وخیالات کی ساری عظمت ہوا ہوجاتی۔ کالم نگاری تو ویسے بھی اپنے آپ کو لکھنے کا عمل ہے، واحد متکلم کے اظہار کا فن۔ اس لیے یہ بہت آسان بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ فی زمانہ اس فن کی آبرو ہمارے مذہبی حلقوں مین جن چند اہل علم سے ہے، مفتی صاحب ان میں ایک ہیں۔
’نقطہ نظر‘ کے مصنف کی زیر نظر تحریروں میں وہی خلوص، بے تکلفی، درد مندی اور وفور آگہی موجود ہے، جس کے لیے ہماری سیاسی و سماجی تاریخ میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد، مولانا عبد الصمد رحمانی اور مولانا عثمان غنی کو یاد کیا جاتا ہے، جنھوں نے ملت کو نقیب جیسا سنجیدہ دینی، علمی اور اصلاحی جریدہ دیا اور اپنے خون جگر سے اس کو سینچا۔ ان مضامین میں یہ شان ہونی ہی چاہیے کہ یہ ’نقیب‘ کے لیے لکھے گئے کالم اور اداریے ہیں، لیکن یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ ان کو ایسے جا نشیں ملے جنھوں نے ’نقیب‘ کے نصب العین اور معیار کی حفاظت کی، اسے آگے بڑھایا اور وقت کے تقاضوں کو قبول کرنے سے آنکھیں نہ بچائیں۔ مصنف نے اخبارات و رسائل کے لیے لکھنا اور قومی و ملی مسائل کو موضوع بنانا کب شروع کیا، مجھے نہیں معلوم لیکن ان کے مضامین کم و بیش بیس برسوں سے اخبارات و رسائل میں دیکھ رہا ہوں اور وہ جس اعتدال، متانت و ذمہ داری اور پابندی کے ساتھ لکھ رہے ہیں، یہ بھی ایک مثال ہے، یہاں ان کی آنکھوں کی بصیرت، مشاہدہ کی پختگی، مطالعہ کی وسعت، تحقیق کا مزاج، پیرایۂ اظہار کی قوت اور اس کا حسن تو اپنی طرف کھینچتا ہی ہے، موضوعات کا تنوع بھی آپ کو متوجہ کرتا ہے۔ سیاست، سماج، تعلیم، اخلاق اور قومی و ملی مسائل کے کون سے پہلو ہیں جن کو ان کے قلم نے نہیں چھوا، یہ مضامین ہماری موجودہ نسلوں کو مسائل کا ادراک کرانے اور ان کا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد کرتے ہیں اور آئندہ ہماری سیاسی وسماجی تاریخ کا جائزہ لینے میں بھی مدد گار ہوں گے.
یہ بھی  ملاحظہ ہو:میرا نقطۂ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے