کتابیں: غریب شہزادی، سنہری فیصلہ (بچوں کے لیے کہانیاں)

کتابیں: غریب شہزادی، سنہری فیصلہ (بچوں کے لیے کہانیاں)

کتابوں کے نام : غریب شہزادی، سنہری فیصلہ (بچوں کے لیے کہانیاں)
مصنف: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
تبصرہ نگار: استوتی اگروال (نائب مدیرہ)
سہ ماہی’انتساب عالمی‘
سرونج، مدھیہ پردیش، انڈیا
موبائل نمبر: 9575089694

یوں تو ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے بنیادی طور پر جس کام سے مقبولیت حاصل کی وہ ہے اشاریہ سازی لیکن اطہر مسعود خاں افسانہ، انشائیہ، تحقیق اور تنقید میں بھی نمایاں کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ کا اشاریہ (مع ضروری وضاحت) ١٩٥٥ تا ٢٠٠١۔ یہ اشاریہ مصنف وار اور اصناف وار ہے اور دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے صفحات کی تعداد ١٦٦٤ ہے۔
رام پور رضا لائبریری نے اسے A4 سائز میں ٢٠٠٩ میں شائع کیا ہے۔ اس اشاریہ کے لیے اطہر مسعود خاں کو ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محمد اطہر مسعود خاں بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ سب سے خاص بات تو یہ ہے کہ انھوں نے چودہ سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خود اپنی کتاب ’غریب شہزادی‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”بچوں کے رسائل اور خاص طور سے بچوں کے لیے لکھے گئے ناول، چاہے وہ کتنے ہی ضخیم ہوں، میں ایک دودن میں ہی پڑھ لیا کرتا تھا۔ کھانا کھاتے میں پڑھنا، گرمیوں کی دوپہر میں لیٹ کر پڑھنا، کسی کام سے جاتے ہوئے راستے میں کتاب پڑھتے ہوئے جانا، بس یہی میرا شوق اور جنون تھاجو آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔ چونکہ لکھنے کی صلاحیتیں قلم کار کے اندر فطری طور پر موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر مطالعہ کرنے کا ایسا ذوق و شوق ہو تو قلم کار کی طبیعت کہانیاں لکھنے کی طرف جلد مائل ہو جاتی ہے اور شاید یہی سب کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔“
اس وقت اطہر مسعود خاں کی کہانیوں کے دو مجموعے میرے سامنے ہیں۔ ان کے مجموعہ’غریب شہزادی‘ کا پیش لفظ مجھے بہت پسند آیا لیکن کہانیاں اس سے بھی کہیں زیادہ معیاری لگیں جو بچوں کی سمجھ میں آسانی سے آجاتی ہیں۔ اگرچہ چھوٹے بچوں کو سمجھنے کے لیے سادہ اور سلیس زبان چاہیے لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی یہ کہانیاں چودہ پندرہ سال کے بچوں کے زیادہ معیار کی ہیں اور یہی اس کتاب کی کامیابی کی دلیل ہے۔
پھرجیسے ہی میں نے ان کا دوسرا مجموعہ ’سنہری فیصلہ‘ پڑھنا شروع کیا تو میں نے جلد ہی سبھی کہانیاں پڑھ ڈالیں۔ جہاں ایک طرف اطہر مسعود خاں نے معیاری کہانیاں تحریر کی ہیں وہیں دوسری طرف دل چسپ اور معلوماتی کہانیاں بھی لکھیں۔
ان کے مجموعہ’سنہری فیصلہ‘ میں ۳۱ کہانیاں شامل ہیں جن میں آنسوؤں کی قیمت، ایک تھا مہاراجہ، ایک ہی صف میں، چھوٹے نواب، دودھ کا دودھ، دہلے پہ دہلہ، فاتح یورپ، کالا سونا وغیرہ کہانیاں نمایاں ہیں اور اس مجموعہ میں مجھے ان کی چند کہانیاں سب سے زیادہ پسند آئیں جن کا تجزیہ پیش کرنے جا رہی ہوں۔ اطہر مسعود خاں کی کہانی’سچا تیرتھ‘ ایک بہترین اور سبق آموز کہانی ہے جس میں انسانیت کا پیغام دیا گیا ہے۔
کہانی میں پہلے تو ڈر اور خوف کا منظر کھینچا گیا ہے کہ اچانک بس خراب ہو جاتی ہے اور سنسان جنگل میں جا کر رک جاتی ہے۔ کنڈکٹر بس سے اترجاتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ سبھی لوگ بے چین ہیں۔ کوئی کہتاہے: ”یہاں لوٹ کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔“ غرض کوئی کچھ کہتا اور دوسرا کچھ اور کہتا۔
سبھی لوگ ڈر کے مارے بس ڈرائیور عبدل کو گھیر لیتے ہیں اور پیٹنا شروع کرنے ہی والے ہیں کہ بس میں بیٹھے ایک پنڈت جی اس کو بچالیتے ہیں۔ بس میں سوار یہ لوگ تیرتھ یاترا پر جا رہے تھے۔ اس لیے انھیں لگا کہ عبدل ڈاکوؤں سے ملا ہوا ہے۔ عبدل بہت منت سماجت کرتا ہے اور بس میں بیٹھے پنڈت جی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ عبدل سے لوگ بس کنڈکٹر کا نام پوچھتے ہیں جس کا نام دلاور ہے۔
تھوڑی دیر بعد دلاور واپس آجاتا ہے۔ لوگ اسے دور سے دیکھ کر محسوس کرتے ہیں کہ شاید اب وہ مرنے والے ہیں لیکن دراصل کنڈکٹر ایک دوسری بس لے کر آتا ہے اور سبھی مسافروں سے کہتا ہے: ”معافی چاہتا ہوں بہت دیر ہو گئی۔میں دوسری بس لینے گیا تھا۔ ساتھ ہی میں نے پنڈت جی کے بچوں کو روتا بلکتا دیکھ لیا تھا۔ اس لیے ان کے لیے پانی اور کچھ کھانے کو بھی لے آیا۔“ یہ دیکھ کر سبھی جذباتی ہو جاتے ہیں اور پنڈت جی کہتے ہیں: ”آج بھی انسانیت زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔“
میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ اطہر مسعود خاں کی زبان بہت آسان اور سادہ ہے جو بچوں کے مزاج اور سمجھ کے مطابق ہے لیکن انھوں نے ایسی کہانیاں ضرور تحریر کی ہیں جنھیں بچوں کے ساتھ بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ان کے مجموعے میں اور ان کی تمام کہانیوں میں سے زیادہ تر کہانیاں بادشاہ، خلیفہ اور تاریخی واقعات پر مشتمل ہیں جنھیں لکھنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک گہرے مطالعے اور فنی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اطہر مسعود خاں کی ایک کہانی ’سنہری فیصلہ‘ ایک interesting کہانی ہے۔ یہ کہانی خلیفہ ہارون رشید اور ان کے دونوں بیٹوں مامون اور امین کے کردار پر مشتمل ہے۔ خلیفہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ عالم اور فاضل اساتذہ مقرر کرتا ہے۔ گھڑ سواری سکھانے کے لیے بھی ماہرین تلاش کرتا ہے اور شہزادوں کو پڑھانے لکھانے، تربیت دینے والوں کو قیمتی تحفوں سے بھی نوازتا ہے۔
عام طور سے زیادہ تر بادشاہ عیاشی، شراب نوشی اور موسیقی میں ہی اپنی تمام زندگی گزار دیتے ہیں لیکن خلیفہ ہارون رشید کا دربار ہنسی مذاق والا نہیں تھا۔ ایک دن خلیفہ نے اپنے بیٹوں کو جوتوں کے لیے لڑتے ہوئے دیکھ لیا۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا کہ ان کے استا دپاس ہی کھڑے ہوئے ہنس رہے ہیں۔
یہ دیکھ کرخلیفہ پریشان ہو جاتاہے کہ میں تو جی جان سے ان کی تربیت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن یہ جوتوں کے لیے لڑ رہے ہیں؟ الغرض خلیفہ بچوں کے پاس جاتا ہے اور لڑنے کی وجہ پوچھتا ہے تو استاد بتاتے ہیں کہ یہ دونوں اس لیے لڑ رہے ہیں کہ استاد محترم کے جوتے ہم دونوں میں سے کون اٹھائے گا؟ یہ سن کرخلیفہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔
آخر میں استاد خلیفہ ہارون رشید سے فیصلہ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کر خلیفہ سنہری حرفوں میں فیصلہ سناتے ہیں کہ دونوں بچے اپنے استاد کا ایک ایک جوتا اٹھائیں گے۔
اس کہانی میں والدین اور استادوں کی عزت کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ اطہر مسعود خاں اب تک بچوں کے لیے ٨٠ سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ امید کرتی ہوں کہ ان کا یہ مجموعہ شہرت حاصل کرے گا۔
آپ یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی اشاریہ سازی پر ایک نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے