ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی اشاریہ سازی پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی اشاریہ سازی پر ایک نظر

منظور پروانہ
دانش محل،امین آباد
لکھنؤ 226018 یو.پی
موبائل نمبر:94524 82159

کاروبار لوح و قلم حضرت انسان کو بااعتبار اور ذی وقار بنا دیتا ہے۔ اسے وسعت نظر اور صلابت فکر میسر ہوتی ہے لیکن خارزار ادب میں وارد ہونا ایک دشوار گزار عمل بھی ہے اور کرب انگیز بھی۔ اس راہ پر وہی لوگ چلتے ہیں جو بے لوث خدمت گزار ہوتے ہیں۔ دنیائے ادب میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جو ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہوتی ہیں، جنھیں تخلیق، تحقیق اور تنقید پر یکساں دست رس حاصل ہو۔ دور حاضر میں ایسی شخصیات نایاب نہ سہی لیکن کم یاب ضرور ہیں۔ ایسی کم یاب شخصیات میں ایک روشن نام ہے ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا۔
ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے خار زار ادب میں جس طرح اپنے لیے اشاریہ سازی کے میدان کا انتخاب کیا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ مشکل پسند طبیعت کے مالک ہیں اور سہل نگاری کو پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے افسانہ نگاری، ادب اطفال، تحقیق اور تنقید کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ہی جس طرح اشاریہ سازی میں ماہرانہ قدرت کا مظاہرہ کیا ہے اس کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج اشاریہ سازی کے میدان میں ان کا نام بہت روشن ہے اور ان کا نام اشاریہ سازی میں ایک معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو ادب کے خدمت گاروں کی اگر کوئی فہرست تیار کی جائے، وہ چاہے ضلع سطح کی ہو، صوبائی سطح کی ہو یا ملکی سطح کی، اس وقت تک مکمل نہ ہوگی جب تک اس میں اردو ادب کے بے لوث خدمت گزار ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا نام شامل نہ ہو۔
مندرجہ بالا تاثرات نوک قلم پر آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میرے مطالعے میں ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی دو کتابیں ہیں:
۱۔اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش
۲۔تذکروں کا اشاریہ
مندرجہ بالا دونوں کتابوں کے مطالعہ کے بعد میں اس بات کو کہنے میں خود کو حق بہ جانب مانتا ہوں کہ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور انھیں علم و ادب سے صرف رغبت ہی نہیں بلکہ جنون کی حد تک محبت ہے اور یہ جنون ہی انھیں ایسے کام کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔
آئیے پہلے کچھ باتیں ’اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کے حوالے سے ہو جائیں۔ سب سے پہلے سوال یہ ہے کہ ’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ کا اشاریہ بنانے کا خیال ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کے ذہن میں کیسے آیا؟ اس کا جواب اسی کتاب میں شامل مرتب کے ’پیش لفظ‘ میں اس طرح تحریر ہے:
کئی برس قبل عرفان عباسی صاحب نے اپنی کتاب ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کی ایک جلد ڈاک سے مجھے عنایت فرمائی تھی۔ راقم کو چونکہ اس کتاب کی اہمیت کا برسوں سے احساس تھا اور عرفان عباسی صاحب کے کارناموں سے بھی واقفیت تھی اس لیے فوراً ہی فیصلہ کیا کہ ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کا اشاریہ بنایا جائے۔“
اس طرح ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے ڈاکٹر عرفان عباسی کی کتاب ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ جو ۲۳جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں سولہ سو شاعروں کا تذکرہ ہے، کا اشاریہ بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے ان تمام جلدوں کا عمیق نظری سے مطالعہ کر اس کا اشاریہ ایک کتاب کی شکل میں قارئین کے لیے پیش کیا۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کی ان کتابوں کے سلسلے میں مرتب نے ’پیش لفظ‘ میں یہ بھی تحریر فرمایا ہے:
”ڈاکٹر عرفان عباسی صاحب کی کتابیں جسامت کے لحاظ سے بھی خاصی ضخیم ہیں۔ انھوں نے محض نام و نمود کے لیے کتابوں کی تعداد نہیں بڑھائی ہے بلکہ ان کی ہر کتاب کئی کئی سو صفحات پر مشتمل ہے اور ہر کتاب کو جامع اور مربوط طریقہ سے اور ایک ضابطہ و قاعدہ کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔“ اس کتاب کا اشاریہ تیار کرنا ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔
اس کتاب میں مرتب نے نہ صرف یہ کہ کتاب کا اشاریہ مرتب کیا ہے بلکہ انھوں نے ڈاکٹر عرفان عباسی کی تمام ادبی خدمات کا بھی ذکر کیا ہے اور ان سے اپنے تعلقات کی نوعیت کے متعلق بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں مرتب نے ان حضرات کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے قدم قدم پر اس کام میں ان کی مدد فرمائی۔ اس تعاون کے لیے ان حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
اس سلسلے کا سب سے اہم نام ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی کا ہے۔ ڈاکٹر شمیم صاحب نے بھی ’تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ کا اشاریہ مرتب کیا تھا مگر انھوں نے ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کو اس کی پوری فائل دے دی۔مرتب نے اس قربانی کے لیے ان کا شکریہ خاص طور پر ادا کیا ہے۔
’پیش لفظ‘ کے بعد کتاب میں مرتب کا ’مقدمہ‘ ہے جو ٢٣ صفحات کو محیط ہے۔ یہ مقدمہ اپنے آپ میں ایک گراں قدر اور لائق مطالعہ مضمون ہے۔ اس مقدمہ میں تذکرہ نگاری کی روایت، اس کی اہمیت وافادیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عرفان عباسی کی خاکہ نگاری وتذکرہ نگاری کی خصوصیات وامتیازات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تحریروں کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔
تذکرہ نگاری کے سلسلے میں مرتب نے اپنے ’مقدمہ‘ میں تحریر کیا ہے:
”اردو کے تخلیقی اور تحقیقی ادب میں تذکرہ نگاری ایک منفرد اور اہم مقام رکھتی ہے۔ اردو کے چھوٹے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے حالات زندگی اور ان کی تحریروں کے نثری و شعری کارنامے ہم تک تذکروں کے ذریعہ ہی پہنچتے ہیں۔ یہ بات بغیر تکلف کے کہی جا سکتی ہے کہ اگر قلم کاروں کے تذکرے نہ لکھے جاتے تو اردو ادب کی کوئی اہم اور بڑی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی تھی۔“
مرتب نے اپنے ’مقدمہ‘ میں اشاریہ سازی کے سلسلے میں پیش آنے والی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ”اشاریہ سازی کا عمل عام دیگر تحقیقی کاموں کے مقابلے، مالی اعتبار سے بھی بہت مہنگا ہے۔ سیکڑوں رسائل اور فن اشاریہ سازی و تحقیق سے متعلق کتابوں کی خریداری، ڈاک خرچ، کمپوزنگ، فوٹواسٹیٹ اور متعدد مقامات کا سفر کرنے کے علاوہ بھی اس کام میں سیکڑوں طرح کے مسائل، مصائب اور مصارف درپیش ہوتے ہیں، جن میں ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔“
اشاریہ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مرتب اپنے ’مقدمہ‘ میں تحریر کرتے ہیں: ”اشاریہ سازی کی مدد سے کسی ادیب یا شاعر کے بارے میں نہایت قلیل وقت میں بہت زیادہ، کافی حد تک مکمل اور بہترین معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔“
پیش لفظ اور مقدمہ کے بعد مرتب نے اس کتاب میں ڈاکٹر عرفان عباسی کی مطبوعہ کتب کو تاریخی ترتیب اور حروف تہجی کے اعتبار سے ایک فہرست کی شکل میں شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کن ادبی تنظیموں سے وابستہ رہے اور انھیں کن اعزازات سے نوازا گیا اس کی تفصیل بھی کتاب میں شامل ہے۔ اس کے بعد خود مرتب یعنی ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا سوانحی و ادبی تعارف مع کتابوں کی فہرست اور اندرون ملک و بیرون ملک شائع ہونے والے مقالات، مضامین، تراجم، تبصروں وغیرہ کی فہرست کے ساتھ علمی و ادبی خدمات پر ملنے والے انعامات کی فہرست اور مختلف اداروں سے وابستگی کی تفصیلات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
’اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ میں ڈاکٹر عرفان عباسی کی ایک اور کتاب ’تذکرہ شعرائے ریختی‘ کا اشاریہ بھی شامل ہے جس میں شاعروں کی تعداد ١٠٤ ہے اس طرح کتاب ’اشاریہ تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ میں شاعروں کی کل تعداد ١٧٠٤ہے۔

’اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ ان لوگوں کے لیے تو مفید ہوگی ہی جو اس اشاریہ سے فیض یاب ہو کر اپنے وقت کو بچا کر زیادہ معلومات حاصل کر سکیں گے۔ساتھ ہی یہ کتاب ڈاکٹر عرفان عباسی پر کام کرنے والوں کے لیے بھی ریفرنس بک کا کام دے گی۔
آئیے اب ذرا ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی دوسری کتاب پر کچھ گفتگو ہو جائے۔ اس کتاب کا نام ہے’تذکروں کا اشاریہ‘۔ اس کتاب میں تین ہزار قلم کاروں کا اشاریہ شامل ہے۔ یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس ایک کتاب میں دس تذکروں کا اشاریہ شامل ہے اور ان میں سے کئی تذکرے کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ بہرحال جن تذکروں کا اشاریہ اس کتاب میں شامل ہے ان کے نام یہ ہیں:
۱۔ اشاریہ تذکرہ معاصرین-۴جلد
۲۔ اشاریہ تذکرہ وہ صورتیں الٰہی-۱جلد
۳۔ اشاریہ تذکرہ ارباب اردو: تحریر و تصویر کے آئینے میں -۶جلد
۴۔ اشاریہ تذکرہ آپ ہیں -۸جلد
۵۔ اشاریہ تذکرہ آپ تھے: شعرائے قصبات اودھ-۱جلد
۶۔ اشاریہ تذکرہ آپ: شعرائے لکھنؤ-۲جلد
۷۔ اشاریہ تذکرہ شعرائے سیتا پور-۱جلد
۸۔ اشاریہ تذکرہ نثر نگاران اردو: اترپردیش-۱جلد
۹۔ اشاریہ تذکرہ غیر مسلم شعرائے سیتا پور اردو-۱جلد
۰۱۔ اشاریہ تذکرہ دبستان امیر مینائی (تلامذہ)-۱جلد
مرتب کے ’تذکروں کا اشاریہ‘ میں شامل اپنے مضمون ’کچھ اس کتاب کے بارے میں‘ اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت اور اس میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
”میں اس بات کو پھر دوہرانا چاہتا ہوں کہ اشاریہ سازی اتنا مشکل فن ہے کہ اس کے مقابلے میں لوہے کے چنے چبانا بہت سہل اور آسان ہے۔ آج ہم چاہے فن شاعری کو لیں یا ناول، افسانہ اور دیگر نثری فنون و موضوعات کو، ان فنون کی اردو کتابوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ سیکڑوں لائبریریاں ان کتابوں سے بھری پڑی ہیں لیکن اشاریہ؟ جی ہاں ہند و پاک کو ملا کر بھی مطبوعہ اشاریوں کی تعداد دوتین سو سے زیادہ نہیں۔“
اپنے اسی مضمون میں مرتب نے ایک اور سوال اٹھایا ہے اور یقیناً یہ ایک اہم سوال ہے جس پر توجہ دلاتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں: ”ایک خاص بات یہ ہے کہ ان تذکروں میں نثر نگار خواتین و شاعرات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تذکروں میں خواتین کی تعداد ایک فی صد بھی نہیں ہے۔ ایسا تو ہر گز نہیں ہے کہ خواتین قلم کار، عباسی صاحب کے یا مالک رام صاحب یا دیگر تذکرہ نگاروں کے زمانے میں لکھ نہیں رہی تھیں۔“
ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں لگ بھگ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے اشاریہ سازی کے کام کو انجام دے رہے ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایمان داری اور لگن کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ ان کی اعلا ظرفی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اب تک مبتدی اور مقتدی کہلانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اشاریہ سازی کے کام میں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہ حضرات بہ خوبی لگا سکتے ہیں جو کسی طرح کا تحقیقی کام کرتے ہیں۔
اس کتاب میں مرتب کا تحریر کردہ ایک مضمون بعنوان ’سوانحی و ادبی تعارف:مالک رام‘ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مضامین وہی ہیں جو ’اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘میں شامل ہیں اور یہ فہرست اس طرح ہے:
۱۔ مقدمہ
۲۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کی مطبوعہ کتب (تاریخ وار ترتیب)
۳۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کی مطبوعہ کتب (باعتبار حروف تہجی)
۴۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کی ادبی تنظیموں سے وابستگی
۵۔ ڈاکٹر عرفان عباسی کوتفویض کیے گئے اعزازات
۶۔ سوانحی وادبی تعارف: مالک رام
۷۔ سوانحی و ادبی تعارف: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
بہرحال ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی دونوں کتابوں یعنی ’اشاریہ تذکرہ شعرائے اترپردیش‘ اور ’تذکروں کا اشاریہ‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے اشاریہ سازی کے میدان میں جو منزلیں طے کی ہیں وہ نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہیں۔ ان کی شبانہ روز کی محنت شاقہ کا یہ ثمر ہے کہ ان کے اس کام کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہ استحسان سے دیکھا جا رہاہے۔
ان کتابوں کے مطالعے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کتابوں میں شامل اشاریوں کی تیاری میں مرتب کو کس قدر عرق ریزی کرنی پڑی ہوگی۔ یہ کتابیں مرتب کی اشاریہ سازی کے فن پر دسترس کی مظہر ہیں۔ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا یہ سفر ابھی جاری وساری ہے اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ وہ ابھی اور منزلیں سر کریں گے جس کی بدولت ان کا نام اشاریہ سازی کی تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا،ان شاء اللہ تعالیٰ……!
***
(٢٧/جون ٢٠١٢) 

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں : سوانحی و ادبی تعارف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے