کتابی سلسلہ نواے ادیب کا اعلی حضرت نمبر

کتابی سلسلہ نواے ادیب کا اعلی حضرت نمبر

تبصرہ : محمد شہباز عالم مصباحی*

معروف قلم کار و فاضل گرامی قدر حضرت مولانا نور القمر ابن زرین رقم مصباحی پناسوی کو میں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ تعارف کا یہ عرصہ مدرسہ جوہر العلوم گنجریا (ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) سے لے کر مرکزی دانش گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور (اعظم گڑھ، اتر پردیش) تک محیط ہے۔ اس دوران میں نے انھیں ہر جگہ جفا کش، پابند اوقات، اصول پسند، عمیق المطالعہ، صاحب بصیرت، روشن فکر اور خیر خواہ اہل سنت پایا۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت پاتے ہی انھوں نے مختلف معیاری دار العلوم میں علمی لعل و جواہر لٹائے اور پھر عروس البلاد ممبئی میں رہنے کو ترجیح دی، جہاں وہ اب تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ امامت و خطابت کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں اور ساتھ میں زبان و ادب کی زلفیں بھی سنوارنے میں مصروف ہیں۔

زیر نظر مجلہ "نوائے ادیب" زبان و ادب اور تصنیف و تالیف سے ان کے قلبی شغف کا نتیجہ ہے۔ یہ مجلہ کتابی طور پر 2015ء سے ممبئی سے اشاعت پذیر ہورہا ہے۔ مجلہ کے سرپرست اعلا ان کے والد گرامی معروف خطاط و خوش نویس الحاج کاتب محمد ابراہیم زرین رقم متوطن پناسی، ضلع کشن گنج، بہار ہیں، جب کہ ایڈیٹر بذات خود علامہ نور القمر ابن زرین رقم مصباحی ہی ہیں، مشیر اعلا معلی القاب حسن بلرام پوری صاحب ہیں اور مفتی اشرف رضا قادری، ڈاکٹر جلیس اختر نصیری، ڈاکٹر سجاد عالم مصباحی، ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی، ناچیز شہباز چشتی مصباحی، علامہ سید اکرام الحق مصباحی، مفتی توفیق احسن برکاتی، مولانا محمد ظفر الدین برکاتی، مولانا فیاض احمد برکاتی مصباحی، مفتی کلیم الدین نوری، علامہ تنویر ازہری اور علامہ عبد الحنان برکاتی کے نام بہ طور محفل انجم شامل ہیں۔ حروف ساز و تزئین کار مولانا محمد کونین رضا رشیدی ہیں۔

زیر مطالعہ مجلہ نوائے ادیب، اکتوبر 2020ء، امام احمد رضا نمبر ہے۔ اس خصوصی شمارے میں "امام احمد رضا نور خدا کے محافظ"، "امام احمد رضا ایک بادہ خوار عاشق، مگر حکیم فرزانہ تھے"، "امام احمد رضا کی سیاسی دقت نظری"، "ترکوں کے نام چندہ ــــــــ رقم کیا ہوئی"، "تحریک موالات کا پس منظر"، "تحریک ہجرت اور اس کا پس منظر"، "جنگ آزادی اور اعلی حضرت کا نقطۂ نظر"، "ترک موالات کے منصوبے اور اعلی حضرت کی عقابی نظر"، "اعلی حضرت کی سیاسی بصیرت اور [و] دقت نظری"، "جذبات کا طوفان اور اعلی حضرت کی بے مثال سلامت روی"، "مذہبی تشخص کا زوال اور اعلی حضرت کی فکر مندی"، "دینی تعلیم اور اعلی حضرت کا معاشی نظریہ"، "مسلمانوں کی معاشی و سماجی ابتری اور اعلی حضرت کی اصلاحی تدابیر" اور "اعلی حضرت اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے". جیسے اہم و متنوع عناوین پر بیش قیمت معلوماتی مضامین شریک اشاعت کیے گئے ہیں اور آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ تمام مضامین ایڈیٹر صاحب نے بہ قلم خود لکھے ہیں جو ان کی سریع القلمی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ ان مضامین کے علاوہ مدیر مجلہ کے ابتدائی استاذ گرامی وقار امام العلماء حضرت مولانا محمد امام الدین رضوی رحمہ اللہ القوی سابق صدر المدرسین مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کی 3 صفر المظفر، 1442ھ/ مطابق 21 ستمبر، 2020ء میں وفات ہو جانے کی وجہ سے ایک اہم تاریخی و جذباتی مضمون ان کے حوالے سے بہ عنوان "امام العلماء مرجع الخلائق عالم دین تھے" بہ طور خراج عقیدت شامل اشاعت کیا گیا ہے جو کہ مجلہ کے بالکل آغاز میں شائع شدہ ہے اور یہ مضمون بھی ایڈیٹر صاحب ہی کی کاوش قلم کا رہینِ منت ہے۔ اس کے علاوہ ایک عدد منقبت اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی شان میں شائع کی گئی ہے جو حسن بلرام پوری کی کاوش فکر ہے، جب کہ مجلے کے بالکل اخیر میں ایک نظم "نوائے ادب کی بے باکیاں" از نازش پرتاپ گڑھی، طبع کی گئی ہے.

ان دنوں چونکہ والدین کے ساتھ بہ غرض علاج بنگلور میں نزیل ہوں جس کی وجہ سے ہر مضمون کا تنقیدی جائزہ لینے سے قاصر ہوں۔ یہ چند سطریں حضرت مدیر صاحب کے اصرار پر بہ عجلت لکھ دیں۔ مختصراً یہ کہ مجلہ صوری و معنوی اعتبار سے خوب ہے اور مستقبل میں زیادہ سے زیادہ نیک خواہشات کے ساتھ یہ قوی امید کی جاتی ہے کہ علامہ ابن زرین رقم مصباحی جیسے بصیرت افروز و تخلیق پسند قلم کار کی ادارت میں یہ مجلہ روایتی انداز سے مکمل ہٹ کر ایک نہایت معیاری، علمی، فکری، تاریخی اور معلوماتی سلسلہ ثابت ہوگا جس کی اہل علم کے حلقے میں خاطر خواہ پذیرائی ہوگی اور اسے معیاری مجلوں کی طرح ایک مستند و معتمد مجلہ قرار دیا جائے گا۔

*اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبۂ عربی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے