شاعرہ : رخسانہ جبین

شاعرہ : رخسانہ جبین

ایس معشوق احمد

جموں و کشمیر میں باغ اردو کو سجانے سنوارنے اور نت نئے گل بوٹوں سے اس کی تزئین کرنے میں جہاں مرد ادبا اور شعرا پیش پیش ہیں وہیں دوسری جانب اس گلشن کی اپنی تخلیقات سے آرائش و زیبائش کرنے میں خواتین ادیبائیں اور شاعرات بھی اپنا مثبت کردار نبھا رہی ہیں۔ ان ادیباؤں اور شاعرات نے اپنی تحریروں سے نہ صرف اپنے احساسات و جذبات، سوچ و فکر اور نسوانی مسائل کو اجاگر کیا بلکہ فن اور ادبی معیار کا خیال رکھ کر اپنی بات کو بہترین انداز میں لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں وہ کتنا کامیاب ہوئیں اس کا اندازہ ادبی حلقوں میں ان کے اعتبار کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے. نسوانی آواز شور میں جلد گم ہوجاتی ہے لیکن بعض نسوانی آوازوں کی گونج عالم میں سنائی دیتی ہے۔ ان عالم میں گونجنے والی آوازوں میں توانا آواز رخسانہ جبین کی ہے جس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ادبی حلقوں میں ان کی آواز کو دھیان لگا کر سنا گیا۔ کشمیر میں اردو شاعرات کی تعداد قلیل ہے، جو یہاں کے ادبی منظر نامے کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی سطح تک اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ جن شاعرات نے منفرد پہچان بنائی اور بہ طور شاعرہ عالم میں مشہور ہوئیں ان میں رخسانہ جبین ایک معتبر نام ہے۔
رخسانہ جبین یکم مئی 1955 ء میں خواجہ بازار سرینگر میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام غلام نبی شاہ تھا۔ 1980ء میں کشمیر یونی ورسٹی سے ایم- اے اردو کیا۔ اس سے قبل 1978ء میں فارسی میں ایم- اے کر چکی تھیں۔ فارسی شعبے سے ہی 1981ء میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ یہی دور ان کی شاعری کے آغاز کا ہے۔ کشمیر یونی ورسٹی میں” بزم ادب" میں شرکت کرتی تھیں۔ یہ شرکت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں معاون بنی۔اس سے قبل کالج دور میں جو شاعری کیا کرتی تھیں اس کو وہ خود شاعری نہیں مانتیں۔ 1983ء میں آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور 2015 ء اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے سبک دوش ہوئیں۔ چار زبانوں پر عبور رکھتی ہیں اور تین زبانوں (فارسی، اردو، کشمیری) میں اپنے خیالات، افکار، احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ادبی حلقوں میں بہ حیثیت شاعرہ اپنی پہچان رکھتی ہیں لیکن تنقیدی مضامین اور ترجمہ نگاری میں بھی ان کا قلم روانی سے چلتا ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اس معتبر شاعرہ کا اب تک کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ ان شاء اللہ "چراغ چہرہ” کے عنوان سے جلد ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آئے گا۔ کشمیری زبان میں اب تک ان کی ایک تصنیف 2014ء میں ” وژھہ پرنگ" کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب رتن سنگھ کی تصنیف ” اڑن کھٹولہ" کا کشمیری ترجمہ ہے۔
شاعرات اکثر اپنی غزلوں اور نظموں میں اپنی ذات، اپنے معاشرے، نسوانی مسائل، عورتوں کے حقوق اور گھریلو مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے خطے کے تاریخی واقعات، موجودہ حالات اور قدرت مناظر کو اپنی شاعری میں جگہ دیتی ہیں۔ رخسانہ جبین نے بھی اپنی شاعری میں اپنی ذات، احساسات و جذبات، تانیثی سوچ کو سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔ ان کا فطری میلان غزل کی طرف ہے۔ زبان میں شفتگی اور روانی ہے۔ ان کی غزلوں میں پیچیدہ اور مبہم استعارے نہیں ملتے بلکہ ان استعاروں اور علامتوں کو وہ اپنی شاعری میں برتی ہیں جن کا سماجی، تہذیبی اور تاریخی پس منظر قاری کی سمجھ میں فورا آتا ہے اور قاری کو مفہوم کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ سنجیدہ اور منفرد شاعری کرتی ہیں۔ یہ سنجیدگی انھیں شعور کی بالیدگی اور تفکر کی گہرائی نے بخشی ہے۔ ریڈیو سے وابستگی کے سبب حالات حاضرہ سے آگاہ رہتی تھیں. یہی وجہ ہے کہ نئے نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں برتنا ان کے لیے آسان رہا۔ فرید پربتی ان کے بارے میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ:
"ان کی شاعری میں فنی ارتکاز اور فکری تجدید کے ساتھ ساتھ عصری آگہی کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کو اعترافی رویوں تک محدود نہیں رکھتی ہیں بلکہ دیگر تجربات سے بھی اپنی شعری کائنات مزین کرتی ہیں"۔
جھوٹ وقتی طور پر فائدہ دیتا ہے اور انسان کو لگتا ہے کہ جھوٹ سے ہی وہ ترقی، رتبہ اور ہر وہ شے پا سکتا ہے جس کی اسے چاہ ہوتی ہے. کیونکہ دنیا میں چہار سو جھوٹ اور مکروفریب کا بازار گرم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں جھوٹے کا منہ کالا ہوا ہے۔ اس موضوع کو رخسانہ جبین نے خوب صورت انداز میں باندھا ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
دنیا میں دیکھا ہے ہر سو جھوٹ کپٹ چھل مکر و فریب
اور یہ سننے میں آیا ہے کہ جھوٹے کا منہ کالا ہے
انسان جب کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے، کوئی نقصان اٹھاتا ہے تو اس پر بعد میں ماتم کرتا ہے۔ بعض دفعہ ان مشکلات اور مصیبتوں کا انسان خود ذمہ دار ہوتا ہے جن کا اسے سامنا رہتا ہے۔ رخسانہ جبین کا شعر ہے کہ :
کوئی سمجھا دے ساحل پر ماتم کرنے والوں کو
اپنی مرضی سے کشتی کو اس گرداب میں ڈالا ہے
زندگی کیا ہے اس سوال کا جواب اہل فکر نے اپنی بساط اور سوچ کے مطابق دیا ہے۔ جہاں فلسفیوں، مفکروں اور دانشوروں نے اس سوال کی تشریح کی وہیں شعرا نے بھی اپنے طور اس سوال کا جواب دینے کی سعی کی ہے۔ شاعر کے دیکھنے کا زاویہ مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنی سوچ کے مطابق زندگی کا تجزیہ شعر کے ذریعے کرتا ہے۔ زندگی کو ہم جتنی سادہ سمجھتے ہیں یہ اتنی ہی پیچیدہ ہے کیونکہ اس کے رنگ متنوع ہیں۔ ہر فرد زندگی کی کہانی الگ سناتا ہے۔ کچھ عشق کرنے کو زندگی کا حاصل مانتے ہیں تو کسی کا فرمان ہے کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ کوئی زندگی کو دھوپ میں نکلنے اور گھٹاؤں میں نہانے کا نام دیتا ہے تو کوئی زندگی کو مفلس کی قبا کہتا ہے۔ کسی نے کہا کہ زندگی عناصر میں ظہور ترتیب کا نام ہے تو کسی نے زندگی کو چند امیدوں اور ارمانوں کا نام دیا ہے۔ زندگی ایسا معمہ ہے جس کو ہر ایک اپنے طور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ زندگی دیوانے کا خواب بھی ہے اور وہ کہانی بھی جو نہ سنی جا سکتی ہے اور نہ سنائی جا سکتی ہے۔ رخسانہ جبین نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے۔ ان کا شعر ہے کہ:
اپنے اپنے طور پر اہل فکر نے اس کو سوچا ہے
میں بس اتنا کہتی ہوں کہ یہ موت کا اک نوالا ہے
یوناں ہو یا مصر، چین ہو یا عرب عورت ہمشیہ مظلوم رہی ہے۔ اس کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ بعض شقی القلب اپنی عزت کی خاطر اسے زندہ درگور کرتے تھے، تو کبھی اسے اپنے مردہ شوہر کی چتا پر لیٹ کر خود کو زندہ شعلوں کے حوالے کرنا پڑا۔ اسے گناہ کا سرچشمہ مانا گیا، ناقص عقل اور حقیر سمجھا گیا۔ یہ ٹیڑھی ہے کیونکہ یہ مرد کی ٹیڑھی پسلی سے نکلی ہے۔ ان سب واقعات سے یہ احساس کم تری میں مبتلا ہوئی اور اس نے اپنے وجود پر سوچنا شروع کیا۔ اس کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ میرا وجود ہے بھی یا نہیں۔ رخسانہ جبین بھی اپنے وجود کے بارے میں سوچتی ہیں۔ ان کی غزل دیکھیں:

میں ہوں تو کوئی بتلائے کہ ہاں ہوں
صدا تو دے کہ جانوں میں کہاں ہوں

یہی ہے فرق مجھ میں اور اس میں
یقیں ہے وہ تو میں بس اک گماں ہوں

زمیں سے آسماں تک شور کیسا
تو کیا سب کے لیے بار گراں ہوں

بہم اس کو فضائے آسمانی
میں گویا بند کمرے میں دھواں ہوں

میں پھوٹی اس کی پسلی سے تو ٹیڑھی
وہ سیدھا تیر جیسا میں کماں ہوں

خیال و خواب ہے وہ آب دریا
ترے صحراؤں میں ریگ رواں ہوں

کبھی الزام لگتا ہے یہ ہونا
نہ ہو کر بھی تو میں تہمت بجاں ہوں

دلیلیں ڈھیر ساری تو زمیں ہے
بہ ضد اس پر کہ تیرا آسماں ہوں

یہ دنیا دار بچے جانتے ہیں
مرے قدموں میں جنت ہے کہ ماں ہوں

رخسانہ جبین کی تخلیقات وادی کے معتبر اخبار و رسائل شیرازہ، کشمیر عظمی، سنگرمال، آئینہ، نگینہ انٹرنیشنل کے علاوہ شب خون( الہ آباد )، شاعر (ممبئ)، بیسوی صدی ( نئی دہلی )، تناظر(مالیگاؤں ، مہاراشٹر )، جواز (نئی دہلی)، مفاہیم ( گیا ،بہار )، نئی صدی (وارانسی)، جہات، ذہنِ جدید اور کسوٹی میں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں۔
رخسانہ جبین اردو کی ترقی و فروغ کی خواہاں تنظموں اور اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔ ریاستی کلچرل اکیڈیمی کی سب ایڈوائزری بورڈ کی ممبر، گلوبل ایسوسی ایشن آف ویمن تہران، ایران کی ممبر، سابق ایڈوائزری بورڈ ساہتیہ اکادمی کی ممبر، سابق ممبر ایڈوائزری بورڈ نیشنل بک ٹرسٹ، ممبر اسٹیڈیز کونسل شعبہ اردو سنٹرل یونیورسٹی ہیں۔
رخسانہ جبین نے دسمبر 2017 ء میں ایران میں عالمی وحدتِ اسلامی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔2018ء میں ورلڈ ویمن کانفرنس پاکستان میں بھی شرکت کی۔ قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرنے کے علاوہ رخسانہ جبین نے 2018ء میں قومی سطح کا دو روزہ سیمینار "جشن نسائی ادب" کے عنوان سے سرینگر میں منعقد کیا۔ اپنی تخلیقی صلاحتیوں کی بنا پر آپ کو انعامات اور ایوارڈ بھی ملے ہیں۔ آپ کو نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈ، ویمن اکسیلنس ایوارڈ، ہندی کاشمیری لٹریری سنگم ایوارڈ، بخشی میموریل ایوارڈ، خلیٹ حنفی ایوارڈ ملے ہیں اور ڈپارٹمنٹ ٹورازم جموں و کشمیر نے آپ کو توصیفی سند سے بھی نوازا ہے.

رخسانہ جبین صدیوں سے چاند کے تعاقب میں ہیں۔ امید ہے کہ سورج ان کا پیچھا چھوڑ دے گا اور جس چاند کا تعاقب کر رہی ہیں وہ انھیں مل جائے گا۔
میں تعاقب میں ہوں کسی چاند کے صدیوں سے
میرا تب ہی سے تو کرنے لگا پیچھا سورج
پچھلا کالم یہاں پڑھیں: شخصیت : مشتاق مہدی

شیئر کیجیے

One thought on “شاعرہ : رخسانہ جبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے