Iqbal and His Mission ایک اہم کتاب

Iqbal and His Mission ایک اہم کتاب

مظفر نازنین، کولکاتا

سید محمود احمد کریمی صاحب ایک نابغۂ روزگار شخصیت ہیں۔ موصوف اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں۔ جناب سید محمود احمد کریمی صاحب کی اس کتاب کو ایک شان دار بلکہ نایاب کتاب کہہ سکتے ہیں۔ میری مراد ان کی لکھی ہوئی کتاب "Iqbal and his Mission”سے ہے۔ سب سے پہلے تو میں اُن کی بے حد شکر گذار ہوں کہ انھوں نے یہ نایاب کتاب "Iqbal and his Mission”مجھے بہ طور تحفہ عنایت کیا۔ ان کی ان نوازشوں اور عنایتوں کی بے حد شکر گذار ہوں کہ اس طرح کی معیاری کتابیں بک اسٹال پر شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ کتاب "Iqbal and his Mission” Pandemic کے طوفان خیز دور میں منصہ شہود پر آئی. لہٰذا درج ذیل شعر کی ترقیم حسب حال ہے:
آئینہ وفا ہے گنجینۂ شفا ہے
یہ دین کا ہے ہادی دنیا کا رہ نما ہے
بلاشبہ سید محمو داحمد کریمی صاحب کی کتاب "Iqbal and his Mission” کا بہ غور مطالعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ مندرجہ بالا اشعر اس کتاب کے حوالے سے صد فی صد 100%صحیح ہے۔
I have found that the above mentioned couplet is 100% reasonable after reading thoroughly the precious book "Iqbal and his Mission” written by Janab Syed Mahmood Ahmad Karimi Saheb. This book is published by Educational Publishing House, New Delhi – 110002.
زیر نظر کتاب 88 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے سرورق پر شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر سر علامہ اقبال کی خوب صورت تصویر ہے اور آخری صفحے پر سر یعنی عزت مآب سید محمود احمد کریمی صاحب کی تصویر ہے۔ صفحہ 87 اور صفحہ 88 پر موصوف کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں کے نام ہیں. جن کتابوں کے ترجمے کئے گئے ہیں، ان کے نام اور ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی سنہ اشاعت بھی مکمل طور پر واضح کیا ہے۔
سید محمود احمد کریمی صاحب کی دیرینہ علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں دو ایوارڈ بھی ملے ہیں:
(1) Mir Aman Dehlavi Award 2016 میر امن دہلوی ایوارڈ
(2) Shakilur Rahman Award 2018 شکیل الرحمن ایوارڈ
زیر نظر کتاب کو موصوف نے اپنے تینوں صاحب زادوں کے نام منسوب کیا ہے جن کے نام ہیں راشد محمد، فیض احمد اور کلیم احمد۔
بہترین لٹریچر پڑھنے کامزہ کچھ اور ہے اور وہ مزہ اس کتاب "Iqbal and his Mission” کے پڑھنے میں ہے۔ جب قاری خود بحر ادب کی شناوری کے بعد پورے طور پر سیراب ہوجاتا ہے اور قاری کا ذہن بالکل تازہ ہوجاتا ہے تو اسے نئی حرارت، نئی تازگی اور نئی فرحت ملتی ہے۔ ذہنی تشنگی کی تسکین کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور کتاب پڑھنے کے بعد قاری خود کو تر و تازہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ کتاب کا سرورق بھی نہایت دیدہ زیب ہے اور طباعت شان دار جو قاری کو اپنی جانب راغب کرتاہے اور جاذبِ نظر ہے۔
Definitely this book "Iqbal and his Mission” is the best literature, A reader feels enjoyed after reading this book. It is a perfect saying that books are best companion of life. Syed Mahmood Ahmad Karimi Saheb proved this fact.
صفحہ 15پر یوں رقمطراز ہیں:
Believers left Quran and naturally they forgot Allah, Mohammad, peace be upon him and the religion Islam. Hence they had no guiding principle to follow. Because of the absorption in vices and corruption they forgot what was the aim of their creation.
یہ خوب صورت اقتباس علامہ اقبال کے اس شعر میں ظاہر ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
اس کتاب کے دیباچہ میں صفحہ 4 پر سید محمود احمد کریمی صاحب نے حکیم الامت شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر اقبال کی بہت مشہور کتاب "The Reconstruction of Religious thought in Islam” جو عموماً 7 لکچر کے نام سے موسوم ہے، کے ان ساتوں لکچرس کے چار اقتباسات بھی درج کیے ہیں۔ صفحہ 5 پر آخری پیراگراف میں موصوف کہتے ہیں کہ اقبال کی نظموں کو اردو اور فارسی میں پڑھا ہے۔ موصوف کی یہ شاہکار تخلیق ہے۔ آخر میں کہتے ہیں کہ معزز قارئین بتا سکتے ہیں کہ ان کی تخلیق کیسی ہے۔ دراصل یہ ان کی عاجزی اور انکساری ہے۔ درحقیقت ان کی یہ کام  کمیاب تو کیا نایاب ہی کہا جاسکتا ہے۔ جہاں ہر ہر لفظ ایک آبگینہ ہے۔ اور پڑھنے کے بعد تو جیسے چودہ طبق روشن ہوجاتا ہے۔ موصوف Octogeneration ہیں۔ لیکن ماشاہ اللہ قلم کی رفتار تو ایسی کہ روشنی اور ہوا کی رفتار سے بہت زیادہ تیز ہے۔ آغاز آفرینش سے لے کر اب تک بہت آئے لیکن چند نابغۂ روزگار شخصیتوں کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ایسی ہی شخصیت ہے جناب محمود احمد کریمی صاحب کی۔ وہ ایک نابغۂ روزگار ہستی ہیں۔ موصوف بیک وقت ایک کامیاب مدرس، مصنف، وکیل اور مترجم ہیں۔
صفحہ 6 پر سید محمود احمد کریمی صاحب کہتے ہیں کہ اقبال کی دور اندیش نظروں نے سمجھ لیا تھا کہ اس زمانے میں اردو نظموں میں مقامی رنگ نہیں تھا۔ شعرا نے عموماً ”شیریں فرہاد“، ”وامق عذرا“ اور”گلدستہ مصلی“ میں شاعری کو محدود کر رکھا تھا۔ نظیر اکبر آبادی نے قدیم شعرا کی خامیوں کی شناخت کی ہے جو قدیم عہد کے شعرا میں تھے۔ نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظموں میں غیر ممالک کو نہیں بلکہ وطن عزیز سے الفت، محبت، انسیت اور رغبت کو اجاگر کیا ہے اور قومیت کے جذبے سے ہی ان کی نظموں کے عنوانات ہیں۔ ”عید“، ”دیوالی“، ”شب برات“، ”ہولی“، ”طفلی“، ”تندرستی“، ”گرونانک“ گویا انھوں نے ہندستانی تہذیب، ثقافت اور یہاں کی سنسکرتی کا بہ خوبی اظہار کیا ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی حساس ذہنیت اس بات کو سمجھ چکی تھی کہ انھیں اپنی شاعری سے وطن عزیز کے ان سپوتوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے جن پر جمود طاری ہے اور وہ جو خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جب عظیم الشان مغلیہ سلطنت تہہ و بالا ہورہی تھی اور مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہ تھا اور وطن عزیز ہندستان بحرانی دور سے گذر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ پہلی جنگ آزادی 1857ء کو انگریزوں نے سختی سے کچل دیا۔ لیکن مجاہدین آزادی کو اس بغاوت 1857ء سے ملی ناکامی سے تقویت ملی۔ اور دانشورانِ قوم اور رہ بران ملت یہ سمجھ چکے تھے کہ انھیں مشرقی تہذیب کے ساتھ مغربی تعلیم سے بھی روشناس ہونا ہے اور سرسید احمد خاں جیسے عظیم مصلح پیدا ہوئے۔
صفحہ ۹؎ پر جناب سید محمود احمد کریمی لکھتے ہیں:
"Therefore, Sir Syed Ahmed Khan, the pioneer of India, advised the Indian to adopt western culture, civilization and language. Then people ultimately responded to the instruction of the said leader.”
پھر خواجہ الطاف حسین حالی جو قوم مسلم کے سچے امیر اور ہم درد تھے سامنے آئے اور آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں سے قبل عرب میں کئی جہالت تھی اور پیارے نبی آنحضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی آمد سے قبل عرب کی جہالت اور بربریت آفتاب اسلام کی ضیاء پاشیوں سے دور ہوئی۔ اس کا ذکر خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی مشہور کتاب ”مسدس حالی“ میں کیا ہے۔ شعرملاحظہ کریں جو خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے:
اگر بھولتے ہم نہ قول پیمبرؐ
کہ ہیں سب مسلماں باہم برادر
برادر ہے جب تک برادر کا یاور
معیں اس کا ہے خود خداوند داور
نہ آئی یہ بیڑے پہ اپنے تباہی
فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی
موصوف جناب سید محمود احمد کریمی صاحب صفحہ 17پر یوں رقم طراز ہیں:
"Being an Indian citizen he had a great patriotic love and admiration for India. His feelings can be much appreciated by his following poems namely:-
Tasweer-e-Dard, Koh-e-Himala, Ruksat-Aay Bazme Jahan, Tarana-e-Hindi, Hindustani Bachon ka Qaumi Geet, Naya Shewala contained in Baang-e-Dara.”
بلاشبہ ڈاکٹر سر علامہ اقبال میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی شاعری میں قومیت کا جذبہ نظر آتا ہے اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اقبال کا ذہن کس قدر حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے چند اشعار یاد آگئے جو میں قارئین کی فن شناش نظروں کی نذر کرتی ہوں۔ ”ہمالہ“ کے عنوان سے نظم کے چند اشعار قارئین کے پیش خدمت ہیں:
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
گنگا جو ہمارے وطن عزیز ہندستان کی سب سے بڑی ندی ہے۔ اس پر اقبال نے ایک نظم ”گنگا“ کے عنوان سے لکھا تھا۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
اے دل فریب گنگاً! اے دختر ہمالہ
رونق فزائے وادی، روشن گر ہمالہ
آباد بستیاں ہیں فیضِ کرم سے تیرے
ہیں بےشمار جانیں وابستہ دم سے تیرے
عکس شفق کے بر میں پہنے قبائے زریں
اف یہ جمال زیبا، اس پر یہ حسن تزئیں
موجوں کی گھونگھٹوں کو رخشاں جبین سیمیں
دل چھین لے نہ ظالم تیرا حجاب رنگیں
قربان اس ادا کے، صدقے ستم گری کے
کس نے تجھے سکھائے انداز دل بری کے
دامن میں اپنے لے لے تجھ سے جدا نہ ہوں گے
ہنگامہ جہاں سے پھر آشنا نہ ہوں گے
وطن عزیز ہندستان کی فکر تا عمر اقبال کو ستاتی رہی۔ جس کا ذکر ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی یکساں نظر آتا ہے۔ شعر ملاحظہ کریں:
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
وطن عزیز ہندستان میں فرقہ پرستی کو ختم کرنے کے لیے یہ چند خوب صورت اشعار جو علامہ اقبال نے لکھا ہے:
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
یہ ہندیوں کے فکر و فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند!
وطنِ عزیز ہندستان کی شا ن میں نہ جانے کتنے قصیدے لکھ دیے اقبال نے۔ ”ترانۂ ہندی“ کے چند اشعار:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے، ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
Page 39سے Prof. Reynold A. Nicholson کی انگریزی ترجمہ سے صفحہ 50پر اقبال کا ایک شعر ہے جس کا اردو اور انگریزی ترجمہ قارئین کی نذر ہے:
درد دل مسلم مقام مصطفےٰ است
آبروئے ما زِنام مصطفےٰ است
ترجمہ اردو:
حرارت قلب مسلم میں مقام مصطفےٰ سے ہے
ہماری آبرو دنیا میں نام مصطفےٰ سے ہے
In the Muslim’s heart is the home of Mohammad
All our slory is from the name of Mohammad
ضبط نفس کے عنوان سے ایک نظم ہے جس میں صفحہ 58 پر چند اشعار ہیں جن کا فارسی ترجمہ سید محمود احمد کریمی صاحب نے کیا ہے اور Prof. Nicholson صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا ہے:
درکف مسلم مثالِ خنجر است
قاتل فحشا و بغی و منکر است
اردو ترجمہ اس طرح ہے:
یہ سچ ہے دست مسلم میں نماز ایک خنجر ہے
بدی اور بے حیائی کا وہ جس سے کاٹتا سر ہے
اور اس کا ترجمہ (English version of the original text in persian) اس طرح سے ہے جو Prof. Nicholsonنے کیا ہے:
In the Moslem’s hand prayer is like a dagger
Killing sin and forwardness and wrong
مومناں را فطرت افروز است حج
ہجرت آموز و وطن سوز است حج
اردو ترجمہ:
فروزاں حج سے ہوجاتی ہے فطرت مرد مومن کی
یہ ہجرت کا سبق دے کر سکھاتا ہے وطن سوزی
English version by Prof. Nicholson:
The pilgrimage enlightens the soul of the faithful
It teaches separation from one’s home and destroys attachment to one’s native land.
جب دولت را فنا ساز و زکواۃ
ہم مساوات آشنا ساز و زکواۃ
اردو ترجمہ:
فنا کرتی ہے دولت کی محبت کو زکواۃ زر
مساوات آشنا کرتی ہے ملت کو زکواۃ زر
Enlgish version by Prof. Nicholson:
Almagiving causes love of riches to pass away
And makes equality familier
All this is a means of strenghtening thee;
There art impregnable, if thy Islam be strong
باز در عالم بیار ایام صلح
جنگجو یاں را بدہ پیغام صلح
اردو ترجمہ:
جسے ہم کھو چکے ہیں صلح کل کی پھر وہ دولت دے
جہاں میں لڑنے والوں کو پیام صلح و الفت دے
English Version by Prof. Nicholson:
Bring once more days of peace to the world
Give a message of peace to them that seek battle
سجدہ ہائے طفلک و بر نا و پیر
از جبین شرمسار مابگیر
اردو ترجمہ:
خراج ناز سے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سے
کریں سجدے تجھے سب اپنی شرمندہ جبینوں سے
Receive from our downcat brows
The homage of little children
And of young men and old
آخر میں صفحہ 67 پر Prof. A. Nicholson نے ڈاکٹر سر علامہ اقبال کے تعلق سے لکھا ہے کہ موصوف اپنی ذات سے انجمن تھے۔ جو ایک مدبر، دانشور، ماہر تعلیم تھے۔
” Iqbal personality carried so many aspects. Having a brilliant carrier throughout his academic life he was a great scholar, educationist and one of the greatest orientalists of modern age. He was a social reformer, a true religionist and pious devote to God, a poet of extra-ordinary insight and God gifted talent, a great philosopher of this age, a barrister of high thinking and in the end, a perfect saint having extra- ordinary spiritual insight and power. He was the spiritual disciple of Hazrat Maulana Jalaluddin Rumi, whose mathnavi is widely known and regarded next to Quran.”
صفحہ 84 پر غم اقبالؔ کے نام سے ایک نظم ہے۔ جس میں حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ اقبال کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیاہے:
دیدۂ اشکبار کو اور نہ اشکبار کر
ملت غم رسیدہ اب صبر بھی اختیار کر
پھول کی آنکھ بھی ہے تر چشم ستارہ بھی ہے نم
شاہد کائنات کو اور نہ سوگوار کر
کوند کے موج اشک میں ڈوب نہ جائے برق غم
شعلۂ مستقل بنا دل میں اسے اتار کر
ماتم عارضی کا رخ جانب عشق پھیر دے
سوز غم فراق سے درد کو پائیدار کر
جو کہ رموز سروری تجھ کو بتاکے چل دیا
ویسے فقیر کے لیے صدیوں اب انتظار کر
پردۂ مرگ نے اسے تجھ سے چھپا لیا تو کیا
اپنی حیات عشق میں تو اسے آشکار کر
ہے یہی ماحصل اسدؔ اس کے پیام خاص کا
عشق سے زندہ کر خودی فقر سے استوار کر
آخر میں سر یعنی سید محمود احمد کریمی صاحب کو ان کے اس اہم کارنامے Iqbal and his Mission”پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے ایسی کتاب کی پیش کی ہے جس سے اردو کے طلبا و طالبات مستفیض ہوں گے اور اس کتاب کو پڑھنے سے اقبال شناسی کا جذبہ امڈ پڑے گا۔ موصوف سید محمود احمد کریمی صاحب ماہر اقبالیات جنہیں بیک وقت فارسی، اردو اور انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہے۔ موصوف بیک وقت ایک وکیل، مدرس، مصنف اور مترجم ہیں۔ ان کے گراں قدر ادبی و علمی خدمات کو تہہ دل سے سلام اور بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خدا سر کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ آمین

Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ڈاکٹر امام اعظم کے مونوگراف ”مظہر امام“ کا اجمالی جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے