آندھرا پردیش میں اقلیتوں کے لیے سب پلان کی منظوری، ایک اچھی مثال!

آندھرا پردیش میں اقلیتوں کے لیے سب پلان کی منظوری، ایک اچھی مثال!

✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

ملک میں اس وقت مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کی جوحالت ہے، اس سے ہر ذی شعور واقفیت رکھتاہے اور آپ بھی بہ خوبی واقف ہیں، جس کا تفصیلی تذکرہ رنگاناتھ مشرا کمیشن، سچر کمیٹی وغیرہ کی رپورٹ میں موجود ہے،
آزادی کے بعد سے مسلسل یہاں کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ایک منظم پلان کے تحت محروم رکھا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت انتہائی پس ماندگی کا شکار ہوگئی اوردن بہ دن ان کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے، ملک میں کانگریس سے لے کر اب تک جتنی پارٹیوں نے اقتدار کا مزہ چکھا، ساری پارٹیوں نے مسلمانوں سے دھوکہ کیا کسی نے بھی ایمان داری کا ثبوت نہیں دیا، ان سے ووٹ تو لیا لیکن ان کی فلاح و بہبود اور پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا، جب جب مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند ہوئی، حکومت نے مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک کمیشن بنائی، کمیٹی تشکیل دی، لیکن جب اسی کمیٹی نے حقائق کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کی تو بجائے اس پر عمل آوری کے اس رپورٹ کو ٹھنڈے بستے اور کچرے دان میں ڈال دیا گیا، سچر کمیٹی، رنگاناتھ مشرا کمیشن اور اس جیسی دیگر کمیٹیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف کرتی، مساوی ترقیات کے لیے کام کرتی تو آج بھارت کانقشہ ہی کچھ اور ہوتا، لیکن اکثر حکومتوں نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا، اپنے اپنے مفاد کے لیے مسلمانوں کاووٹ حاصل کیا اور پھر مسلمان ہی کو چارے کے طور پر استعمال کیا، حکومت اگر سنجیدہ ہوتی تو آج اتنی بری حالت مسلمانوں کی نہ ہوتی، اب تو یہ ساری سیاسی پارٹیوں کا معمول بن گیاہے کہ "وعدہ کرو اوربھول جاؤ". اس صف میں چھوٹی بڑی تقریباً تمام پارٹیاں شامل ہیں، لیکن کچھ پارٹیاں اب بھی ملک میں ایسی ہیں جو لوگوں سے کیے گئے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں، اور حصول اقتدار کے بعد وہ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتی ہیں، 2014 کے بعد سے ہندستان کی سیاست نے ایک نیارخ اپنا لیا ہے، شدت پسندی، نفرت و تعصب، عدم مساوات کی بڑھتی خلیج، اور ایک خاص طبقے کو ٹارگیٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اب بھی عروج پر ہے، 2014 ہی میں جنوبی ہند کی ایک اہم ریاست "آندھر پردیش" کی تقسیم عمل میں آئی، اور "تلنگانہ اسٹیٹ" کی شکل میں ملک کی انتسیویں ریاست کا وجود ہوا، دونوں تیلگو ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں برسرِ اقتدار ہیں، تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی حکومت ہے، ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے، تلنگانہ میں 12 فی صد اور آندھرا پردیش میں تقریباً 10 فی صد مسلم آبادی ہے، آندھرا پردیش کے چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی ہیں، جومتحدہ ریاست کے چیف منسٹر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے صاحب زادے ہیں، راج شیکھر ریڈی کا شمار، ریاست کے مقبول ترین چیف منسٹروں میں ہوتا ہے، انھوں نے ہرطبقہ کی فلاح و بہبود کے لیے یکساں کام کیا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کی برقراری اور اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ ریاست میں آج بھی لوگوں کی زبان پر ان کا ذکر خیر کثرت سے ہوتا ہے، حیدرآباد کے کئی معمر لوگوں کے مطابق راج شیکھر ریڈی جیسا ہم درد اور غریب پرور سی ایم، ہم لوگوں نے ریاست میں نہیں دیکھا، 2004 میں جب وہ پہلی بار متحدہ ریاست کے چیف منسٹر بنے تو اس وقت انھوں نے ریاست کے مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہوئے ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا جسے انھوں نے پورا کیا اور آج بھی تلنگانہ میں چار فی صد ریزرویشن جاری ہے جو انھی کا کارنامہ ہے، 2004 سے 2009 تک وہ ریاست کے حکمراں اور چیف منسٹر رہے، 2009 میں ہی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں وہ جاں بہ حق ہوگئے تھے، ان کے انتقال کے بعد ریاست میں کانگریس پارٹی بری طرح خلفشار اورگروپ بندی کا شکار ہوگئی، اس کے بعد سے مزید کم زور ہوتی چلی گئی، پھر ایسا کوئی قائد ریاست میں پیدا نہیں ہوا جو کانگریس کی نیا پار لگاسکے، نتیجتاً ریاست میں کانگریس کو اقتدار گنوانا پڑا اورپھر ریاست کی تقسیم بھی عمل میں آئی، راج شیکھر ریڈی ایک زمینی سطح کے سیاست داں تھے، ریاست میں کانگریس کو اقتدار تک لانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیاتھا، ریاست آندھرا پردیش میں انہی کے بیٹے جگن موہن ریڈی بر سر اقتدار ہیں، جگن موہن ریڈی نے اپنا سیاسی سفر 2004 میں شروع کیا، 2009 میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پرضلع کڈپہ سے بہ حیثیت رکن پارلیمان منتخب ہوئے، 30 مئی 2019 کو وہ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ بنے، اور ان کی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی، اسی درمیان انھوں نے اقلیتوں کے لیے سب پلان کاوعدہ کیا تھا، جسے انھوں نے اب پورا کردیا ہے، اخباری رپورٹ کے مطابق "گذشتہ ہفتے آندھرا پردیش کی کابینہ نے سب پلان کی منظوری دے دی، وزیر اعلا جگن موہن ریڈی نے اپنے کابینی اجلاس میں ایس سی، ایس ٹی، اور بی سی طبقہ کے طرز پر اقلیتوں کے لیے بھی سب پلان کو منظوری دے کر، ان کی ترقی کی راہیں ہم وار کی ہیں، اس سب پلان کی منظوری کے بعد اب ریاست کی اقلیتوں کو تمام اسکیمات اور ترقیاتی منصوبوں میں آبادی کے اعتبار سے حصہ ملے گا، کابینہ میں منظور ذیلی منصوبے کے تحت ان تمام اسکیمات اور ترقیاتی کاموں میں، جن میں طبقہ واری اساس پر تقسیم کی گنجائش ہے، ان میں آبادی کے اعتبار سے ترقیاتی امور کے علاوہ بجٹ پر اقلیتوں کا حق ہوگا، عہدے داروں کے مطابق حکومت کی جانب سے اگر ایک لاکھ کروڑ، فلاح و بہبود کی اسکیموں کے لیے مختص کیے جاتے ہیں تو اقلیتی ذیلی منصوبے کے تحت اقلیتوں کے لیے زائد از 10 ہزار کروڑ خرچ کیا جانا لازمی ہوجائےگا، حکومت کے اس فیصلے کے بعد اقلیتوں میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا اور آندھرا پردیش کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جانب سے حکومت سے اظہارِ تشکر کیا جا رہا ہے، ذرائع کے مطابق کابینہ کے فیصلے سے ریاست کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اقلیتوں کے لیے مختص ذیلی منصوبے کو 17محکمہ جات میں قابل عمل بنانے کو منظوری دی گئی، کابینی ذرائع کے مطابق آندھرا پردیش میں محکمہ بہبود، محکمہ تعلیم، محمکہ بلدی نظم ونسق، محکمہ عمارات و شوارع، محمکہ صحت کے علاوہ دیگر محکمہ جات میں اقلیتی ذیلی منصوبے کو قابل عمل بنایا جائےگا، وائی ایس آر کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ”اگر وائی ایس آر سی پی کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ اقلیتوں کے لیے آبادی کے اعتبار سے سب پلان کو منظوری دے گی، اور ان کی مجموعی ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، اقلیتوں کے لیے سب پلان کی تیاری سے قبل سچر کمیٹی، رنگا ناتھ مشرا کمیشن میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی صورت حال کا باریکی اور گہرائی سے جائزہ لیا گیا، اس کے علاوہ ذیلی منصوبے کی تخصیص کے لیے حکومت نے اقلیتوں کا سماجی اور معاشی سروے کرواتے ہوئے ان کی زمینی صورت حال کا جائزہ لیا اور اس کی بنیاد پر ہی اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اقلیتوں کی مجموعی ترقی کے لیے انھیں خصوصی سب پلان منظور کیا جائے تاکہ حکومت سے مختص رقومات کو اقلیتوں پر بھی لازمی خرچ کیا جاسکے، بتایا جاتا ہے کہ حکومت آندھرا پردیش نے اس منصوبے کی تیاری کے لیے عہدے داروں کو ہدایت دی تھی اور ہدایات کے مطابق مختلف عہدے داروں نے مسلسل جائزہ لیتے ہوئے اسے تیار کیا ہے، اس منصوبہ کی تیاری میں سابق پرنسپل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود ڈاکٹر محمد الیاس رضوی کا کلیدی کردار رہا، آندھرا پردیش میں اقلیتوں کے لیے ایس سی، ایس ٹی، اور بی سی طبقات کے طرز پر ذیلی منصوبہ کو کابینہ کی منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کر کے قانونی شکل دی جائے گی، حکمراں پارٹی کو یقین ہے کہ اس منصوبہ کی تخصیص کے سلسلے میں اپوزیشن کی جانب سے بھی کوئی مخالفت نہیں کی جائے گی اور نہ اس میں قانونی رکاوٹ پیدا ہوگی، ذیلی منصوبہ کی کابینہ میں منظوری کے بعد ریاست کے سرکردہ اقلیتی قائدین بالخصوص مسلمانوں نے کہا کہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے اپنے والد ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی یاد تازہ کردی، جنھوں نے متحدہ آندھرا پردیش میں اقتدار ملنے کے بعد اپنا وعدہ پورا کر کے مسلمانوں کو 4 فی صد تحفظات فراہم کرنے کی راہ ہم وار کی تھی، عہدے داروں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی معاشی و سماجی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کے لیے ذیلی منصوبہ کی منظوری آئین کے دائرہ میں ہے، حکومت کا یہ فیصلہ ریاست کے تمام طبقات کی مساوی ترقی کو یقینی بنانے کی سمت اہم پیش رفت ہے".
یہ ہے ایک اخباری رپورٹ، حکومت کا یہ اقدام بلاشبہ قابل ستائش ہے، اس کی سراہنا کی جانی چاہئے، یہ ملک سب کا ہے اور مساوی ترقیات کے ذریعے ہی ملک مضبوط ہوسکتا ہے، کسی ایک طبقے کو نظر انداز کر کے، اس کے حقوق غصب کرکے، نفرت و تعصب کے ذریعے نہ ملک محفوظ رہ سکتاہے اور نہ ہی اس کی ترقی کا خواب دیکھا جاسکتا ہے، ملک بھر میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل ساری عوام اور مسلمانوں سے خوش کن اور مخصوص وعدے تو کرتی ہیں اور اس کے ذریعے ووٹ حاصل کرلیا جاتاہے لیکن جب ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے یاد دہانی کروائی جاتی ہے اور انھیں توجہ دلائی جاتی ہے تو ایسے موقع پر یا تو ٹال مٹول سے کام لیاجاتا ہے یاپھر انھیں یکسر فراموش کردیا جاتا ہے، سیاسی پارٹیوں کا یہ رویہ افسوس ناک ہے، انھیں یہ روش ترک کرنے کی ضرورت ہے، اور اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لائحہ عمل طےکرنے اور اس کو یقینی بنانا چاہئے، ورنہ عوام کو ایسی تمام پارٹیوں کو سبق سکھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو پارٹیاں بے شمار وعدے کرتی ہیں، ہتھیلی میں جنت دکھاتی ہیں، اقلیتوں سے انصاف کرنے کا تیقن دیتی ہیں، لیکن جیت حاصل کرنے اور اقتدار ملنے کے بعد یہ وعدے غائب ہوجاتے ہیں، ایسوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔
جگن موہن ریڈی نے اپنے اس اقدام کے ذریعے سیاسی حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے، جو بہرحال خوش آئند ہے اور دوسری پارٹیوں کے لیے ایک مثال بھی، وعدوں کی تکميل کے لیے چیف منسٹر آندھرا پردیش نے ایک سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا ہے اور ایک اچھی پیش رفت کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کے لیے مثال قائم کی ہے، خود ہماری ریاست، تلنگانہ میں کے سی آر نے مسلمانوں سے درجنوں وعدے کیے لیکن سات سال گذر جانے کے بعد اب تک ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا، جس سے لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑے گا، ورنہ کے سی آر وعدوں کی تکميل کےلئے قدم بڑھائیں اور اس کے لیے اقدام کریں، ضرورت ہے کہ حکمراں پارٹیاں سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر اپنے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے سنجیدگی اور عزم و حوصلے کا مظاہرہ کریں، متحدہ ریاست میں راج شیکھر ریڈی نے وزیراعلیٰ کی سیٹ سنبھالنے کے بعد جب حسب وعدہ مسلمانوں کو چار فی صد تحفظات فراہم کرنے کا اعلامیہ جاری کیا تھا تو اس وقت بھی قانونی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متحدہ ریاست میں اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کو چار فی صد تحفظات سے تعلیمی اور دوسرے شعبہ جات میں کافی فائدہ ہوا اور لوگوں نے استفادہ کیا، لہذا ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور حکمراں جماعتیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی ترقی کے لیے اسی طرح کے جرات مندانہ فیصلے اور اقدامات کریں، اس کے بغیر اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کی ترقی ممکن نہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور چیف منسٹروں کو ایسی جرات و ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر وہ ان کے تئیں سنجیدہ اور مخلص ہیں؟ نہیں تو اس وقت ایک نیا ماڈل ملک میں چل رہا ہے”مودی ماڈل" اور "پھیکو ماڈل" یا اسے آپ "جملہ" ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں، حکمراں طبقے کے دلوں میں اگر چور نہیں ہے تو انھیں جگن ماڈل اپنانا چاہیے ورنہ تو ایک دوسرا راستہ بھی ہے آپ جسے چاہیں اپنا لیں، ہاتھ کنگن کو آرسی کیاہے۔

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مولاناکلیم صدیقی: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے