جو دلیل صبح بہار تھی وہ خیال دل میں سجا گیا

جو دلیل صبح بہار تھی وہ خیال دل میں سجا گیا

صلاح الدین رضوی، مظفرپور

جو دلیل صبح بہار تھی وہ خیال دل میں سجا گیا
ملی جب نگاہ یار سے کوئی جیسے پردہ اٹھا گیا

تری جستجو مری بندگی یہی قول مجھ سے لکھا گیا
ترے رہ بروں سے اسی لیے سر راہ رسوا کیا گیا

میں غبار راہ طلب رہا جو چلی ہوا تو بکھر گیا
جو بکھر کے مجھ کو سکوں ملا تو وہ دل میں اپنے سما گیا

ترے عشق میں رہا بے وفا یہ دروغ سے نہ تو کام لے
‘ترا نام لوحِ مزار پر مرے خون دل سے لکھا گیا`

ترے ظلم کی نہیں انتہا مرا درد ٹھہرا جو لا دوا
مرے درد کی یہی داستاں کوئی شام ان سے سنا گیا

جو پلایا رضوی کو جام حق نہ رہا زباں پہ کوئی طلب
جسے پی کے ہم رہے دم بخود وہی جام ساقی بڑھا گیا
صلاح الدین رضوی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو :غنچہ و گل ہے کہاں شبنم بھی لالہ زار بھی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے