ڈاکٹر امام اعظم کے مونوگراف ”مظہر امام“ کا اجمالی جائزہ

ڈاکٹر امام اعظم کے مونوگراف ”مظہر امام“ کا اجمالی جائزہ

ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا

”ہندوستانی ادب کے معمار مظہر امام“ ایک مونوگراف ہے جو ڈاکٹر امام اعظم کی تحریر ہے۔ یہ کتاب 2019ء میں ساہتیہ اکاڈمی، نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ 119 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ڈاکٹر امام اعظم نے اردو ادب کی کہکشاں جمیل مظہری، پرویز شاہدی اور اجتبیٰ رضوی کے نام منسوب کیا ہے۔ کتاب کے سر ورق پر مظہر امام صاحب کی تصویر ہے اور آخری ورق پر ڈاکٹر امام اعظم کا مختصر تعارف ہے۔ یہ مونوگراف مظہر امام کی شخصیت اور ادبی کارگزاریوں کا احاطہ کرتا ہے اور ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتا ہے۔
مظہر امام کی پیدائش 12مارچ 1928ء کو مونگیر (بہار) میں ہوئی جہاں ان کے والد ہیڈ پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ موصوف اردو کے ممتاز شاعر، ناقد، محقق، خاکہ نگار، بچوں کے ادیب، انٹرویو نگار، مکتوب نگار اور ادبی صحافی تھے۔ مظہر امام نے 84 سال پُروقار، سدا بہار اور سرفراز زندگی جی کر اپنا نقش چھوڑا ہے۔ 30جنوری 2012ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی شخصیت کا رنگ ان کے کنبہ پر بھی چڑھا۔ صفحہ 27 پر ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں: ”ان کی رفیقۂ حیات محترمہ مبینہ امام نے افسانہ نگاری کی۔ 2001ء میں ان کا افسانوی مجموعہ ”پیاس کا صحرا“ شائع ہوکر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ وہ ابھی بقید حیات ہیں۔ ان کے صاحبزادہ شہیر امام نے اردو اور انگریزی میں کہانیاں لکھ کر تخلیقی جوہر دکھایا اور صاحبزادی فرزانہ امام اردو اور انگریزی میں نظمیں لکھتی رہتی ہیں۔ مظہر امام کے خویش مصباح الحق عرصہ تک ٹسکو (دھنباد) میں منیجر کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان دنوں کنیڈا میں مقیم ہیں۔ شہیر امام کی رفیقہ حیات شبنم نسرین 15/اپریل 2017ء کو وفات پاچکی ہیں۔ شہیر امام کی ایک بیٹی ڈاکٹر رباب امام (زوجہ سیف الاسلام، حال مقیم انگلینڈ) اور ایک بیٹا رحیل امام (حال مقیم کنیڈا) ہے۔ شہیر امام کی دوسری شادی 27نومبر 2018ء کو غزالہ نوشین (امریکہ) سے ہوئی۔ فرزانہ امام اور مصباح الحق کے دو بیٹے ندا حق اور صدا حق بسلسلۂ ملازمت کنیڈا میں مقیم ہیں۔
صفحہ 29 پر ڈاکٹر امام اعظم صاحب یہ جانکاری دیتے ہیں کہ مظہر امام کی شخصیت اور فکر و فن پر متعدد یونی ورسٹیوں میں پی ایچ.ڈی. کے مقالے لکھے گئے جن میں محترمہ شاہ بانو رضیہ (جمشیدپور) نے ڈاکٹر انور عمادی، شعبۂ اردو بی این جالان کالج، رانچی کی نگرانی میں 1999ء میں ”مظہر امام: فکر و فن“ کے موضوع پر پی ایچ.ڈی کی سند حاصل کی۔ محترمہ سعدیہ پروین نے پروفیسر مہتاب حیدر نقوی (شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کے زیر نگرانی 2018ء میں ”مظہر امام کی شخصیت اور ادبی خدمات“ کے عنوان سے پی ایچ.ڈی. کا تحقیقی مقالہ لکھا۔
”مظہر امام: غزل گو“ کے عنوان سے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں کہ مظہر امام کا پہلا شعری مجموعہ ”زخمِ تمنا“ 1962ء میں، 1974ء میں مظہر امام کا دوسرا شعری مجموعہ ”رشتہ گونگے سفر کا“ اور 1988ء میں تیسرا مجموعہ ”پچھلے موسم کا پھول“ منصہ شہود پر آیا۔
صفحہ 105 پر ”مظہر امام:خاکہ نگار“ کے عنوان سے ایک مضمون میں ڈاکٹر امام اعظم کہتے ہیں کہ مظہر امام نے 8 ممدوحین کے خاکے پیش کیے ہیں اور ”اکثر یاد آتے ہیں“ جناب مظہر امام کے لکھے خاکوں اور شخصی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ دراصل Pen Portrait ہے مگر ان میں شخصیتوں کے مخصوص اور مطلوبہ ظاہری و باطنی نقوش بدرجہ اتم موثر انداز میں ابھرکر سامنے آجاتے ہیں جن میں شخصیتوں کی ادبی حیثیت مرتب ہوتی ہے۔ بقول گوپی چند نارنگ: ”انہوں (مظہر امام) نے پوری زندگی ادبی دشت کی سیاحی میں گذاری ہے۔ اپنے ادبی اور تخلیقی سفر میں جن شخصیتوں کو انہوں نے قریب سے دیکھا یا جن کی صحبتوں کا فیض اٹھایا یا جن کے کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ہوئے ان کی روداد زیر نظر کتاب کی تحریروں میں یکجا کردی گئی ہے۔ ان میں کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جن کا تذکرہ کہیں اور نہ ملے گا۔“
اس کتاب میں 8 اہم شخصیات جن کے اسماے گرامی اس طرح ہیں: جگر مرادآبادی، مولانا رزاق ملیح آبادی، اشک امرتسری، جمیل مظہری، پرویز شاہدی، کرشن چندر، اختر قادری اور خلیل الرحمن اعظمی ہیں۔ ان پر اس طرح خامہ فرسائی کی کہ ان میں صاحبِ موضوع کی شخصی اور ادبی حیثیت، داخلی اور خارجی تناظرات سے ابھرکر سامنے آتی ہے. اس لیے ان شخصی مضامین کو خاکے کی حیثیت دی گئی ہے۔
”مظہر امام: آزاد غزل گو“ کے عنوان سے ایک مضمون میں صفحہ 80 پر ڈاکٹر امام اعظم دو اہم Psychological Term دراصل Hallucination اور illusion کی تعریف define کرتے ہوئے بڑے ہی خوب صورت انداز میں کہتے ہیں: Hallucination ایک وہم ہوتا ہے۔ جب کسی Object کو دیکھ کر غلط معنی لگالیا جاتا ہے تو اسے illusion کہتے ہیں مثلاً رسّی کو دیکھ کر سانپ سمجھ لینا یعنی illusion میں object کا ہونا لازمی ہے لیکن hallucination میں object نہیں ہوتا جیسے کہ اس شعر سے ظاہر ہے:
وہ بھی دن آئے گا جب خود اپنے ہی سائے سے ڈر جاؤں گا میں
کچھ نہ ہوگا اور گھبراؤں گا میں
پہلے مصرعے میں illusion اور دوسرے مصرعے میں hallucination کی کیفیت ہے۔
”مظہر امام: تنقید نگار“ کے عنوان سے اس مضمون میں صفحہ 85 پر ڈاکٹر امام اعظم مظہر امام کا تعارف اس خوب صورت انداز سے کرتے ہیں: مظہر امام قدرِ اوّل کے شاعر کے علاوہ ادب کے سنجیدہ اور زیرک قاری رہے ہیں اور وسیع المطالعہ اور گہری بصیرت کے حامل بھی۔ اس لیے ادب و فن کے بارے میں ان کا اپنا زاویۂ نظر تھا جس کے اظہار کا موجب ان کی نثرنگاری بنی۔
”مظہر امام: افسانہ گار“ کے عنوان سے صفحہ 115 پر ڈاکٹر امام اعظم کہتے ہیں کہ ”مظہر امام صاحب نے 30-35 افسانے لکھے مگر بقول مظہر امام سب کے سب ضائع کردیے۔ صرف دو افسانوں بعنوان ”آخر اس درد کی دوا کیا ہے“ اور ”وصال کے بعد“ منظر عام پر آئے۔“ مختصر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مظہر امام ہندستانی ادب کے معمار ہیں جنھوں نے ہر صنفِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور اردو ادب میں زبردست سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ کل ملاکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر امام اعظم کی تخلیق ”ہندوستانی ادب کے معمار مظہر امام“ ایک اہم ادبی کاوش ہے جہاں موصوف نے مظہر امام صاحب کی شخصیت کے ہرپہلو کو منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی ہے اور ان کی ادبی حیثیت سے قاری کو پورے طور پر روشناس کرایا ہے۔ 119 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ڈاکٹر امام اعظم نے گویا مظہر امام کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے ایسا لگتا ہے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے سے جہاں قاری مظہر امام کی ادبی حیثیت کے متعلق جانکاری حاصل کرسکتا ہے تو دوسری طرف مصنف ڈاکٹر امام اعظم کی فنی بصیرت، وسیع و عمیق مطالعہ اور گوہرِ افکار کا بھی پتہ چلتا ہے۔
میں ڈاکٹر امام اعظم کو ان کی اس تخلیق پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور خدائے پاک رب العزت کے دربار میں سجدہ ریز ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خدا انھیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے اور اسی طرح اردو ادب کے سرمائے میں اضافہ کرتے رہیں۔ ان کی یہ بے لوث خدمت بلاشبہ ہم اردو والوں کی ذہنی تشنگی کی تسکین کا بہترین ذریعہ ہے۔
***
رابطہ: موبائل: 9088470916 / 98830140346
E-mail ID: muzaffar.naznin93@gmail.com

مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش:اعلا تعلیم کے میدان میں چند علمی شخصیات کی نمایاں کارکردگی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے