ہندستانیت کے نقیب: مہاتماگاندھی

ہندستانیت کے نقیب: مہاتماگاندھی

عمیرمنظر
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس
504/122ٹیگور مارگ،شباب مارکیٹ۔لکھنؤ
موبائل نمبر 8004050865

مہاتما گاندھی کی شخصیت کی سادگی اور ان کے افکار کا تنوع عام دل چسپی کا موضوع رہا ہے۔ ہندستان جیسے کثیر لسانی اور ثقافتی ملک میں وہ اعلا ظرفی اور کشادہ دلی کے مینار نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے جد و جہد آزادی کے سخت زمانے میں برطانوی سامراج کے سامنے ہندستانیوں کی نمائندگی غیر معمولی جرات کے ساتھ کی۔ گاندھی جی نے ہندستان کو جد و جہد آزادی کی راہ پر جس طرح ڈالا اس سے ہندستان کو غلامی سے نجات ملی مگر گاندھی جی کی یہ کوشش ایک تحریک کی صورت میں دنیا میں پھیل گئی۔ دوسرے متعدد ممالک نے اس کے اثرات کو قبول کیا اور وہ آزادی کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ گاندھی جی کی یہ عطا نہ صرف تاریخی ہے بلکہ اسے انسانیت کے مجد و شرف سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
گاندھی جی بہ ظاہر بہت نرم دل اور سادہ انسان تھے لیکن آزادی کے لیے انگزیزوں کے سامنے اپنے اصولوں سے انحراف نہ کرنے والے ایک اٹل شخصیت کے مالک تھے۔انھیں معلوم تھا کہ وہ کسی ایک فرد، طبقے یا کسی خاص لسانی گروپ کی نمائندگی نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ کثیر لسانی، ثقافتی اور تہذیبی ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ کثرت میں وحدت ہی جس کی شناخت ہے۔ برطانوی سامراج نے اسی بنیادی شناخت کو متزلزل کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا اور شاید افتراق کی اسی صورت میں ان کے اقتدار کی مدت دراز ہوتی چلی گئی۔
گاندھی جی کا مخصوص لباس ان کی شخصیت کی شناخت بن گیا تھا۔ لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا تھا کہ ایک نیم برہنہ اور ہڈی پسلی کے انسان میں آخر اتنی طاقت کہاں سے آگئی ہے کہ جس نے پورے سامراج کو ہلا رکھا ہے۔ آئن اسٹائن نے گاندھی جی کے بارے میں کہا تھا کہ ”آیندہ نسلوں کے لیے یہ باورکرنا مشکل ہوگا کہ ایک ہڈی پسلی کے انسان نے برطانوی سامراج کی چولیں ہلا دی تھیں“۔ نمک ستیہ گرہ کے بعد جب گاندھی جی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو رائل پیلس کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے آپ کو دیکھ کرایک انگریز رپورٹر نے کہا تھا کہ”حیرت ہوتی ہے کہ کیسے اس نیم برہنہ انسان نے برطانوی سامراج کو جھکنے پر مجبور کردیا“۔ دراصل گاندھی جی محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ہندستان کا بچہ بچہ ان سے نہ صرف جذباتی لگاؤ رکھتا ہے بلکہ اس کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔مولانا محمد علی جوہر نے اسی لیے ایک تقریر میں برملا گاندھی جی کے بڑے سیاسی رہ نما ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ عدم تعاون کی تحریک اور چورا چوری کے واقعے کے بعد گاندھی جی نے اپنے خلاف اٹھنے والی بعض آوازوں کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر میرے کسی منصوبے پر عمل میں کسی کو دقت درپیش ہو تو میں ہندستان کی سر زمین میں وہ زرخیزی دیکھ رہا ہوں کہ جب چاہوں ایک نئی تحریک کھڑی کرسکتا ہوں اور آزادی کی یہ جدوجہد اسی طرح جاری و ساری رہے گی۔ دراصل گاندھی جی کو ایک عام آدمی کے ساتھ جو لگاؤ اور تعلق تھا اور جس طرح وہ عام ہندستانیوں (بلا تفریق مذہب و ملت) سے انس و محبت رکھتے تھے اس کے نتیجے میں ہی ان کو ہمیشہ یہ احساس رہا کہ میری پشت پر پورا ملک ہے۔ عدم تعاون اور عدم تشدد کے فلسفے اور عمل نے ان کو مزید طاقت بخشی۔ واضح رہے کہ کانگریس میں گاندھی جی کی شمولیت کے بعد سے ہی وہ عام ہندستانیوں کی پارٹی بن سکی۔ یہاں بھی گاندھی جی کا وہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انھوں نے خاص گروپ اور طبقے کی بجائے تمام ہندستانیوں کی ترجمانی کی اور انھیں آزادی کی تحریک میں شمولیت کے لیے ایک پلیٹ فارم دیا۔ دراصل انگریز ہماری جس کم زوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے گاندھی جی نے اس کم زوری کو دور کرنے اور ایک عمومی منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے پوری طاقت لگا دی۔
کثرت میں وحدت کا صدیوں پرانا فلسفہ جو کہ ہندستانی تہذیب کی خصوصیت رہی ہے اور اسے گاندھی جی نے مثبت انداز (Fusion) میں لیا۔ لیکن اسی خوبی کو بدنما (Fission) بنا کر انگریزوں نے استعمال کیا۔”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کی پالیسی اختیار کی۔ برطانوی سامراج نے اسی پالیسی کے تحت ہندستان میں راج کیا اور اگلے سو سال تک حکومت کرنے کا منصوبہ بنایا مگر گاندھی جی جو خود اس کلیدی جملہ کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے انھوں نے ہندستان کے ہر طبقے کو متحد رکھنے میں کام یابی حاصل کی اور یہی کامیابی در اصل تحریک آزادی کی صورت میں ١٥، اگست ١٩٤٧ کو صبح آزادی کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ایسی صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی نے ہندستان میں متحدہ قومیت کا پرچم بلند کرنے کے لیے جو کوششیں کی تھیں آزادی اسی کا نتیجہ ہے۔ ہم آزادی کی ہوائے خوش گوار سے اسی وقت تک مستفید ہوتے رہیں گے جب تک کہ متحدہ قومیت کی صورت میں خود کو سرخرو کرتے رہیں گے۔ تقریباً سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد اب یہ صورت بالکل صاف ہوچکی ہے کہ متحدہ قومیت کی اہمیت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ تکثیری سماج میں یہ ترقی کا سب سے مضبوط زینہ قرار پائے گا اور اس کے علاوہ جو بھی صورت ہوگی چاہے دو قومی نظریہ ہو یا کوئی اور اس کی بنا پائیدار نہیں ہوسکتی۔ ملیشیا، سنگاپور اور جاپان جیسے کثیر ثقافتی ممالک نے دوقومی نظریے کی راہ نہیں اختیار کی جس کے نتیجے میں آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم متحدہ قومیت کے تصور کو شاید نہ اپنا نے کی وجہ سے ہی ابھی تک ترقی پذیری کا بار جھیل رہے ہیں۔
ہندستانیت کا ایک کلیدی نکتہ اتحاد اور باہمی یگانگت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے ہمیشہ اس نکتے پر زور دیا اور باور کرایا کہ تعمیر و ترقی کی راہیں اسی اتحاد میں پوشیدہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم مظہر تو جدوجہد آزادی کی تحریک ہے۔ کیونکہ نہ صرف گاندھی جی بلکہ آزادی کے بیش تر رہنماؤں نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے بغیر آزادی کا حصول ممکن نہیں۔ گاندھی جی نے مختلف مواقع پر نہ صرف اتحاد پر زور دیا بلکہ تہذیبی، تاریخی اور مذہبی دلائل کی روشنی میں یہ بات کہی۔ اس اتحاد کے تئیں انھوں نے عدم تشدد کے فلسفے کو رہ نما اصول کے طور پر پیش کیا اور بتایا کہ برداشت اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی صلاحیت ہم میں ہونی چاہیے۔
ہمیں اپنے باہمی تعلقات میں عدم تشد کا رویہ اختیار کرنا لازمی ہے۔ دونوں فریقوں کا یہ مشترک مقصد ہونا چاہیے کہ ان میں کوئی ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانے کی کوشش نہ کرے بلکہ جب کبھی اختلافات پیدا ہوں تو دونوں انھیں پنچوں کے ذریعہ سے یا جی چاہے تو عدالتوں کے ذریعہ سے طے کرلیں۔(گاندھی جی اور ان کے خیالات، عبداللطیف اعظمی، علمی ادارہ، جامعہ نگر، نی دہلی، ص:۱۸)
ہندستان مختلف زبانوں کا گہوارہ ہے. البتہ اس میں اردو اور ہندی کی اہمیت زیادہ ہے۔ انگریزوں نے اپنے زمانے میں ہی اردو اور ہندی کا مسئلہ محض ہندستان کی دو قوموں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا۔ گاندھی جی تحریک آزادی کے زمانے میں ہی انگریزوں کی چال کو نہ صرف سمجھ گئے تھے بلکہ اس پر ان کی ایک مثبت رائے تھی۔ وہ زبان کے نام پر انتشار نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ ان کا خیال تھا کہ ہم اردو اور ہندی کے بجائے ’ہندستانی‘ کو فروغ دیں اور بول چال کی سطح پر ایک ایسی زبان کو پورے ملک میں عام کریں جسے ہم ’ہندستانی‘ کہہ سکیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے معارف (ستمبر ١٩٤٨) کے شذرات میں وردھا میں منعقد ہونے والے اُس اجلاس کی تفصیل لکھی ہے، جس میں ’ہندستانی‘ کو ہندستان کی عام زبان بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ سید صاحب خود اس اجلاس میں شریک تھے۔ اور انھوں نے اس کی تائید کی تھی۔
گاندھی جی نے متعدد مواقع پر اس خیال کا اظہار کیا اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ زبانوں کے اختلاف میں دراصل ہمارا استحکام پوشیدہ ہے۔ انھوں نے ہندستان کو زبانوں کا سنگم بھی اسی لیے قرار دیا تھا اور خیال ظاہر کیا تھا کہ اس سے ہم ایک دوسرے کو تقویت دے سکتے ہیں۔ ہریجن سیوک کے ایک شمارے میں گاندھی جی نے بہ طور خاص ہندستانی زبان کی وضاحت کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
ہندستانی ہم اس زبان کو کہتے ہیں جسے اتر ہندستان میں آدمیوں کا بہت بڑا طبقہ بولتا ہے اور ہم مانتے ہیں کہ جو شبد عام کاروبار میں استعمال ہوتے ہیں، انھیں چن کر ہندستانی کے ذخیرے میں داخل کرلینا چاہیے اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اردو ہندی دونوں کو اور ادب میں استعمال ہونے والی بھاشاؤں کو ان کی ترقی کے لیے پورا موقع ملنا چاہیے۔ (ہریجن سیوک،١٨،ستمبر ١٩٣٧)
گاندھی جی نے اردو اور ہندی کے علما کی مدد سے ایک ایسی ڈکشنری بنانے کی بھی تجویز رکھی تھی جو ’ہندستانی‘ لفظوں پر مشتمل ہو۔ اس کے ذریعہ وہ دونوں زبانوں کو قریب لانا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کے ان خیالات سے بہ آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زبان سے ان کا یہ تعلق در اصل ملک سے غیر معمولی محبت کا اعلامیہ تھا۔ وہ زبان کے اختلافات سے پیدا ہونے والے انتشار کو سمجھ رہے تھے اور اسی لیے انھوں نے ہندستانی کی تجویز رکھی تھی۔ جس میں سب کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ہوتے۔
کوئی بھی مہذب سماج اخلاقیات کے بغیر تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ ہندستان تو مذہب و تہذیب کا گہوارہ ہی ہے۔ گاندھی جی نے عام اخلاقی رویوں پر خاص طور سے زور دیا اور کہا کہ اخلاقی برتری کے بغیر ہم نہ اپنے اثرات مرتب کرسکتے ہیں اور نہ اس ہندستانیت کو فروغ دے سکتے ہیں جو صدیوں سے ہماری شناخت کا اہم حوالہ ہے۔ گاندھی جی کی وفات کے بعد مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی نے خراج عقیدت پیش کرتے لکھا تھا کہ:
اس نے (گاندھی جی) دنیا کو الفت و محبت اور اخوت و مساوات کا پیام دیا اور اخلاق و روحانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور بے تیغ و تفنگ کے اخلاقی قوت سے فتح حاصل کرنا اور دلوں کو مسخر کرنا سکھایا اور عملاً ثابت کرکے یہ دکھا دیا کہ دنیا میں اصل طاقت اسلحہ کی نہیں بلکہ اخلاق کی ہے اور اسی کے ذریعہ دنیا میں ہندستان کا سر اونچا کیا جاسکتا ہے۔ (ماہنامہ معارف، فروری ١٩٤٨ص۳۸۔۲۸)
گاندھی جی نے اعلی ظرفی، کشادہ دلی، سچائی اور خلوص کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر طے کیا اور تمام باشندگان وطن کو بھی اسی راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کی۔ انھیں معلوم تھا کہ یہ ملک جس میں صرف زبان و تہذیب اورمذہب کا ہی تنوع نہیں ہے بلکہ موسم اور یہاں کی فضا بھی بڑی پُربہار ہے۔ اسی لیے اس راستے کو اختیار کیا تاکہ باشندگان ملک اپنی تمام تر وسعتوں اور رعنائیوں کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرسکیں۔
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :مجتبی حسین صاحب کا شکریہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے