مجتبی حسین صاحب کا شکریہ

مجتبی حسین صاحب کا شکریہ

عمیر منظر
شعبۂ اردو مانو لکھنؤ کیمپس
9818191340
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا ایک فائدہ علمی وادبی شخصیات سے تعارف اور ملاقات کا بھی تھا۔مجتبی حسین سے ملاقات اور ان کو دیکھنے کا موقع دلی کے ادبی جلسوں میں ملا۔البتہ یہ ملاقات محض ملاقات نہ رہ کر بہت جلد ان سے عقیدت و محبت میں تبدیل ہوگئی۔
بی اے کے پہلے سال یعنی 1996میں جولائی کی کسی تاریخ کوغالب اکیڈمی میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنا اہم اور عالمانہ خطبہ ’ابہام،رعایت اور مناسبت،کے عنوان سے دیا تھا۔ان کا یہی خطبہ بعد میں ’اردو غزل کے اہم موڑ‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔اس خطبہ کے موقع پر بہت سے لوگوں کو دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔سچ یہ ہے کہ ادیبوں کی ایسی کہکشاں پہلی بار دیکھنے کو ملی تھی۔اس وقت دلی جن ادیبوں اور شاعروں سے شاد وآباد تھی ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسر محمد حسن،پروفیسر نثار احمد فاروقی،سید حامد،ڈاکٹر تنویر احمد علوی،گلزار دہلوی،رفعت سروش،ڈاکٹر خلیق انجم،پروفیسر اخترالواسع،مجتبی حسین،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،پروفیسر عتیق اللہ وغیرہ کے نام شامل تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے زور خطابت سے دلی کی ادبی وشعری محفلوں کویادگار بنا رکھا تھا۔

یہ یاد تونہیں کہ پہلی بار کب اور کہاں مجتبی صاحب کو خاکہ یا کوئی مزاحیہ مضمون پڑھتے سنا تھا۔لیکن دلی میں رہتے ہوئے بے شمار مواقع انھیں سننے کو ملے اور ہر مرتبہ ان کو سننے کا ایک الگ ہی لطف تھا۔دلی میں ان دنوں دلیپ سنگھ اورنصرت ظہیر کے کالم قومی آواز کے ضمیمے میں شائع ہوتے تھے جب کہ رسالوں کے تو سط سے یوسف ناظم اور مجبتی حسین کو پڑھنے کا موقع ملتا۔جامعہ کے اطراف میں یوسف پاپا اور اسرار جامعی ہمیں بہت آسانی سے دست یاب تھے۔اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر خالد محمود کی شگفتگی دلوں کو گدگدائے رہتی تھی۔
مجتبی حسین کا کالم’میرا کالم‘کے عنوان سے سیاست میں چھپتا تھا۔شاہد علی خان کتاب نما کے ہر شمارے میں ان کا کوئی نہ کوئی کالم ضرور شائع کرتے تھے۔مزاحیہ شاعروں کے علاوہ ان دنوں مجتبی حسین کو پڑھنا بھی ایک اہم مشغلہ تھا۔انٹر نیٹ کی ابتدائی سہولت کے دوران اکثر وبیشتر سیاست میں مجتبی صاحب کا کالم پڑھ لیتا تھا۔لیکن عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ ’کتاب نما‘ میں ان کی جو تحریر شائع ہوتی اس کا الگ ہی لطف ہوتا۔سیاست کے کالموں سے ہی کتاب نماکے لیے شاہد علی خان انتخاب کرتے تھے۔مگر یہ انتخاب حسن انتخاب کے ذیل میں آتا تھا۔ممکن ہے اس میں مجتبی حسین کا بھی مشورہ شامل رہتا ہو۔چوں کہ ان دنوں ’کتاب نما‘ زندہ ادیبوں پر خصوصی شمارے شائع کرتا تھا اس لیے بہت سے خاکے اور مضامین مجتبی حسین سے شاہد علی خاں براہ راست لکھوا لیا کرتے رہے ہوں گے۔دلی کے ادبی جلسوں میں ان کو متعدد بار سننے کا موقع ملا۔اپنی تحریریں اس طرح پڑھتے تھے کہ محسوس ہوتا کہ ابھی ہنس دیں گے مگر وہ پڑھتے رہتے اور لوگ ان کی تحریروں پر ہنس ہنس کر داد دیتے رہتے تھے۔2002میں جب ایم فل میں میرا داخلہ ہوا اور موضوع’منچندہ بانی کی شاعری کا مطالعہ‘ قرار پایا تو پہلا مرحلہ یہی تھا کہ ان کی سوانح کے سلسلے میں کس سے معلوم کیا جائے۔پروفیسر شمس الحق عثمانی نے تو یہ کہہ کر حیران کردیا تھا کہ بانی کو سمجھنے کے لیے پہلے نمبر پر شمیم حنفی اور تیسرے پر احمد محفوظ ہیں۔دوسرانمبر کسی کا نہیں ہے۔اس موضوع سے متعلق ابتدائی مشورہ تو پروفیسرسراج اجملی اورپروفیسر احمد محفوظ صاحب سے ہی کیا تھا۔ انہی لوگوں نے مجتبی حسین کے بارے میں بتایا کہ وہ بانی کے دوستوں سے واقف ہیں ان سے ملو۔مجبتی صاحب سے ملنے کے لیے ڈاکٹر رحیل صدیقی ذریعہ بنے جو ان دنوں قومی کونسل میں بر سرکار تھے اور ان سے بہت قریب بھی تھے۔انھوں نے غائبانہ میرے بارے میں بتا دیا تھا۔پہلی بار جب مجبتی صاحب کو فون کیا تو بڑی اپنائیت سے گفتگو کی۔دوران گفتگو جب ان کے بعض کالموں کا ذکر کیا اور بتایا کہ آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں بہت دعائیں دیں اور پھر ان سے اکثر وبیشتر گفتگو رہنے لگی۔گفتگو عام طور پر بانی کے سلسلے میں ہی ہوتی تھی۔انھوں نے مجھے کنور سین حسرت،بلراج مین را،بلراج کومل،رام پرکاش راہی اور نند کشورورکم سے رابطہ کرنے کے لیے کہا اور ان سب کے فون نمبر بھی فراہم کیے۔انہی کی کوششوں سے بلراج مین را،بلراج کومل،نند کشور وکرم سے ملاقات کا موقع ملا۔رام پرکاش راہی سے ملاقات نہیں ہو سکی کیوں کہ ان دنوں وہ بیمار تھے البتہ فون پر انہوں نے بعض ضروری معلومات فراہم کی۔ اسی دوران ان کا انتقال بھی ہوگیا۔
انٹر نیٹ اور موبائل فون کی وہ سیلابی صورت حال جو آج کا مقدر ہے ان دنوں اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔لائبریری جا کر مواد کی تلاش اور افراد وشخصیات سےملاقات ہی بہترین صورت تھی۔ان افراد سے ملاقات اور گفتگو کے بعد بانی کو جاننے،ان کے ذہن ومزاج کو سمجھنے اور احباب ومتعلقین کے تئیں ان کے رویوں کا خاطر خواہ اندازہ ہوگیا تھا۔ مجتبی صاحب نے بانی کے افراد خانہ کو بھی تلاش کرلیا اور ان کے بیٹے بپن منچندا بانی کا بھی نمبر فراہم کردیا۔بانی کی بیوہ سے بات ہوئی اور پھر ملاقات کا بھی موقع ملا۔
واضح رہے کہ بانی کی شاعری سے متعلق تو مضامین ملتے تھے اور جدید شاعری کے ذکر میں ان کا نام اور اشعار بھی تقریباً ہر مطالعہ کا حصہ رہے ہیں مگر ان کے بارے میں چند ابتدائی معلومات جسے بانی نے اپنے پہلے مجموعہ کلام’حرف معتبر‘میں لکھ رکھا تھا اس سے آگے کچھ نہیں ملتا تھا۔انتقال کے بعد اہم ادبی رسالوں میں ان سے متعلق جومضامین شائع ہوئے تھے اس میں سوانحی حصہ بہت کم تھا۔ من موہن تلخ اور رام پرکاش راہی نے چند سوانحی سطریں اور ایک دو واقعات کا ذکر کیا تھا اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ظاہر ہے ان سے بانی کا سوانحی خاکہ نہیں مرتب کیا جاسکتا تھا۔مجتبی صاحب کی ان کوششوں کی بدولت بانی کے احباب سے ملاقات اور گفتگو کے بعدمیں ذہنی طور پر تیار ہوگیا کہ ان کی سونح مرتب کی جاسکتی ہے۔یہی ملاقات اور گفتگو سوانحی حصے کو ترتیب دینے میں کام آئی نیز بہت سے نایاب اور بعض ایسی نظموں اور غزلوں کی طر ف ان کے احباب نے رہنمائی کی جو ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں تھیں۔مجتبی حسین صاحب دوسروں کا پتا بتاتے رہے اور ملاقات کراتے رہے لیکن خود بانی کے سلسلہ کبھی کچھ نہیں کیا۔ایک روز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے آج کل کی فائل میں ان کا مضمون نظر سے گزرا ’بانی نوآدمیوں کا آدمی‘یہی مضمون ان کی کتاب ’آدمی نامہ‘ میں شامل ہے۔بانی کے اس خاکے میں بعض ایسے گوشوں کی طرف رہنمائی تھی جس سے میں اب تک بے خبر تھا۔یہ تو مجھے معلوم تھا کہ طویل بیماری کی وجہ سے بانی گھل گئے تھے حال آں کہ وہ ایک صحت مند انسان تھے۔مجتبی صاحب کے خاکہ نے اس کو مزید واضح کیا۔انھوں نے اپنے خاکہ میں آخری ایام کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔
”بانی ان دنوں چھوٹی بحر کا مصرعہ بن گئے تھے ہاتھ میں ایک چھڑی بھی آگئی تھی جو اس مصرعے کو وزن سے گرنے نہیں دیتی تھی۔چھڑی کیا تھی اچھی خاصی ضرورت شعری تھی۔اس وقت بانی کے ’حساب رنگ‘ میں ایک ہی رنگ چڑھا ہوا تھا اور وہ تھا زرد رنگ ایسا لگتا تھا جیسے بانی بانی نہیں ہلدی کی گانٹھ ہیں (آدمی نامہ ص171)
میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بانی کے خاکے میں مجتبی حسین نے ان کے بہت سے سوانحی گوشوں کی طرف اشارہ کیا ہے مگر کبھی یہ نہیں کہا کہ میری کتاب آدمی نامہ بھی دیکھ لینا۔ایک مرتبہ میں نے ذکر کیا تو مسکرا کے رہ گئے۔
دلی کے یادگار سمیناروں میں ایک سمینار دہلی اردو اکیڈمی نے ’اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت‘پر کیا تھا۔پروفیسر خالد محمود اس سمینار کے کنوینر تھے۔ انھوں نے سمینار کا خاکہ اس طرح مرتب کیا تھا کہ سمینار یادگار بن گیا۔ اس کی صدارت مجتبی حسین صاحب نے فرمائی تھی جب کہ قرۃ العین حیدر نے افتتاح کیا تھا۔مجتبی صاحب نے بہت دل چسپ خطبہ صدارت پیش کیا۔ان کی اس بات پر محفل زعفران زار بن گئی تھی کہ ’اس محفل کا صدر بن کر میں کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کونہایت ادب واحترام کے ساتھ بار بار جناب صدر کی زحمت سے بچ گیا ہوں‘ اس کے لئے اکیڈمی کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔یہ سیمینار اس لئے یادگار تھا کہ اس میں مقالوں کے ساتھ ساتھ انشائیہ،خاکہ اور رپورتاژ کی شام کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اور دلی کی سرزمین پر مزاح نگاروں کی ایک بڑی تعداد تین روز تک جلوہ افروز رہی۔اس کی تفصیل مدیر شگوفہ کی ’دلی یاترا‘ میں دیکھی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے مجتبی حسین کا ذکر بھی خوب خوب کیا ہے۔
آدمی نامہ اور ان کے بعض دیگر خاکوں کو پڑھنے کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت دلی کے بعض اہم ادیبوں اور شاعروں کو محبتی صاحب کے بنائے ہوئے خاکے کی صورت میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
مظہر امام صاحب سے جب پہلی بار ملنے ان گھر گیا تو مجتبی صاحب کا وہ خاکہ پڑھ چکا تھا جو انہوں نے مظہر امام پر لکھا تھا۔دراصل اظہر غوری مرحوم کے مجموعہ’خاروگل‘ کا دیباچہ مظہر امام صاحب نے لکھا تھا۔غوری صاحب سے دلی کی ابتدائی زندگی میں تعلق ہوگیا تھا۔مجھ جیسے جامعہ کے بعض طلبہ ان کے یہاں شام میں حاضر ہوتے اور بہت سے علمی وادبی پہلو پر ان کی گفتگو سے استفادہ کرتے۔عربی ادبیات کے وہ ماہر تھے۔ متعدد کتابیں غوری صاحب نے ترجمہ کی تھیں۔بہت ادب نواز اور ادب دوست تھے۔امام الہند مولاناابو الکلام آزاد کے شیدائیوں میں تھے۔
مظہر امام صاحب ان دنوں میور وہار میں رہتے تھے. فون پر گفتگو کے بعد وقت طے ہوا اور مقررہ وقت پر ان کے یہاں پہنچ گیا۔مجتبی صاحب نے خاکہ میں ان کے نوکر کا ذکرکیا ہے جسے صرف مظہر امام کے شعر یاد ہیں اس کو دیکھنے اوراس سے ملنے کااشتیاق تھا۔یہ وسوسہ بھی دامن گیر تھا کہ کہیں طالب علم جان کر ملاقات کے لیے زیادہ وقت نہ دیں لیکن بہر حال مظہر امام صاحب سے دیرتک گفتگو رہی. انھوں نے ضیافت کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ان کی نستعلیق شخصیت اور گفتگو کے سامنے کچھ بول لینا ہی بڑی جسارت تھی۔انہوں نے مجھ سے تعلیمی سلسلہ اور اورادبی دل چسپیوں کے بارے میں معلوم کیا۔میں نے  احتیاطاً ان کے بعض مجموعوں کے نام اور ان کے کچھ شعر لکھ کر یاد کرلیے تھے تاکہ گفتگو میں کام آسکیں۔البتہ جتنی دیر تک ان کے ساتھ رہا مجتبی صاحب کے خاکے کے مطابق ان کے ڈرائنگ روم،ان کی گفتگو اور نشست و برخاست پر نظر جمائے رہا۔ دوران گفتگو وہ سب تلاش کرنے کی کوشش کی جسے مجتبی صاحب نے اپنے خاکے میں لکھ رکھا تھا۔’خاروگل‘ کا مقدمہ ایک لفافہ میں خاص انداز میں رکھ کر وہ لائے اور کہا کہ اس کو بہت احتیاط کے ساتھ لے جائیں اور چوکنارہیں کہ کہیں یہ راستے میں گر نہ جائے۔
مجتبی صاحب کے خاکوں کی دوسری شخصیت پروفیسر نثار احمد فاروقی کی تھی۔وہ نثار احمد فاروقی کے بہت قائل تھے اور دل و جان سے ان کی قدر کرتے تھے۔دونوں کے درمیا ن عقیدت و محبت کا رشتہ بہت گہرا تھا۔مجتبی حسین نے نثار احمد فاروقی پر ایک نہیں بلکہ تین کالم لکھے ہیں۔ایک سے زائد کالم انھوں نے کم ہی لوگوں پر لکھے ہیں. اس فہرست میں ایک نام مشہور ترقی پسند شاعرمخدوم محی الدین کا ہے جن پر مجتبی حسین نے متعدد کالم لکھے۔مشہور شاعر ڈاکٹر تابش مہدی صاحب اکثر نثار احمد فاروقی کے یہاں ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ڈاکٹرتابش مہدی کے پہلے شعری مجموعہ تعبیر(اشاعت:1983)پر نثار احمد فاروقی نے مقدمہ بھی لکھا تھا۔ غالباً نثار احمد فاروقی صاحب کی یہی وہ تحریر تھی جسے میں نے پہلی بار پڑھا تھا،یہ دلی آنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔مجتبی صاحب نے ان پر جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر فاروقی صاحب کی تبحر علمی اور متعدد زبانوں میں مہارت کی وجہ سے ان کی شخصیت کا ایک رعب مجھ پر طاری ہوگیا تھا۔یہ اثر ملاقات کے بعد ہی ختم ہوا۔اگرچہ وہ گفتگو زیادہ نہیں کرتے تھے مگر لطف کا کوئی پہلو جانے نہیں دیتے تھے۔خوش خط ایسے کہ اسے دیکھ کر رشک آتا۔واضح رہے کہ وہ بیٹھ کر نہیں لکھتے تھے بلکہ ایک قدرے بلند میز پر کھڑے ہوکر لکھتے تھے۔دیکھنے والا حیرت زدہ رہ جاتا کیوں کہ اسے خیال گذرتا کہ شاید وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے ہیں مگر وہاں تو تحریر کی جلوہ گری تھی۔ہوسکتا ہے کہ کسی کا اورمشاہدہ ہو لیکن میں نے اسی حال میں لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔بعد میں نثار صاحب کی مختلف فی البدیہہ تقریریں سن کر یقین ہوگیا کہ مجتبی صاحب نے ان کے بارے میں جو لکھا تھا اس میں مبالغہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک سچائی تھی، حقیقت کا اظہار تھا۔ان کے انتقال پر شمس الرحمن فاروقی صاحب نے یہ لکھا کہ’عمومی مورخ جن باتوں کو نہ جانتے ہوں وہ نثار احمد فاروقی کے نوک قلم پر رہتی تھیں‘۔
چوں کہ مجتبی صاحب کے خاکے پڑھتے وقت ایک خیال یہ بھی ذہن میں رہتا تھا کہ یہ مزاح نگار ہیں لطف کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیں گے۔اس پہلوئے لطف کو عام طور پر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا مگر مجتبی صاحب کے خاکوں میں اس نوع کے بے شمار مقامات ہیں جہاں پس پردہ ایک سچائی اور حقیقت ہے۔بانی کے بارے میں جہاں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ چھوٹی بحر کا مصرعہ بن گئے تھے اور بانی بانی نہیں ہلدی کی ایک گانٹھ ہیں۔اس پرلطف انداز بیان کا موازنہ اگر آپ شب خون کی اس تحریر سے کریں جو ان کے انتقال پر شمس الرحمن فاروقی نے لکھی تھی تو لطف بیان کا وہ جوہر سامنے آتا ہے جو مجبتی صاحب کے لیے خاص ہے۔شب خون نے بانی کے انتقال پر لکھا تھا
بانی کا نام لیتا ہوں تو اس کا ہنس مکھ چہرہ،روشن آنکھیں،دوست داری کالہجہ،دل نوازی کی باتیں یہ سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہیں۔ لیکن پھر فورا ہی اس کا کم زور جسم…پیلا رنگ اور تکلیف سے ٹوٹا ہوا بدن دل میں آنسوں کی طرح اترنے لگتے ہیں۔
مجتبی صاحب نے کس فن کاری سے بانی کے دوسرے مجموعہ کلا م’حساب رنگ‘ کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس وقت بانی کے حساب رنگ میں صرف ایک ہی رنگ چڑھا ہوا تھا اور وہ تھا زرد رنگ۔مجتبی صاحب کا یہی وہ تخلیقی اظہار تھا جس کی وجہ سے ایک دنیا ان کی تحریروں کی شیدائی اور منتظر رہا کرتی تھی۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران ان سے صرف فون پر رابطہ رہا۔میرے لیے حیرت واستعجاب کا پہلو یہ تھا کہ وہ ادبی دنیا کے چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں سے واقف تھے۔اور اس کااظہار بھی کرتے رہتے۔2017 میں بزم صدف نے انھیں ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا- اس کی تقریب میں شرکت کے لیے انھیں پٹنہ آنا تھا مگر موسم نے ساتھ نہیں دیا۔پٹنہ نہ پہنچنے کا انھیں افسوس تھا مگر موسم نے وہاں پہنچنے والوں کو بھی تو قابل افسوس بنا دیا تھا۔
غالباً٢٠٠٣کی بات ہے۔دلی میں مجتبی صاحب کے دل کا آپریشن ہونا تھا. اس کے لیے خون کی ضرورت تھی۔ڈاکٹر رحیل صدیقی نے کوشش کی اور اس کا مناسب انتطام ہوگیا۔صحت یابی کے بعد ملاقات کے لیے گیاتو شکریہ ادا کرنے لگے اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔لطف کا پہلو یہ نکالا کہ جو خون ان کے احباب نے عطیہ کیاتھا اس کے بجائے کسی دوسرے نام کا خون انھیں چڑھا دیا گیا۔ کہنے لگے کہ یہ سب آپ لوگوں کی محبتیں ہیں جس نے ایک نئی زندگی دی ہے۔ اس کے لیے میں شکر گذار ہوں۔مجھے خیال آیا کہ ہم نے تو ان کی تحریروں سے بہت استفادہ کیا ہے۔ان کے بعض جملے یاد کرکے محفلیں لوٹی ہیں۔ان کے لطیفوں میں ترمیم واضافہ کرکے دوستوں پر رعب جمایا ہے۔جاپان نہیں گئے مگر وہاں کے بارے میں اس طرح گفتگو کرسکتے ہیں کہ جیسے مجبتی صاحب نہیں ہم ہی گئے تھے۔ اس کے لیے کبھی ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔بزرگ بزرگ ہی ہوتے ہیں۔ان کی صحبتوں میں بیٹھنے سے کچھ سلیقہ تو ہاتھ آیا ہی ہے۔دیر سے ہی سہی مگر مجتبی حسین صاحب کا شکریہ ضروری ہے۔بہت بہت شکریہ

ڈاکٹر عمیر منظر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: فہد۔ اللہ کی امان میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے