مہاتما گاندھی کی حق پرستی، عدم تشدد اور زبان اردو

مہاتما گاندھی کی حق پرستی، عدم تشدد اور زبان اردو

داؤد احمد
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو،
فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج محمودآباد،سیتاپور(یو۔پی)

مہاتما گاندھی نہ صرف ہندستانی تاریخ بلکہ عالمی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں جنھیں آنے والی نسلیں بھی کبھی فراموش نہیں کر سکیں گی۔ انھوں نے دبے کچلے اور مظلوم طبقوں کو اوپر اٹھانے کے لیے جو کوششیں کیں، ان کے مثبت نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ انھوں نے دبے کچلے مظلوم لوگوں کو اپنے حق کے لیے جد و جہد کرنے کی ہمیشہ تحریک دی۔ لیکن اس کے لیے بھی انھوں نے پر امن جد و جہد کا راستہ دکھایا اور عدم تشدد کے ذریعہ اپنا حق لینے کی تلقین کی۔ ہندستان کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانے کی جو تحریک، جو لڑائی انھوں نے شروع کی، وہ بھی عدم تشدد پر مبنی تھی۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس پر اقوام عالم انگشت بدنداں رہ گئی تھیں۔ انھیں حیرت تھی کہ آخر یہ تجربہ کامیابی سے کیسے ہمکنار ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ عدم تشدد پر مبنی اس لڑائی نے برطانوی سامراج کو اخلاقی طور پر اتنا پست کر دیا تھا کہ اسے ہندستان کو بالآخر آزاد کرنا ہی پڑا۔ اس کے نتیجے میں گاندھی جی کا عدم تشدد کا فلسفہ تمام دنیا کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ بیش تر افریقی و ایشیائی ممالک کو خاص طور سے اس فلسفے نے ایک ایسا راستہ دکھایا جس پر گام زن ہوکر ان ملکوں کے عوام نے اپنے حق اور انصاف کی لڑائی میں کامیابی حاصل کی۔
آئنسٹائن نے گاندھی جی کے بارے میں کہا تھا: آنے والی نسلوں کو بڑی مشکل سے یقین آئے گا کہ گوشت پوشت سے بنا ایک ایسا بھی انسان کبھی اس زمین پر چلا پھرا تھا۔ آج اتنے برس بعد گاندھی کی شخصیت واقعی ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ سادگی ایسی کہ زندگی کا بیش تر حصہ ایسے لباس میں گزار دیا، جس سے تن کو پوری طرح ڈھا نپنا مشکل ہے۔ بولتے تھے اتنے دھیمے لہجے میں کہ بہترین خطیبوں میں کبھی ان کا شمار نہیں کیا گیا۔ صورت شکل، قد کاٹھی ایسی کہ دیکھنے میں عام آدمی سے بھی زیادہ عام لگتے تھے۔ تقریر کی مانند تحریر بھی کسی طرح کے گھماؤ پھراؤ، لفاظی یا ڈراما پن سے پاک۔ یعنی کوئی ایسا ظاہری وصف ان کی شخصیت میں نہیں تھا، جسے آج کے دور میں ہر بڑے سیاست داں، دانشور، سماجی رہ نما، یا روحانی پیشوا کی ذات میں ڈھونڈا جاتا ہے، اور جس کے بغیر کوئی شخص ایک بڑی شخصیت اس دور میں بن ہی نہیں سکتا۔ لیکن ان تمام ظاہری اوصاف کی عدم موجودگی میں نہایت غیر اہم اور مجہول سے نظر آنے والے اس شخص کو آج عظمتیں سلام کرتی ہیں۔ حق پرستی اور عدم تشدد کی روش نے انھیں ان کی زندگی میں ہی مشرق کی سب سے عظیم شخصیت بنا دیا تھا۔ آج ان کی ذات اور ان کی فکر تمام دنیا کے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہے۔ آج کی دنیا ان کے فلسفے اور ان کی فکر کو طرح طرح کے مسئلوں، الجھنوں اور بے چینیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی اور امید کی آخری کرن کے طور پر دیکھنے لگی ہے، اور تجربے بتا رہے ہیں کہ وہ حق پرستی انسانی مسرتوں کا اصل سر چشمہ اور وہ عدم تشدد انسانیت کی نفی کرنے والی ہر تباہ کن طاقت کے مقابلے میں سب سے موثر اور پر قوت شریفانہ ہتھیار ہے، جس کی تبلیغ گاندھی جی نے زندگی بھر کی اور جس کی خاطر آخر کار وہ ایک منحوس نظریے کے وحشی پیرو کار کی گولی کا نشانہ بھی بنے۔
گاندھی جی کے اہم کارناموں میں قومی اتحاد، فرقہ وارانہ خیر سگالی، عدم تشدد اور اہنسا کا فلسفہ اس قابل ہے کہ ان پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور باہر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو ہم دور کر سکتے ہیں۔گاندھی جی نے ذات، مذہب، علاقائیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قومی ایکتا کا یہی نظریہ ان کی فکر کا بنیادی پتھر ہے جس پر وہ ایک خوش حال قوم کی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کا یہ نظریہ اس قومی روایت پر مبنی معلوم ہوتا ہے جس کے مطابق پوری کائنات کو اللہ کا کنبہ قرار دیا گیا ہے۔
ہماری اردو زبان کے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ گاندھی جی کو یہ زبان دیگر ہندستانی زبانوں سے کچھ زیادہ ہی عزیز تھی۔ اتنی کہ انھوں نے ذاتی کوشش سے نہ صرف اردو پڑھنا لکھنا سیکھا بلکہ اس کی مشق بھی کرتے رہے۔ اردو سے اس محبت کا ثبوت ان کے وہ سیکڑوں اردو میں لکھے ہوئے خط ہیں جو آج بھی مختلف گاندھی میوزیموں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان میں زیادہ تر خط وہ ہیں جو انھوں نے اپنے رفیقوں سے اردو میں لکھوائے تھے اور اپنے قلم سے ان پر اردو میں صرف دستخط کیے تھے، لیکن ایسے خط بھی خاصی تعداد میں ہیں جو پورے کے پورے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ گاندھی جی صرف اردو کو آزاد ہندستان کی قومی زبان بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ ایک ایسی اردو کو جو فارسی و عربی سے زیادہ بندھی ہوئی نہ ہو اور ایک ایسی ہندی کو جو سنسکرت کے بجائے عام بول چال سے ہم آہنگی رکھتی ہو، آپس میں ملاکر اسے ’ہندستانی‘ یا کوئی اور نام دینے اور اسے اردو اور ہندی دونوں کے رسم خط میں قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کے حق میں تھے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس نظریے کو عمل میں لانا اس وقت کی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے مدِ نظر خاصا دشوار کام تھا، یہاں تک کہ بعض کوتاہ اندیش دانشور اسے یوٹوپیائی فکر بھی قرار دینے لگے تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گاندھی جی اردو کے رسم خط کو اپنی مجوزہ زبان کے ساتھ بر قرار رکھنا چاہتے تھے۔
گاندھی جی کوئی زبردست قسم کے ماہر لسانیات نہیں تھے۔ ان کی نظر ان سیاسی، سماجی، فکری اور جذباتی پہلوؤں پر زیادہ تھی جو دو قومی نظریے کا بائی پروڈکٹ بن کر سامنے آرہے تھے. اس کے باوجود اردو اور ہندی کو قریب لانے کی جو بات انھوں نے ستّر اسّی برس پہلے سوچی تھی، وہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ آج ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ سرکاری طور پر نہ سہی لیکن عام بول چال اور ملک گیر عوامی ترسیل کی سطحوں پر دونوں زبانوں کے اختلاط سے ایک نیا قومی لہجہ اور ڈکشن تشکیل پا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، بازار کی طاقت اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک طرف دونوں زبانوں کے ظاہری فرق کو کم کیا ہے تو دوسری طرف ان کے، خاص طور پر اردو کے اپنے طور پر فروغ پانے کی نئی راہیں بھی استوار کی ہیں۔
’ہندستانی‘ زبان کے نام سے گاندھی جی نے جو نظریہ پیش کیا تھا، اسے آج کے ہندستان میں ’بین لسانی بقائے باہم‘ کے محرک کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کو ملک کے مختلف حصوں کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کے ساتھ ہم رشتہ کیا جائے۔دکنی، اودھی، پنجابی، ہریانوی، راجستھانی جیسی علاقائی اور مقامی بولیوں سے اردو کا رشتہ قائم کیا جائے اور ان بولیوں کی تخلیقات کو اردو کے رسائل و جرائد میں جگہ دے کر اس نقصانِ عظیم کو پر کرنے کی کوشش کی جائے جو کبیر، سورداس، میرا بائی، رحیم، رسکھان اور جائسی جیسے ادیبوں کو اردو سے باہر رکھ کے ہمارا اردو سماج پہلے ہی اس زبان کو پہنچا چکا ہے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ علاقائی زبانوں اور مقامی بولیوں میں تخلیقی ادب کی حوصلہ افزائی کی جائے، ان کے تخلیق کاروں کو اردو کی محفلوں اور سیمینار وغیرہ میں بلایا جائے کہ اردو سماج کا یہ رویہ خود اردو کی وسعت و فروغ کا ایک موثر طریقہ بن سکتا ہے اور یہی گاندھی جی کو ہم اردو والوں کا سب سے اچھا خراج عقیدت ہوگا جو تمام ہندستانی زبانوں کے بقائے باہم اور اشتراک میں یقین رکھتے تھے!
مہاتما گاندھی واحد ایسی شخصیت ہیں جن کا دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں احترام کیا جاتا ہے۔ یقینی طور پر ساری دنیا میں اب تک ان کے جیسا کوئی رہ نما نہیں ہوا۔گاندھی جی کے اقتصادی فلسفے پر چل کر شہروں اور گاؤں کو ترقی دی جا سکتی ہے اور ان کے مسائل کو دور کیا جا سکتا ہے۔ سماج کو اقتصادی نا برابری اور کساد بازاری سے محفوظ رکھنے کے لیے گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جانا چاہئے۔
مہاتما گاندھی نے ہندستان کو آزاد کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے عدم تشدد اور ایمان داری کا جو درس دیا وہ آج کی زندگی میں زیادہ با معنی ہے۔انھوں نے ہمیشہ سادہ زندگی گزارنے اور اعلا خیالات اپنانے کی تعلیم دی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مہاتما گاندھی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، ان کی پوری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کے مانند ہے۔ یہی و جہ ہے کہ آج ہر کوئی گاندھی جی کی شخصیت سے بہت حد تک آگاہ و با خبر ہے۔
گاندھی جینتی کے موقع پر سب سے بہتر خراج عقیدت یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے سب سے مضبوط اور اہم نظریہ ’عدم تشدد‘ کو فروغ دینے کے لیے پہل کریں اور سکون کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اردو کے مشہور شاعر مجازؔ لکھنوی نے گاندھی جی کے انتقال پر ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا ؎
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج محمودآباد، سیتا پور (یو۔پی)
موبائل نمبر: 8423961475
ای میل:daudahmad786.gdc@gmail.com
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن اور یوم اساتذہ


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے