دینی و عصری تعلیم کی اہمیت، افادیت اور ضرورت

دینی و عصری تعلیم کی اہمیت، افادیت اور ضرورت

حسین قریشی
بلڈانہ، مہاراشٹر

موجودہ دَور مقابلہ آرائی کا ہے۔ آج ہمیں ہر شعبے میں ایک سے زائد مقابل نظرآرہے ہیں۔ ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ان سے انہی کے طرز پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ٹی وی چینل کے ذریعے اپنی تعلیمات و رجحانات دنیا تک پہنچا رہے ہیں تو ہمیں بھی اسی کے ذریعے سے ہماری مفید و درست معلومات عوام الناس تک پہنچانا ہوگا۔ تب ہی ہم ان سے صحیح مقابل کر سکیں گے. اس کے برعکس اگر ہم صرف جلسے و جلوس یا بیداری کے پروگرامس منعقد کرکے اپنی حقیقی بات لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور یہ سمجھتے کہ ہم بھی اپنی ذمہ داری مکمل کررہے ہیں تو یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہوگا۔ شاید میرا مدعا آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اس کو ہم "علم" کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج دنیا میں دوسرے مذاہب کے ماہرین جس طرز پر جدید علوم کے ساتھ اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات کو عام کررہے ہیں، ہمیں بھی اسی جدید طریقۂ کار کو اپنانا ہوگا۔ ورنہ دیگر مشنری جس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہم ان سے بہت پیچھے رہ جا ئیں گے۔

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ جس کی شروعات ہمیں بچپن ہی سے کردینی چاہیے۔ ہمارے اسلاف نے تعلیم کا منظم و مستقل طریقۂ کار مہیا کیا تھا۔ جس کے بے شمار فوائد و مثبت اثرات سے آج تک پوری دنیا فیضیاب ہورہی ہے۔ چاہے وہ دینی علم ہو یا دنیاوی علوم و فنون ہو۔ اس کی تفصیلات جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوگی۔ اس دور میں صرف علمِ نافع ہی ہوا کرتا تھا۔ جس کی نشر و اشاعت اور تحقیق و تجربات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بڑے بلند پایہ، جید عالمِ دین، مفسران کرام، مترجم حضرات، حفاظ کرام کے ساتھ ہی ریاضی داں، سائنس داں اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین ملے۔ جنھوں نے ہماری دینی و دنیاوی زندگی کی ترقی کی راہیں ہموار کیں۔ ہم سب اس بات سے بہ حسن وخوبی واقف ہیں۔

لیکن جب سے ہم نے علم کو دینی اور دنیاوی حصوں میں منقسم کیا۔ ہماری تنزلی شروع ہو گئی۔ جس کے اثرات آج بھی ہم محسوس کررہے ہیں‌۔ ہم یہیں نہیں رکے بلکہ ہم نے دیگر زبانوں کو سیکھنے سے بھی گریز کیا۔ کیوں کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اردو اور عربی زبانیں ہی دینی تعلیم کا ذریعہ ہیں۔ دنیاوی علم سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جب سرسید احمد خان جیسی عظیم شخصیت دینی و عصری تعلیم کا روشن چراغ لیے ہمارے سامنے آئی۔ جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "میں اپنی قوم کے نونہالوں کے ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے میں سائنس دیکھنا چاہتا ہوں۔" ہم ان کی اس دور اندیشی کوسمجھ نہیں پائے۔ اور ہم میں سے اکثر نے مختلف طریقوں سے ان کا بائیکاٹ شروع کیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں خود بھی اور ہمارے اہل و عیال نونہالوں کو بھی "علم نافع" سیکھنا چاہیے۔ جو انسان میں اخلاقی اقدار پیدا کرے۔ ایسا علم انسان میں انسانوں کی خدمت کا جذبہ پیدا کرے۔ جو ہمیں تہذیب و تمدن، ثقافت اور مثبت رویوں کے ساتھ ہی حق و باطل میں، سچ و جھوٹ میں، صحیح و غلط میں، مغز و پوست میں تمیز کرنا سکھائے۔ ایسا علم جو اللہ ربّ العزت کی ربوبیت، وحدانیت اور اس کی تخلیقات سے روشناس کرائے۔ ایسا علم جو رضائے الٰہی کا سبب ہو۔ جو قرب خداوندی کا ذریعہ ہو۔ ایسے علم کے حصول کی ہمیں سعی و کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایسا علم اگر ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی ( Science & Technology ) سے یا طب و انجینئری سے، تاریخ و فلسفہ کے اسباق سے ، یا زبان وادب کے دروس سے بھی جوڑے رکھے۔ اگر یہ تمام علوم و فنون انسان کو اس مقصد تک پہنچانے میں مفید و مددگار ثابت ہوتے ہیں توبلاشبہ یہ علوم و فنون حاصل کرناچاہئے۔ ان عصری علوم کو دینی طرز و فکر سے وابستہ کرنا ہمارا اہم فریضہ ہے۔

تعلیم و تربیت ہمہ جہت ترقی کا عمل:
آج کے اس ترقیاتی دور میں بھی روز بہ روز نئی نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک سہولیات کی چیزیں دستیاب ہورہی ہیں‌۔ لیکن تعلیم کا نہ کوئی Substitute آج تک پیدا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں پیدا ہوگا۔ اس لیے ہمیں دین و دنیا کی ترقی و کامیابی کے حصول کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہی ہوگا۔ تعلیم انسان کا بیش قیمت زیور ہے۔ تعلیم انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔
تعلیم ہی اندھیری راہوں کو روشن کرتی ہے۔ علم نے ہی انسانیت کو اس کا مقام عطا کیا ہے۔ انسان کو شرف و منزلت تعلیم نے ہی بخشا ہے۔ تعلیم نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنایا۔ چنانچہ انسان کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت حاصل کرنا انتہائی لازمی و ضروری ہے اور ویسے بھی تعلیم و تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو ایک دُوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں اگر کسی ایک مؤثر ترین تاریخ ساز عامل کی تلاش کی جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کی جا سکتی ہے کہ اس میں سرفہرست تعلیم آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز سے اسے آراستہ کیا وہ "علم” تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا- "اور یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں کو فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔"(ترجمہ القرآن)

علم ہی نے انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ- اے نبیﷺ اپنے رَبّ کا نام لے کر پڑھو جس نے عالم کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ جس نے قلم کے ذریعے علم عطا کیا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا۔ (ترجمہ القرآن) تعلیم ہر زمانے ہر دَور میں انسانوں کی ترقی کے لیے اہم رہی ہے۔ دین اسلام نے بھی تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی بلکہ نزول وحی کا پہلا لفظ ہی تعلیم سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں بھی تعلیم و تعلم کا بارہا ذکر ہوا ہے۔ تعلیم ہی انسانوں کو مالکِ حقیقی کی پہچان کراتی ہے۔ زندگی بسر کرنے کے اطوار و عادات دیتی ہے۔ آج تک دنیا میں تعلیم یافتہ اقوام نے ہی حکومت کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمارے مکتبِ فکر کے ایسے ادارے جو عصری تعلیم کو دینی تعلیم سے جوڑکر تربیت دیتے ہیں، وہاں پر اپنے نونہالوں کو تعلیم دلائیں۔ تاکہ ان کی ہمہ جہت ترقی ہو۔ وہ بڑے ہوکر عرفانِ رب العالمین کو سمجھنے کے ساتھ ہی اپنے والدین، اہل خانہ، رشتے داروں کے ساتھ ہی حقوقِ انسانی کو بہ حسن و خوبی سمجھیں اور عملی طور پر نیک بنیں۔

اردو زبان میں ہمیشہ تعلیم و تربیت کے دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب کہ تعلیم و تربیت دو الگ الگ مفہوم رکھنے والے الفاظ ہیں۔ تعلیم کا مقصد نامعلوم اشیا کو جاننا، پہچاننا اور سمجھنا ہے۔ تعلیم کا تعلق علم اور جاننے سے ہے اور تربیت کا تعلق علم مکمل کرنے سے ہے۔ تربیت سے مراد ضمیر اور سیرت و کردار ہے۔ علم کے حصول کے بعد انسانی برتاؤ میں مثبت تبدیلی اس کے کردار و اخلاق میں نمایاں ہونا "تربیت" کہلاتا ہے۔ علم سے نیک، اچھے اور بلند خیالات پروان چڑھتے ہیں۔ ان ہی خیالات کو انسان اپنی زندگی میں ڈھالتا ہے۔ اسے ہی تربیت کہاجاتا ہے۔ تلقین، ہدایت، تربیت، حقیقت شے کا ادراک یقین و معرفت وغیرہ تربیت ہے۔ دراصل علم، مہارتوں او رویوں کو نئی نسل میں منتقل کرنا تعلیم کہلاتا ہے۔ یہ ایک منظم و منصوبہ بند اور مسلسل کوشش کرنے کا نام ہے۔ جس کے ذریعے اطلاعات، تصوّرات، مہارتوں، رویوں یا عادات کی ترسیل و تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہ ایک مقام، ایک ماحول یا ایک فرد کی کوششوں کی بجائے مختلف قسم کے ماحولیات میں اور بہت سے افراد کی کاوشوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کیونکہ تعلیم وہ اجتماعی عمل ہے جس کے ذریعے معاشرہ اور نسلوں کو دستورِ حیات سکھایا جاتا ہے.

مذکورہ بالا گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمیں دنیا کے تعلیمی ، سماجی، معاشی اور مذہبی مشنری کو بہ خوبی سمجھتے ہوئے اپنے حقیقی مذہبِ اسلام کی بقا وترقی کے لیے اور اسلامی تعلیمات ہماری آئندہ نسلوں میں پروان چڑھانے کے لیے ایسے منظم ، مستقل ، منصوبہ بند اور جدید طرز پر تعمیر شدہ اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ جسے ہم ” اسلامک مکتب یا اسلامک اسکولز” کہتے ہیں۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ہی عصری تعلیم سکھانے کا اعلا، مؤثر اور جدید نصاب موجود ہوتا ہے۔ ان اداروں سے حقیقت میں اسلامی تربیت کے ساتھ نصابی تعلیم دی جائے۔ یہ ادارے دین و دنیا کی فلاح و بہبودی کے عمدہ پُر نور منبعے ہیں۔ ہم تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی تابناکی و مہک سے اپنے بچوں کو مجلا و معطر کریں۔ ان اسکولز میں بچے ابتدائی ایام سے ہی دینی تعلیم سیکھ کر اس پر عمل کرتے ہوئے سائنس داں، ریاضی داں، انجینئر، کمپوٹر انجینئر، ڈاکٹر، پروفیسر وغیرہ دیگر تمام شعبوں میں کامیاب بنتے ہیں اور عملی زندگی میں قرآن و سنت کی روشنی میں عمل پیرا ہوکر خدمتِ خلق کرتے ہیں۔ جس سے انھیں دونوں جہانوں کی خوشیاں و کامیابیاں ملتی ہیں.

حُسین قریشی کی دوسری نگارش یہاں پڑھیں :بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ایک جوہرِ نایاب تھے

شیئر کیجیے

2 thoughts on “دینی و عصری تعلیم کی اہمیت، افادیت اور ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے