دستور امارت شرعیہ میں اوصاف امیر شریعت

دستور امارت شرعیہ میں اوصاف امیر شریعت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ کے دستور کا خاکہ سب سے پہلے بانی امارت شرعیہ ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے بنایا تھا، اس خاکہ میں امارت شرعیہ کے مقاصد، نصب و عزل امیر کے اصول و ضوابط، قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے تھے، انھوں نے اس دستور میں امیر شریعت کے انتخاب کے لیے ارباب حل وعقد کی ایک مجلس بنام ’’مجلس ملی‘‘ بنانے کی بات بھی کہی تھی ، لیکن حضرت کی زندگی میں دستور کا کام مکمل نہیں ہو سکا، ۱۹۵۷ء میں جب حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ چوتھے امیر شریعت منتخب ہوئے تو انھوں نے اس طرف توجہ دی، اور مجلس شوری کے مختلف اجلاس میں دستور کی دفعات پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر ۱۹۶۶ء میں انہی کے دور میں دستور کا مسودہ مرتب ہو گیا، لیکن مجلس شوری سے منظوری کا کام برسوں التوا میں رہا اور حضرت امیر شریعت ۷؍ مارچ ۱۹۹۱ء میں آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے ، حضرت امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن صاحب کے دور میں ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو مجلس شوریٰ نے ایک گیارہ نفری کمیٹی دستور کے کام کو مکمل کرنے کے لیے بنائی، اس کمیٹی نے مجلس شوریٰ میں پیش کی گئی ترمیمات اور انتخاب امیر کے تحت منظور شدہ دفعات کو مسودہ کا حصہ بنا کر اس کام کومکمل کر دیا، ۲۲؍ ستمبر ۱۹۹۶ء کو منعقد مجلس شوریٰ کے اجلاس میں یہ مسودہ پیش ہوا، مکمل دستور کی خواندگی کے بعد مجلس شوریٰ نے منظور کرکے طباعت کی اجازت دے دی، چنانچہ اب یہ دستور مطبوعہ شکل میں موجود ہے اور نافذ العمل ہے، اس دستور کی دفعہ ۱۰؍ میں اوصاف امیر کے تحت پانچ باتیں ذکر کی گئی ہیں۔
’’۱۔ عالم با عمل ہو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی اور حقائق کا معتد بہ علم رکھتا ہو، اغراض و مصالح شریعت و فقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شریعت پر عمل پیرا ہو۔ ۲۔ سیاسیات ہند و سیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو، اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہو چکا ہو۔ ۳۔ ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام وخواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔ ۴۔ حق گو، حق شنو، جری اور صاحب عزیمت ہو۔ ۵۔ فقہی تعبیر میں اس کی ذات کو مایزول بہ مقصود الامارۃ سے تعلق نہ ہو‘‘
اس دفعہ کی شق اول میں امیر شریعت کے لازمی اوصاف میں عالم با عمل ہونے کی بات کہی گئی ہے، اس شق کو سمجھنے کے لیے عالم کی تعریف کا جاننا ضروری ہے۔ عالم کے معنی لغت میں جاننے والے کے آتے ہیں، اس کے لغوی معنی میں ایسا عموم ہے کہ کسی بھی طرح کی باتیں جاننے والوں کو عالم کہا جا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، عام بول چال میں عالم کے عمومی معنی متروک ہو چکے ہیں ہر جاننے والے کو کوئی عالم نہیں کہتا، بلکہ اس کا اطلاق کچھ خاص قسم کی صلاحیت رکھنے والے پر ہی ہوتا ہے، گویا عرف عام نے اس لفظ کو لغوی معنی سے نکال کر ایک الگ معنی میں استعمال کرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے عالم کی الگ اصطلاح وجود میں آئی، منطق کی اصطلاح میں اسے منقول اصطلاحی کہا جاتا ہے۔ دار العلوم دیوبند نے اپنے ایک فتویٰ میں لکھا ہے کہ :’’ علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کو ثقہ اساتذہ سے پڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عرفا عالم کہا جاتا ہے‘‘۔ (جواب نمبر 16857)
اس فتویٰ میں دو باتیں اہم ہیں، ایک مخصوص نصاب اور دوسرے ثقہ اساتذہ سے اس مخصوص نصاب کی تعلیم کے بعد فراغت، دار العلوم دیو بند کے اس فتویٰ کا حاصل یہی ہے، اس فتویٰ کی رو سے ان کے نزدیک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں، لیکن مخصوص نصاب کا ثقہ اساتذہ سے پڑھ کر تکمیل ضروری ہے۔ یعنی درمیان میں کچھ پڑھ کر تعلیم منقطع کرنے والے کو بھی عالم نہیں کہیں گے۔
دار العلوم دیوبند کے دوسرے فتویٰ میں لکھا ہے کہ دور حاضر کے عرف میں عالم وہ شخص ہے جو قرآن وحدیث کو با قاعدہ پڑھے ہوئے ہو اور قرآن و حدیث کو، اس کے احکام کو براہ راست سمجھتا ہو، جماعت میں نکلنے والا اگر کچھ باتیں دین کی سیکھ لے تو اسے عالم نہیں کہا جائے گا، اسی طرح جس نے محض کتابوں کا مطالعہ کرکے کچھ باتیں سیکھ لیں وہ بھی عالم نہیں کہا جائے گا، جب تک کسی مستند عالم کے پاس یا کسی مستند مدرسہ میں رہ کر تمام علوم آلیہ کو سیکھ کر علوم قرآن اور اس کی تفسیر کو نہ پڑھے اور اسی طرح علم حدیث کو نہ سیکھے تو وہ اہل علم کے یہاں اصطلاحی عالم شمار نہیں کیا جائے گا، عالم کے لیے با قاعدہ تمام علوم کو سات آٹھ سال تک پڑھنا ضروری ہے۔ (فتویٰ 146973، 28دسمبر ۲۰۱۶ء )
ارشاد الفحول میں علامہ محمد بن علی شوکانی نے عالم ہونے کے لیے پانچ شرطوں کا ذکر کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم وہ شخص ہوگا، جو نصوص قرآن وسنت صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتابوں کا عالم ہو، تخریج پر قادر ہو، صحیح اور ضعیف احادیث ، لسان عرب، لغات کے معنی، اس کی ترکیب کو جانتا ہو، مسائل اجماع کا عارف، ناسخ ومنسوخ کا عالم اور اصول فقہ کا علم رکھتا ہو، کیوں کہ اصول فقہ احکام شرعیہ کے استنباط کی بنیاد ہے۔ (جلد 2صفحہ 297-303)
عالم کے اسی اصطلاح اورعرف کی وجہ سے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے بارے میں ان کی علمی عبقریت وعظمت کے باوجود ترجمان جلد 14شمارہ 3صفحہ 227 کے حوالہ سے فتاویٰ محمودیہ میں ان کا اقرار نقل کیا ہے کہ’’ مجھے گروہ علما میں شامل ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے، میں ایک بیچ کی راہ کا آدمی ہوں جس نے جدید اور قدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے کچھ کچھ حصہ پایا ہے ، دونوں کوچوں کو خوب چل پھر کر دیکھا ہے‘‘ ۔(فتاویٰ محمودیہ ۱؍ ۳۶۷)
اسی عرف کی وجہ سے یونی ورسٹی کے شعبہ مطالعات اسلامی(اسلامک اسٹڈیز) سے فارغ ہونے والے کو بھی عالم نہیں کہا جاتا، ان کے لیے عرف میں اسلامک اسکالر کا لفظ مستعمل ہے، عام طور پر نہ تو ان کو عالم سمجھا جاتاہے اور نہ ہی انھیں مقتدیٰ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، الا یہ کہ وہاں جانے کے پہلے انھوں نے کسی دینی تعلیمی ادارے سے متعینہ نصاب کی تکمیل کی ہو۔ دار العلوم دیو بند ہی کے ایک فتویٰ 255-278/N=4/1441 میں لکھا ہے کہ ’’جانتے ہوئے کسی غیر عالم کو عالم ، غیر حافظ کو حافظ یا غیر مفتی کو مفتی کہنا درست نہیں ہے ، اور اگر کوئی شخص لا علمی میں یا دوسروں کی دیکھا دیکھی کہتا ہے تو اسے حقیقت بتادی جائے۔‘‘ ایک اور فتویٰ دارالعلوم دیو بند کا ہے جس میں لکھا ہے کہ عالمیت کا کورس پڑھے بغیر اپنے آپ کو عالم کہنا درست نہیں۔
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فتاویٰ ندوۃ العلماء میں مذکور ہے کہ ’’جو شخص با قاعدہ کسی دینی درس گاہ یا کسی عالم دین سے علم حاصل نہیں کیا ہو، انھیں عالم کے لقب سے پکارنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اپنے کو عالم کہلانا درست ہے‘‘۔
ایک اور طبقہ ہے جس نے کسی مدرسہ میں پڑھے بغیر بورڈ سے صرف عالم فاضل کی سند حاصل کی ہے ، عرف میں وہ بھی عالم نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ ان کی نصابی تعلیم نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ ذریعہ معاش کے حصول کے لیے امتحان دے کر سند حاصل کر لیتے ہیں، اس لیے عرف عام انھیں عالم ماننے کو تیار نہیں، یہ بات آج کے پس منظر میں کہی جا رہی ہے، ماضی میں بورڈ کے مدارس کے فارغین کی حیثیت بھی عالم کی ہوتی تھی، بھلا حضرت مولانا عبد الرحمنؒ امیر شریعت خامس کے عالم با عمل ہونے سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔
عالم با عمل کے بعد اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کتاب اللہ اورسنت رسول کے معانی اور حقائق سے بھی واقفیت رکھتا ہو، معتد بہ کا لفظ اکثرحصہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، اقل کے لیے نہیں، یعنی کسی کے پاس علم ہو لیکن قرآن و احادیث کا علم بنیادی دینی تعلیم تک محدود ہو تو سندی عالم ہونے کے باوجود وہ امیر شریعت بننے کا اہل نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کے پاس قرآن و احادیث کا معتد بہ علم نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی ایسا شخص ہو جس نے علوم دینیہ حاصل ہی نہیں کیا تو وہ بھی امیر شریعت بننے کا اہل دستور کے مطابق نہیں ہوگا، اغراض و مصالح شریعت کی واقفیت کی قید لگا کر اسے اور پختہ کیا گیا، ظاہر ہے تھوڑے بہت دینی علوم کی واقفیت سے اغراض و مصالح شریعت تک رسائی نہیں ہو سکتی، اس کے لیے امام غزالی کی احیاء العلوم، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ کے سمجھنے اور اس سے مسائل کے اخذ و استنباط کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے، جو اسرار و حکم شریعت کی نمائندہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔
علم کا وافر حصہ پایا ہو لیکن بدعملی اور بے عملی کا شکار ہو تو وہ بھی امیر شریعت نہیں بن سکتا، کیوں کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے، قرآن کریم میں ایمان اور عمل صالح کو ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ عمل صالح کے بغیر علم شرعی بھی اس کے کام کا نہیں ہے، یہ معاملہ بے عملی کی صورت میں ہے اور اگر معاملہ بد عملی کا ہو اور اس قدر بدعملی آگئی ہو کہ وہ ’’محارم متفق علیہا ‘‘ کا ارتکاب کرنے لگے، کفریہ اعمال کرتا ہو، اور یہ محض ظنی نہیں، یقینی ہو تو دفعہ ۱۴؍ کے تحت وہ معزول کر دیا جائے گا، اور بعض حالتوں میں خود سے معزول ہوجائے گا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لفظ عالم کا استعمال کیا گیا، مولانا کا نہیں، اس لیے کہ مولانا صرف عالم پرہی نہیں عرف عام میں غیر عالم پر بھی بولا جاتا ہے، مذہبی معلومات کے ساتھ وضع قطع اسلامی انداز کی ہو، لانبا کرتا، ٹخنہ سے اوپر پاجامہ اور چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ وعظ و خطابت دعوت و تبلیغ اور اسلامی افکار و اقدار کی ترویج و اشاعت سے جو جڑ گیا اور بادی النظر میں خلاف شرع کام کرنے والا نہ ہو تو اسے مولانا صاحب کہتے ہیں، یہ بھی ایک عرف ہے، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا شفیع داؤدی، مولانامظہر الحق وغیرہ کے نام کے ساتھ اسی عمومی معنی کے اعتبار سے مولانا لگاتے ہیں، حالاں کہ ان حضرات کی تعلیم کسی درس گاہ اسلامی میں نہیں ہوئی تھی، اس کے لیے کسی درس نظامی کا فارغ ہونا ضروری نہیں ہے۔تبلیغی جماعت میں کثرت سے ایسے افراد مل جائیں گے جو کہیں کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں، لیکن ان کی عالمانہ وضع قطع اور دعوت وتبلیغ سے جڑے ہونے کی وجہ سے ناواقف لوگ انھیں مولانا کہا کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تمام لوگ جو مولانا کہے جا رہے ہیں ان کا عالم ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن جو عالم اصطلاحی ہیں وہ مولانا کہے جاتے ہیں، منطق کی اصطلاح میں ان دونوں میں عموم خصوص کی نسبت ہے، یعنی ہر عالم، مولانا کہا جا تا ہے، لیکن ہر مولانا کہا جانے والا عالم نہیں ہوتا، البتہ بعض صورتوں میں فرد واحد عالم اور مولانا دونوں ہو سکتا ہے۔
اوصاف امیر کی دوسری شق میں یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ محض عالم با عمل ہی نہ ہو، اس کی نگاہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر بھی ہو؛ تا کہ وہ موقع کی مناسبت سے درست فیصلے لے سکے، اسی وجہ سے اس شق کے آخر میں یہ بات جوڑی گئی کہ وہ صائب الرائے ہو، اور اس کا صائب الرائے ہونا تجربہ سے ثابت ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صائب الرائے نہ ہو اسے بھی امیر شریعت کا عہدہ نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ اس کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملت کو نقصان پہنچے گا، یہ جوکھم مول نہیں لیا جا سکتا کہ پوری ملت کو خطرے میں ڈال دیا جائے، اسی لیے تجربہ کی قید بھی لگائی گئی تاکہ امیر شریعت سے غلط فیصلے کا امکان کم سے کم ہو، اب اگر کسی کا تجربہ ہمیں نہیں ہے، یا اس کے معاملات ہمارے سامنے کسی بھی وجہ سے نہیں آسکے ہیں تو اسے بھی ترجیحی بنیاد پر امیر بنانا صحیح نہیں ہوگا۔
تیسری شق میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو، یعنی جو امیر شریعت ہوگا اس کا صرف اپنے حلقہ میں متعارف ہونا اور با اثر ہونا کافی نہیں ہے، اسے دستور کے مطابق عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت کی نظر میں با اثر ہونا ضروری ہوگا، کیوں کہ امیر شریعت کی سمع و طاعت عام مسلمانوں پر واجب ہے، اب اگر وہ صرف ایک طبقہ کی نمائندگی کرے گا تو دوسرے طبقات اس سے کٹ کر رہ جائیں گے، اسی لیے دستور کی اس شق میں عوام و خواص کے اکثر طبقات کی معتد بہ جماعت پر اثر کا ہونا ضروری بتایا گیا ہے، یہ اثرات ذاتی قابلیت اور وجاہت کی وجہ سے بھی پڑتے ہیں، اور عوامی خدمات اور ملی معاملات میں انہماک کی وجہ سے بھی حاصل ہوجاتا ہے، یہ شق بھی انتہائی اہم ہے، امیر کی ذات میں اس شق کے مندرجات کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔
چوتھی شق میں اس کے حق گو، حق شنو، جری اور صاحب عزیمت ہونے کی بات کہی گئی ہے، ظاہر ہے اگر وہ حق گو نہیں ہوگا، حق سننے کا حوصلہ نہیں رکھے گا، صاحب عزیمت اور جرأت سے عاری ہو گا تو مقاصد امارت شرعیہ کی تنفیذ نہیں کر سکے گا، اس کے گرد خوشامد پسندوں، جی حضوری اور درباری کرنے والوں کا جمگٹھا ہوگا، جس کی وجہ سے صحیح صورت حال سے امیر شریعت کو واقفیت نہیں ہو سکے گی اور بر وقت وہ فیصلہ نہیں لے سکے گا، جس کا نقصان ملت کو پہنچے گا، حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے کہ ملت کو سب سے زیادہ نقصان خوشامد کرنے والوں نے پہنچایا ہے، اس نقصان سے بچنے کی یہی شکل ہے کہ وہ حق بولنے پر قادر ہو اور دوسروں کی حق بات سننے کا بھی اپنے اندر حوصلہ اور جذبہ رکھتا ہو، صاحب عزیمت ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ مشورہ کے بعد فیصلوں کو نافذ کرسکے، اگر اس کے اندر عزیمت نہیں ہوگی تو احکام کی تنفیذ کا کام وہ صحیح طریقہ سے نہیں کرسکے گا، تنفیذ کے لیے اس کا جری ہونا ضروری ہوگا، اگر اس کے اندر جرأت نہیں ہوگی تو وہ حکومت وقت کے سامنے ظاہری اور تھوڑے مفاد کے لیے قدم بوس ہوجائے گا، اور تعظیم اقتدار میں وہ اس قدر آگے بڑھ جائے گا کہ دستار گرنے کا بھی ہوش نہیں رہے گا، اس لیے اس کے اندر جرأت اظہار ہونی چاہیے کہ وہ ملی مسائل پر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے، وہ اتنا مستغنی اور بے نیاز ہو کہ حکومت کی جانب سے پھینکے گئے عہدے اور منصب کو اپنی جوتیوں کی نوک پر رکھ سکے، کیوں کہ جو لوگ اقتدار سے ذاتی نفع کے طالب ہوتے ہیں، حق بولنے کی ہمت ان میں ختم ہوجاتی ہے اور زبان لڑکھڑا نے لگتی ہے، ایسے امیر سے ملت کے لیے کوئی بہتر توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ سرکاری عہدے قبول کرنے سے جو ادارے کو نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، یہ نقصان عوامی سطح پر بھی ہوتا ہے کہ لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ عہدہ قبول کرکے ادارہ کو حکومت کے پاس گروی رکھ دیا، خود اس شخص کی ذات کو بھی نقصان پہنچتا ہے، جو کلیدی عہدے پر رہتے ہوئے سرکاری عہدیدار بن جاتا ہے۔
آخری شق میں یہ کہا گیا ہے کہ اس کی ذات ما یزول بہ مقصود الامارۃ سے متعلق نہ ہو، یعنی وہ فکری اعتبار سے مرتد نہ ہو، اس پر ہر وقت جنونی کیفیت طاری نہ ہو، وہ اس طرح کا قیدی نہ ہو جس کی رہائی کی امید باقی نہ رہے، وہ ایسے امراض کا شکار نہ ہو جس میں وہ سب کچھ بھول گیا ہو، وہ اندھا، بہرہ گونگا نہ ہو، وہ اس قدر معذور نہ ہو گیا ہو کہ مصالح مسلمین کے قیام اور تنفیذ پر قادر نہ ہو، ظاہر ہے اس قسم کے امراض واعذار کی شکل میں امارت شرعیہ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل نہیں ہو سکے گی، اس کے امیر باقی رہنے یا منتخب کرلینے سے امت کا بھلا نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ امیر شریعت کی ذات ان امراض و اعذار سے پاک ہو؛ تاکہ وہ پورے طور پر مقاصد امارت شرعیہ کی تکمیل کے لیے اپنی ذہنی صلاحیت اور جسمانی قوت کا استعمال کر سکے.
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی پڑھیں :والدین اور بوڑھوں کی پریشانیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے