‘وفیات اطباے ہند و پاک` پر ایک طائرانہ نظر

‘وفیات اطباے ہند و پاک` پر ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال (گیا)

حکیم وسیم احمد اعظمی صاحب بہ ظاہر ایک سند یافتہ حکیم ہیں لیکن انھیں علاج و معالجہ سے زیادہ طبی تحقیق سے دل چسپی رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ طب یونانی کے ہمدرد ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت مختلف تحقیقی پروجیکٹ سے منسلک رہے ہیں۔ان تحقیقی پروجیکٹ سے دوران ملازمت ان کی وابستگی نے انھیں ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد از سبک دوشی انھوں نے طب یونانی سے وابستہ اطبا اور حکما کے حالات و کمالات کویکجا کرنے کی کوشش کی ہے. مذکورہ بالا ”کتاب وفیات اطباء ہند و پاک“ اس سلسلے کی اولین کڑی ہے۔ عام طور پر قارئین اس کتاب کوصرف ایک کتاب سمجھتا ہے۔ لیکن راقم (شاہد اقبال) کے نزدیک مذکورہ کتاب دو ۲ کتابوں کا مجموعہ ہے. ایک میں اطبا اور حکما کی وفیات نگاری کا ذکر ہے اور دوسری مذکورہ بالا اطبا اورحکما کے حالات زندگی اوران کے کارنامے سے لیریز ہے. 
حکیم وسیم احمد صاحب کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ وہ ”یک نہ شد دوشد“ ایک اطبا اور حکما کا ہمالیہ اٹھانے جارہے ہیں۔ یقیناً جب یہ کتاب شایع ہوگئی اس کے بعد انھیں اندازہ ضرور ہوا ہوگا کہ انھوں نے یہ عظیم کام شروع کر دیا ہے جسے پورا کرنے میں ان کی پوری زندگی صرف ہوجائے گی۔ میری خدائے لم یزل سے دعاہے کہ حکیم وسیم احمد کوصحت و تندرستی سے آراستہ وپیراستہ کرے اور اس عظیم کارنامے کو مکمل کرنے کاحوصلہ عطافرمائے (آمین)
حکیم وسیم احمد صاحب نے اس کتاب میں کل 295/اطبا اور حکما کے حالات و کمالات درج کئے ہیں جن میں 23 غیرمسلم حکما بھی شامل ہیں۔ انھوں نے فہرست کی ترتیب ابجدی حروف کی نہج پر کی ہے۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے جن اطبا اور حکما کا ذکر کیا ہے ان میں بہت سے شاعر اور ادیب بھی ہیں اور بعض کا شمار اساتذہ سخن میں بھی ہوتا ہے. انھوں نے ہر اندراج کے ساتھ اس کا ماخذ اورحوالہ بھی درج کر دیا ہے۔ انھوں نے زمانہ کا تعین نہیں کیا ہے. ان کی ریسرچ کے دوران جو بھی نام پختہ ثبوت کے ساتھ آئے سب کو شامل کر دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑ اکام ہے۔ جس کو پورا کرنے کابیڑا حکیم وسیم احمد صاحب نے تن تنہا اٹھایا ہے۔ برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے شایع شدہ طبی رسالوں کی دیدہ ریزی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر کسی کو حکیم وسیم احمد صاحب کی محنت کا اندازہ لگاناہو اور ان کے ریسرچ کاجائزہ لینا ہو تو اس کتاب پرلکھے گئے ان کے پیش نامہ کا مطالعہ کرنا چاہیے. کاش نئی نسل کے افراد بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس کتاب ”وفیات اطباء ہند و پاک“ (جلد اول حصہ اول) میں کل 295 اطبا اور حکما کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس تذکرے میں ابجدی ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے. چونکہ یہ تذکرہ جلداول کاحصہ اول ہے اس لیے اس میں الف ممدودہ اور الف مقصودہ سے جن اطبا و حکما کے اسماے گرامی شروع ہوتے ہیں انہی کا تذکرہ اور وفیات (جن کا تحریری ثبوت ملا ہے) کا احوال درج ہے۔
حکیم وسیم احمداعظمی نے ”پیش نامہ“ میں اس کتاب کے اغراض و مقاصد اور اہم حوالہ جات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ یہ پیش نامہ کل چھ (۶) صفحات پر محیط ہے جسے پڑھ کر ہر ذی علم حکیم وسیم احمد صاحب کی علمی بصیرت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے پیش نامہ میں جن آٹھ (۸) اہم ہستیوں کا نام اظہار تشکر کے ضمن میں لکھا ہے ان میں چند سے راقم الحروف (شاہد اقبال) کے ذاتی مراسم بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے حکیم سید ظل الرحمن صاحب کا نام بڑی محبت سے لکھا ہے سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکیم وسیم احمد صاحب کاپیش نامہ صرف پیش نامہ نہیں بلکہ علم طب کی تاریخ پر ایک مکمل مقالہ ہے. اس میں علم طب اور اطبا و حکما پر اب تک شایع شدہ سبھی کتابوں کی مکمل فہرست دی گئی ہے جس سے علم طب کے ہرطالب علم کو مکمل معلومات فراہم ہوتی ہے۔ راقم الحروف (شاہد اقبال) حکیم وسیم احمد صاحب کواس طرح کام کرنے پر صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہے۔
اسی طرح حکیم وسیم احمدصاحب نے (صفحہ /۲۲) وفیات نگاری پر اردو اور عربی کی مطبوعہ کتاب کی تفصیلات بھی دی ہیں اور ان کی سال اشاعت کا بھی ذکر کیا ہے۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر منیر احمد سلیچ (راولپنڈی) کی تمام مطبوعات کا نام مع سن طباعت لکھ دیا ہے جو2018ء تک شایع ہوچکی تھی۔
اس کتاب میں موجود چند فرو گذاشت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں. 
(۱) صفحہ 31؎ پر مصادر 21؎ میں تذکرہ بزم شمالی لکھا گیا ہے جوغلط ہے صحیح نام ”تذکرہ بزم شمال“ ہے۔
(۲)صفحہ 310-تذکرہ بزم شمالی (خطی) بشرفاروقی عرف شادان فاروقی درست تذکرہ بزم شمالی مؤ لفہ شاداں فاروقی (دربھنگا) سن اشاعت  1986ء؁ و مطبوعہ حمیدیہ برقی پریس لہریا سرائے ہے۔
(۳)صفحہ 81؎ پر ماخذ میں تذکرہ مشاہیر غازی پور کی اشاعت کا سنہ 2001 (غالباً) لکھا گیا ہے۔ اس جگہ غالباً نہیں ہوگا دراصل تذکرہ مشاہیر غازی پور نومبر 2001 میں شایع ہوئی ہے -!
(۴)حکیم محمد اسماعیل خاں ذبیح ان کے نام میں (خاں) کاسابقہ غلط ہے. اصل نام محمداسماعیل ذبیح ہے۔
وہ غالب دھلوی کے شاگرد نادر شاہ خاں شوخی رام پوری کے شاگرد تھے. محمد اسماعیل ذبیح نے اپنے استاد شوخی رام پوری کی وفات پر ایک تعزیت نامہ بہ شکل مرثیہ  لکھا تھا
مذکورہ مرثیہ پیسہ اخبار (روزنامہ -لاہور) میں ١٥/جولائی ١٨٩٩ء کوشایع ہوا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکیم محمداسماعیل ذبیح ١٨٩٩ ء کے بعد بیسوی صدی کے اوائل تک زندہ تھے -!(بحوالہ، رموز تحقیق، ص ۱۲۱ تا١٣٣)
(۵)صفحہ 294 حکیم سید اولاد علی کاپیش جونپوری کے مصادر میں ۳؎ میں تحریر تذکرہ شعرائے بہار، حکیم سید احمد اللہ خاں ندوی لکھا ہے، جوغلط ہے. درست تذکرہ مسلم شعرائے بہار، حکیم سید احمد اللہ ندوی ہوناچاہیے۔
(بحوالہ، رموز تحقیق، ص ۴۸ تا ٩٠)
حالانکہ صفحہ 311 پر تذکرہ مسلم شعرائے بہار، سید احمداللہ ندوری صحیح لکھا گیاہے!
مجھے امیدہے کہ حکیم وسیم احمد صاحب آئندہ اشاعت میں ان فروگذاشتوں کی تصحیح کرلیں گے -!


DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: علامہ واقف عظیم آبادی: ایک طائرانہ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے