علامہ واقف عظیم آبادی: ایک طائرانہ نظر

علامہ واقف عظیم آبادی: ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال (گیا)

علامہ واقف آروی کو کون نہیں جانتا۔اس بات کی بحث فضول ہے کہ انہیں آروی لکھاجائے یاعظیم آبادی؟ یاکچھ اور۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کاسوانحی خاکہ صحیح لکھاجائے. علامہ واقف آروی کی تاریخ پیدائش میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو کہ 18/ مارچ 1914ء ہے لیکن جائے پیدائش کانام غلط لکھ دیاجاتاہے کیونکہ عام طور پر کوئی مذکورہ گاؤں (سوسنہ) کو نہیں جانتا ہے۔ تذکرہ نگار بھی ایک دوسرے سے نقل درنقل کرتے چلے آئے ہیں. سچ تویہ ہے کہ مذکورہ گاؤں کانام سوہسا (SOHSA) ہے جو کلیر(KALER) (پٹنہ اورنگ آباد قومی شاہراہ) سے پانچ کیلو میٹر پچھم سون ندی کے کنارے واقع ہے۔ بہار میں اضلاع کی نئی انتظامی تشکیل کے بعد یہ علاقہ ضلع ”ارول“  میں شامل کردیا گیا ہے۔
علامہ واقف ؔ کا اصل نام سید شاہ فضل امام اور ان کے والد کانام سید شاہ منظر امام تھا۔
علامہ واقف نے مرتبین متاع سخن (تذکرہ شعرائے آرہ) کو بھیجے گئے خودنوشت مختصر حالات زندگی میں اس حقیقت کا خوداعتراف کیا ہے کہ سید شاہ منظر امام آروی کو سید احمد علی عشرتؔ گیاوی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
”میرے والد حضرت شاہ منظر امام صاحب متوطن ارول ضلع گیا کوحضرت داغ ؔ دہلوی سے عقیدت اورحضرت احمد علی عشرتؔ گیاوی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔‘‘
(بحوالہ: صفحہ نمبر ۶۱۱/ عشرت گیاوی، حیات وشاعری)
ڈاکٹرنسیم اخترنے علامہ واقف ایک نظر میں، احوال، واقف ایک درویش، [واقف] کاشعری پس منظر، واقف بحیثیت شاعر جیسے الگ الگ عنوانات قائم کیے ہیں۔ ان سب کا بڑی خوب صورتی سے جائزہ لیاہے۔ نیز ان میں علامہ واقف کے اشعارکو گل و بوٹے کی طرح سجایا ہے. جس سے قاری کی دل چسپی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر نسیم اختر نے علامہ واقف بحیثیت نثر نگار کا جائزہ لیا ہے۔
علامہ واقف کوعظیم آباد میں اگر کسی نے پناہ دی تو وہ ذات گرامی غلام سرور کی تھی اورعلامہ واقف نے روزنامہ ”سنگم“ پٹنہ کی بے باکانہ صحافت کا اعتراف کرتے ہوئے یوں خراج تحسین پیش کیا ہے ؎
”اگرچہ اردو صحافت ہے انحطاط پذیر
مگر ہے شکر کہ ”سنگم“ کا ہے مقام اب بھی
ہے اس کے ذہن میں اب بھی تمیز باطل و حق
مئے حرام ہے اس کے لیے حرام اب بھی
رواں دواں ہیں مضامین غلام سرورکے
کہیں قلم نہ ہو اسپ بے لگام اب بھی
(بحوالہ: مونوگراف علامہ واقف عظیم آبادی۔ صفحہ نمبر ۹۹)
ڈاکٹر نسیم اختر نے علامہ واقف ؔ کی حیات اور زندگی کی گوناگوں پہلووں کو اجاگر کیا ہے. اس کے باوجود انھیں افسوس ہے۔ علامہ واقف کی شعری و ادبی خدمات کا اب تک مکمل احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے. اس قیمتی اثاثے کی باز یافت اور ان کی تدوین و ترتیب بھی وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے. 
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ علامہ واقف کی ہزاروں صفحات پر تحریر کردہ یادداشتیں خدابخش لائبریری (پٹنہ) میں محفوظ ہیں۔ جوخدابخش لائبریری پٹنہ کے اس وقت کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی مرہون منت ہے۔
ڈاکٹر نسیم اختر تحریر کرتے ہیں ”لوگ واقف(علامہ واقف عظیم آبادی) سے بڑی محبت کرتے تھے۔ لیکن اس محبت کے تقاضے کا حق ہاں اسی وقت ادا ہوگا جب کلیات واقف کی تدوین اوران کی بکھری و پھیلی ہوئی نثری تحریروں کی ترتیب کا جوکھم اٹھانے کا کام سر انجام دیا جائے۔ مگرسوال ہے کہ یہ کام کرے کون؟
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
(بحوالہ صفحہ ۲۱۱، مونوگراف واقف عظیم آبادی)
علامہ واقف پر اس مونوگراف کی اشاعت کے لیے ڈائرکٹر راج بھاشا بہار عالی جناب احمد محمود صاحب اور ڈاکٹر اسلم جاوداں صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں –

DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو : ”تذکرہ صوفیاے بہار" پرایک طائرانہ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے