زندہ آتما

زندہ آتما

 ذاکر فیضی

مُنّا لال کی کش مکش جاری تھی۔
وہ گاؤں کی گلیاں پار کر چکا تھا، اب تیزی سے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ اُس کے دماغ میں دو مختلف طوفان چل رہے تھے۔ ایک طوفان کہہ رہاتھا۔ ’منّا لال! تُجھے اس اندھیری رات میں سیما سے ملنے نہیں جانا چاہیے، گنگا کنارے نہ معلوم کیا حالات ہوں۔‘
دوسری جانب اس کا دماغ اپنے اس خیال کی تردید کر رہا تھا۔ کہتا تھا: ’اُسے سیما سے ملنے ہر قیمت پر جانا ہی ہوگا۔۔۔ ایسا موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔‘
وہ موبائل کی روشنی کے سہارے کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر بہت احتیاط سے قدم بڑھا رہا تھا۔ چاروں طرف خوفناک سنّاٹا تھا۔ دور ہائی وے پر جا رہے ٹرک و بسوں کا شور اور جھینگروں کی ملی جلی آوازیں ماحول کو پُر اسرار بنا رہی تھیں۔ مئی کے اس مہینے میں دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا، جِس کی وجہ سے فضا میں عجیب سی منحوسیت پیر پھیلائے سُستا رہی تھی۔
وہ جیسے جیسے گنگا کے کنارے کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں۔ اُس کے دل و دماغ پر خوف اور خواہش کی کش مکش جاری تھی۔ کش مکش کی اس کشتی میں وہ کبھی ڈوب رہا تھا، کبھی اُبھر رہا تھا۔ جب وہ ابھرتا تو اسے سیما کا حسن اور پُر کشش نشیب و فراز یاد آتے۔ وہ تخّیل میں سیما کے نشیب میں اُترتا چلا جاتا اور فراز میں چڑھائی چڑھ رہا ہوتا۔ اُس کے قدموں میں تیزی آجاتی اور وہ جلد سے جلد سیما کو اپنی بانہوں بھرمیں لینا چاہتا۔
مگر۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی سیما کے نشیب میں پوری طرح اُتر بھی نہیں پاتا تھا کہ فضا میں پھیلتی سیما کے بدن کی خوش بو ہوا میں معدوم ہو جاتی اور چاروں طرف خدشات کا خوف پھڑپھڑانے لگتا۔
وہ عادت کے مطابق خود سے ہم کلام ہو جاتا۔
”ندی پر کوئی مل گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“
”بے وجہ کی باتیں نہ سوچ، بُزدل کہیں کے۔۔۔۔۔۔ ایسا کُچھ نہیں ہوگا۔“
”اگر کوئی وہاں کسی لاش کو دھرتی میں گاڑ رہا ہو تب۔۔۔۔۔“
وہ خود کو تسلّی دیتا۔۔۔۔۔”گنگا کے اس کنارے پر صرف ہمارے گاؤں کی لاشیں ہی دبائی جا رہی ہیں۔۔۔۔ اور ہمارے گاؤں میں آج کسی کے بھی مرنے کی خبر نہیں ہے۔“
اس کا دماغ کش مکش میں اُلجھا ہوا تھا۔
مّنالال ’لائف کیئر اسپتال‘ میں گذشتہ چھ برسوں سے وارڈ بوائے کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ یہ اسپتال گاؤں کو قصبے اور شہر سے جوڑنے والی بڑی سڑک پر واقع تھا۔ جب اس نے اسپتال میں ملازمت شروع کی تھی، وہ صرف بیس برس کا تھا۔ والدہ کی موت اس کے بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ بی۔ا یس۔ سی۔ کی تیسرے سال کی فیس جمع نہیں ہونے کی صورت میں پڑھائی جاری نہیں رکھ سکا اور نوکری کرلی۔ وہ اپنے والد کی پانچ اولادوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کے دو بڑے بھائی کھیتی کرتے تھے۔ تیسرا بھائی قصبے کی دوکان میں اینٹ، لوہا اور سیمنٹ کی دُکان چلاتا تھا۔ بہن بھی خوش حال زندگی گزار رہی تھی۔
منّالال کا آشیانہ گھر کے اس کمرے میں تھا جو گھر کے دروازے میں داخل ہوتے ہی واقع تھا اور باپ کی زندگی میں بیٹھک مانا جاتا تھا۔ گھر میں دونوں بھائیوں کا پریوار رہتا تھا۔ مُنّا لال کے والد بھی ایک سال پہلے دنیا چھوڑ کر جاچکے تھے۔ کھانا پینا زیادہ تر اسپتال کی کینٹین یا باہر ڈھابے میں ہی کرتا تھا۔ کبھی کبھی رات کا کھانا بڑے بھائی کے گھر سے آجاتا۔ اب منّا لال چھبیس سال کا ہو چکا تھا۔ ابھی تک اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ گاؤں کے حساب سے اس کی شادی کی عمر نکل چکی تھی۔ اس کے تینوں بھائی چھ فُٹ سے زیادہ لمبے تھے۔ جب کہ منّالال کا قد محض پانچ فٹ تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کی طرح پُر کشش شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ بچپن میں گاؤں کے لوگ اسے ’بُڑھاپے کی اولاد‘ کہتے تھے۔ اس کی اور بڑے بھائی کی عمر میں اکیس سال کا فرق تھا۔ حالانکہ منّالال کا جسم گٹھیلا اور صحت مند تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو بھائیوں کے مقابلے بہت کم تر محسوس کرتا تھا۔
ان دنوں اس کی زندگی اسپتال اور گھر کے اس سیلن زدہ بیٹھک والے کمرے میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ تنہائی پسند تو وہ بچپن سے تھا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں زیادہ ہو گیا۔ اس کا واحد ساتھی اس کا موبائل تھا۔ اس کے پاس ہمیشہ قیمتی اور نئے انداز کا موبائل رہتا تھا۔ اُس کے ہم عمر بھتیجوں کا کہنا تھا کہ مّناچاچا کمرے میں گندی فلمیں دیکھتے رہتے ہیں۔ بھائیوں کا ماننا تھا کہ منّا لا ل کلپنا کے سنسار کا واسی ہو چکا ہے۔ کئی بار اُس کو خود سے باتیں کرتے دیکھا گیا ہے۔
اسپتال میں بھی اس کا ربط و ضبط بہت کم لوگوں سے تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ مگر اپنا کام بہت محنت اور ایمان داری سے انجام دیتا تھا۔ کینٹین میں بھی وہ زیادہ تر تنہا نظر آتا۔ ایک کونے میں چائے یا بیڑی پیتا ہوا آہستہ آہستہ زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا رہتا۔
منّا لال کھیتوں کو پار کر چکا تھا۔ اب ایک چھوٹے سے جنگل کو پار کرنا تھا۔ رات کے اندھیرے میں اسے جنگل سے گزرنے میں گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ اس لیے اس نے طے کیا کہ وہ جنگل کو پار کرنے کے لیے لکڑی کی پُلیا سے آگے بڑھے۔ جس میں اسے پندرہ بیس منٹ زیادہ ضرور لگیں گے۔ مگر جانوروں کا خطرہ نہیں ہوگا۔ وہ خوف زدہ تو تھا مگر سیما سے ملنے کی لگن اسے غیر معمولی حوصلہ دے رہی تھی۔ وہ خوف اور بے خوفی کا پنڈولم بنا ہوا تھا۔ کش اور مکش کا یہ پنڈولم کبھی اسے گھر واپس لوٹنے پر اُکساتا اور کبھی سیما کو حاصل کرنے کا حوصلہ عطا کرتا۔ اس کے اُوپر سیما کا نشہ سوار تھا۔
اسپتال میں ڈاکٹر منیش تیواری کی کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے سال بھر پہلے موت ہو گئی تو اسپتال کے منتظمین نے ان کی بیوی سیما تیواری کو اسپتال میں سپر وائزر کی نوکری دے دی۔ سیما کی عمر تیس سال تھی۔ وہ بے حد حسین اور متناسب جسم کی عورت تھی۔ جو مرد بھی ایک بار دیکھتا، خواہش کا ایک تیر اپنے دل و دماغ میں پیوست پاتا۔ وہ اپنی پانچ سال کی بیٹی کے ساتھ اسپتال کے قریب ایک قصبے میں رہتی تھیں۔ ڈاکٹر منیش اور سیما کسی دوسرے صوبے کے رہنے والے تھے۔ آس پاس گاؤں، قصبے میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ گھر میں اکیلی رہتی تھیں۔ سب ان کی بہت عزّت کرتے تھے۔ اسپتال اور اُن کے پڑوس کے لوگ ان کی ملنساری سے بہت متاثر تھے۔ ان کے اکیلے پن اور خوش مزاجی کو دیکھ کر کئی مرد غلط فہمی کا شکار ہو جاتے تو وہ ان لوگوں کو کبھی پیار سے اور کبھی سختی سے سمجھا دیتی تھیں۔ اُن کا سارا ذہن اور وقت اپنی معصوم بیٹی کی پرورش میں لگا ہوا تھا۔ اس کے باوجود منّالال سیما کا دیوانا ہو گیا۔ سیما کو جب اس بات کا علم ہوا تو زور سے ہنسی اور کہنے لگی۔۔۔ ”وہ چھوٹے سے قد کا مُنّا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟“ وہ ہنسی میں اڑا دیتی تھی۔
جب پہلی بار اس نے سیما کو دیکھا تھا تو اُس پر ایک دم ہی فریفتہ ہو گیا تھا۔ خوابوں کی دُنیا کے اس باشندہ کو یقین تھا کہ ایک دن یہ حسین بیوہ اُس کی محبوبہ ضرور بنے گی۔ وہ تصوّر کی دنیا میں اڑتا رہتا۔ جہاں وہ سیما کو اپنی گرل فرینڈ مانتا تھا۔
منّا لال نے اپنی اس محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا سوائے بابو کے۔
بابو اسپتال میں صفائی ملازم تھا۔ وہ منّا لال کا جگری یار تھا۔ جس نے منّا لال کو چپکے چپکے سیما کو دیکھتے ہوئے بھانپ لیا تھا۔ ایک دِن بابو نے منّالال کو سمجھایا۔
”سیما میڈم ڈاکٹر کی بیوی تھیں۔ تیرے ہاتھ نہیں آنے والی ہیں۔‘‘ بابو نے دو جلی بیڑی میں سے ایک بیڑی منّالال کی طرف بڑھائی۔
مگر منّا لال بولا۔۔۔۔۔ ’’سیما مُجھ سے پیار کرتی ہے۔ تب ہی تو مُجھ سے مُسکرا مُسکرا کر بات کرتی ہے۔“
بابو نے کہا۔ ”وہ تو سب سے ہنس بول لیتی ہیں۔ تو کیا نِرالا ہے۔“
مگر منّالال نہیں مانا اور بولا۔۔۔۔” سب کی بات اور ہے بھائی۔ وہ مجھ سے واقعی پیار کرتی ہیں۔ تو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ صرف میرے اور اُس کے بیچ کی بات ہے، پیارے۔‘‘ مُنّا لال نے اِس انداز سے کہا کہ بابو خاموش ہوگیا۔
رات۔ وہ بھی اندھیری رات اور صرف موبائل کی روشنی۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے قدم پھر رُگ گئے۔۔۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔۔”سوچ لے۔۔۔ اب بھی واپس لوٹ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔“
”نہیں۔۔۔۔“ اُس نے خود سے پُر عزم لہجے میں کہا۔۔۔۔ ٹھٹھکتے قدم پھر آگے بڑھنے لگے۔۔۔۔سیما کا خوب صورت جسم اُس کی آنکھوں میں لہرانے لگا۔ وہ ایک بار پھر سیما کے نشیب و فراز میں اُلجھتا ہوا آگے بڑھا۔
اب اسے لکڑی کی پُلیا سے گزرنا تھا۔ اچانک اُسے خیال گُزرا۔۔۔۔۔۔۔ گنگا کنارے سینکڑوں لاشیں دفن کی گئیں ہیں۔ کیا کسی کی آتما تو وہاں نہیں ہوگی۔۔ اس کے سارے جسم میں جھُر جُھری پیدا ہو گئی۔
اُس نے اپنے دل کو سمجھایا؛ ”تو کب سے آتماؤں کو ماننے لگا۔۔۔ جانے کتنی بار جب بھی کسی سے آتما کے تعلق سے بحث ہوئی تو ، تو نے یہی کہا کہ آتما۔۔۔ واتما کُچھ نہیں ہوتی۔۔ آدمی ختم۔۔۔ سب کُچھ ختم۔۔۔ “
جنگل پار کرنے کے لیے لکڑی کی پُلیا سے نیچے اُترتے ہوئے اچانک اس کی نظر سامنے گئی جہاں چاند کی آدھی ادھوری روشنی میں اسے کُچھ نظر آیا۔۔۔۔۔ وہ لرز کر رہ گیا۔ اُس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ اُسے لگا جیسے کوئی چُڑیل زمین پر لیٹی ہوئی ہے۔ وہ اپنا تمام حوصلہ سمیٹ کر آگے بڑھا۔ اُس نے غور کیاتو پایا کہ چھوٹی سی ناؤ اُ لٹی پڑی ہوئی تھی۔ جس کے دونوں چپّو دائیں بائیں ایسے پڑے تھے، جیسے کوئی چڑیل پیٹ کے بل لیٹی ہوئی ہے۔
اب گنگا کا کنارہ زیادہ دور نہیں تھا، جہاں سیما اُس کی منتظر تھی۔ وہ بہت سنبھل سنبھل کر چل رہا تھا کیوں کہ ریت میں سینکڑوں لاشیں دبی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔ اُس کا ڈر تھوڑا کم ہونے لگا تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ ضرور تھا، مگر سیما سے ملنے کا جوش و خروش اپنے شباب پر تھا۔ مُنّا لال اب چاروں طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا، جیسے کُچھ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ ایک درخت کو پہچان کر تیزی سے اُس طرف بڑھنے لگا۔ چالیس پچاس قدم چلنے کے بعد وہ پیڑ کے نزدیک پہنچا۔ یہاں اندھیرا زیادہ تھا۔ وہ بہت احتیاط سے قدم بڑھاتا ہوا پیڑ کی چوڑی جڑ کے پیچھے والے حصّے کی طرف گیا۔ وہ نیچے جھُکا۔ پیڑ کی جڑ میں کچھ ٹٹولنے لگا۔ تھوڑی دیر کی جستجو کے بعد اُسے بوری ملی۔ جس کو اُس نے گھسیٹا اور واپس اس طرف چلنے لگا۔جہاں بہت سارے مُردے دفن تھے۔
اب اُس کے ایک ہاتھ میں موبائل تھا اور دوسرے ہاتھ میں بوری تھی جسے وہ گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ موبائل کی روشنی میں وہ ایک ایک قبر کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر کی جُستجو کے بعد وہ ایک قبر پر رُک گیا، جس پر پلاسٹک کے پھولوں کا گلدستہ رکھا ہوا تھا۔
چند لمحے وہ چاروں طرف دیکھتا رہا جیسے، جائزہ لے رہا ہو، کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔پھر اُس نے بوری سے پھاوڑا نکالا۔ بوری کو ایک طرف اُچھال کر ، بنا کسی دیری کے پھاوڑے کو سر سے اوپر اٹھا کر پوری طاقت سے سیما کی قبر پر وار کیا۔
ایک جھماکے کے ساتھ رات کے اس دس بجے کے وقت میں سات گھنٹے پہلے کا مکمّل حادثہ مُنّا لال کی آنکھوں کے سامنے روشن ہوگیا۔
مُنّا لال آج صبح آٹھ بجے ہی اسپتال پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں اسپتال میں بہت بھیڑ رہتی تھی۔ کورونا کے مریضوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ صفائی ملازمین ہوں یا نرسیں، وارڈ بوائے ہوں یا سینئر و جونیئر ڈاکٹر، سب سولہ سولہ گھنٹے کام کر رہے تھے۔ ہر وارڈ میں مریضوں کی کراہٹیں تھیں تو ریسپشن کاؤنٹر پر تیماداروں، رشتہ داروں کا شور و غل۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ لوگ برابر اپنے مریضوں کو لا رہے تھے۔
دوپہر دو بجے سے اوپر کا وقت تھا۔ مُنّا لال اسپتال کے باہر ایک ڈھابے پر کھانا کھا کربیڑی پی رہا تھا۔ تب ہی بابو دوڑتا ہوا آیا اور بولا۔۔۔۔۔”سیما میڈم کے سر پر چوٹ آئی ہے۔۔۔۔بلیڈنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔“
یہ سُن کر مُنّا لال تیزی سے اسپتال کی طرف بھاگا۔
آدھے گھنٹے پہلے اسپتال کے ایک ڈاکٹر سے کسی مریض کے تیمادار کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اسپتال میں آکسیجن نہیں تھی۔ مریض کو آکسیجن کی ضرورت تھی۔ مریض کے بیٹے سے آکسیجن لانے کو کہا گیا۔ بیٹا دوسرے دن،چھوٹا سا سیلنڈر ہاتھ میں لیے واپس آیا تب اسپتال والوں نے بتایا کہ آپ کے مریض کی موت ہو چکی ہے۔
ریسپشن پر مریض کے بیٹے اور اس کے دوست و رشتے داروں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ فوراََ ہی ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ مرنے والے کے رشتے داروں اور دوستوں سے ڈاکٹر اور اِسٹاف کی بحث شروع ہوگئی۔
ڈاکٹروں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ اسٹاف نے صفائی دینی چاہی مگر وہ لوگ بات چیت سے گالیوں پر اُتر آئے۔ اسپتال کے منتظمین نے سیکیورٹی کو بلالیا۔ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ اسی درمیان مریض کے بیٹے نے وہ سیلنڈر جو مریض کے لیے لایا گیا تھا اور زمین پر پڑاہوا تھا، اٹھاکر ڈاکٹر کی جانب اُچھال دیا اورگا لیاں بکتا ہوا بولا:
”ابے۔۔۔۔۔، تو چار لاکھ روپے ڈکارنے کے بعد میرے پاپا کی لاش مجھے دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس سیلنڈر کا اب کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔لے یہ بھی اپنی۔۔۔۔۔۔ گھسیڑ لے۔۔۔۔۔۔“
ڈاکٹر سیلنڈر سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹا تو پیچھے کھڑی سیما ڈاکٹر سے بچنے کے لیے لڑکھڑائی اور اپنا بیلنس سنبھالنے کی کوشش میں برابر والی نیچے جا رہی سیڑھیوں پر گری۔ سات سیڑھیاں گرنے کے بعد اس کا سر دیوار سے ٹکرایا۔
ڈریسنگ روم میں اُس کی حالت بگڑنے پر ُاسے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا۔۔۔ جہاں اسے آکسیجن کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔ مگر اسپتال میں آکسیجن سلینڈر نہیں ملا۔ وہ سیلنڈر جو مرنے والے کا بیٹا ڈاکٹر کے اُوپر پھینک کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرار ہوگیا تھا، وہ سیلنڈر بھی اس افرا تفری میں کسی نے غائب کر دیا۔
سیما کی موت ہو گئی۔ اسپتال کے منتظمین کے کہنے پر اسے اُسی حالت میں سفید کپڑے میں لپیٹ کر گنگا کنارے دبا دیا گیا۔
جس وقت مُنّا لال اور تین چار اسپتال کے ملازم سیما کی لاش کو گنگا کنارے پر دبانے کے لیے لے جا رہے تھے تو اسپتال کے گیٹ پر کسی چینل کا رپورٹر اپنے چینل کو اطلاع دے رہا تھا:
”لائف کیئر اسپتال کی سُپر وائزر اور کورونا سے مر چکے ڈاکٹر منیش تیواری کی بیوی کی کورونا سے موت ہو گئی ہے۔ “
منّا لال اور اسپتال کے دوسرے ملازم گنگا گھاٹ پر پہنچے تو ایک اور رپورٹر اپنے چینل کے نیوز روم میں بیٹھے اینکر سے کہہ رہا تھا:
”سوچنے والی بات یہ ہے کہ بنا اگنی دیے، کسی مُردے کا انتم سنسکار ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا اس کی آتما کو شانتی ملتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا مرتکوں کی آتما مُکتی پراپت کر پاتی ہے؟ اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے ہمارے ساتھ ہیں۔۔۔ آچاریے۔۔۔۔۔۔“
مُنّالال نے گردن گھُماکر بہت غورسے رپورٹر کی طرف دیکھا اور کسی فکر میں ڈوب گیا۔
گنگا کنارے پر ہزاروں لاشیں دفن تھیں۔ وہیں ایک مقام پر سیما کو تین فُٹ گڈھے کے نیچے گاڑ دیا گیا۔ مُنّا لا ل نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود اس کی قبر پر پہچان کے لیے پلاسٹک کے پھول کا گلدستہ رکھ دیا اور قبر کھودنے والے پھاوڑے کو بوری میں بند کر کے ایک پیڑ کی جڑ میں چھپا دیا۔
مُنّا لال گڈھا پوری طرح کھود چکاتھا اور اب وہ سیما کی لاش کو گڈھے سے باہر کھینچ رہا تھا۔
جب وہ لاش کو باہر نکال چکا تو زمین پر بیٹھ گیا اور ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگا۔۔۔۔۔ اسی درمیان وہ چاروں طرف نگاہیں بھی دوڑاتا جا رہا تھا۔
اس نے اپنی سانسوں کو درست کیا اور بولا۔۔۔۔۔”میری سیما، میری جان، میں تُم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔پریشان مت ہو، میں تمہیں۔۔۔۔۔“ وہ سیما کی لاش پر جھکنے ہی والا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔
دور سے آ رہی کتّوں کے بھونکنے کی آواز بالکل نزدیک آگئی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ تین چار کتوّں نے اسے گھیر لیا ہے اور اس پر زور زور سے لگاتار بھونکے جا رہے ہیں۔ وہ میدان چھوڑکر بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے مورچا سنبھالتے ہوئے چاروں طرف گھوم گھوم آس پاس پڑی اینٹوں کو اُٹھا کر کتّوں کو مارنا شروع کر دیا۔ مگر کُتّوں کا حملہ زبردست تھا۔ کتّوں نے اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔ مُنّا لال کو لگا۔۔۔۔بھاگو۔۔۔۔جان بچی تو۔۔۔۔پھرکبھی۔۔۔۔۔
وہ گاؤں کی طرف دوڑا۔
منا لال کھیتوں کو پار کر چکا تھا۔ اب تیزی سے گلیوں سے نکلتا ہوا گھر کی طرف دوڑہا تھا۔ اُس کے دماغ میں اب بھی دو مختلف طوفان چل رہے تھے۔
کبھی وہ سوچتا۔۔۔۔۔۔ کتّے سیما کے جسم کو نوچ نوچ رہے ہوں گے؟
کبھی خیال آتا۔۔۔۔۔ وہ سیما کے جسم کی حفاظت کر رہے ہوں گے؟
منّا لال کی کشمکش جاری تھی۔
***

ذاکر فیضی کا یہ افسانہ بھی پڑھیں : ادھورا نِروان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے