یہ خاموش مزاجی تمھیں جینے نہیں دے گی

یہ خاموش مزاجی تمھیں جینے نہیں دے گی

حبیب الرحمن، پچڑا، دیناج پور

گزشتہ کل عدالت نے مولانا کلیم صدیقی صاحب حفظہ اللہ کو پولیس ریمانڈ پر دینے سے انکار کر دیا تھا، پھر عدالت کو آج کیا مجبوری پیش آگئی، دوسرے لفظوں میں یوں کہ لیجیے کہ اے ٹی ایس اور عدالت ، دونوں نے مل کر کیا گیم کھیلا کہ مولانا کو دس دن پولیس ریمانڈ میں بھیج دیاگیا، اور کس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا گیا؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہیے؟ در اصل غلطی ہماری ہی ہے، ہم اب حد درجہ بزدل بن گئے ہیں، ہماری قیادت کافی کم زور پڑچکی ہے، ہم جلد زبان کھولنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارے قائدین کو گرفتار کیا جا رہاہے، مگر ہم مذمتی بیان اور عملی اقدامات کرنے میں اتنی تاخیر کر بیٹھتے ہیں، کہ تب تک پانی سر سے اوپر جا چکا ہوتاہے، کیا ہمارے لیے وہ وقت آنا ابھی بھی باقی ہے کہ ہم خواب غفلت سے مکمل طور پر بیدار نہ ہوجائیں؟ اسدالدین اویسی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر غنڈوں نے جو توڑ پھوڑ مچائی ہے، کیا وہ کم ہے، اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے، اس سے قبل بھی تین دفعہ ان کی فرودگاہ پر فرقہ پرستوں کی طرف سے حملے کیے جاچکے ہیں، واقعی یہ کس قدر تعجب انگیز بات ہے کہ ان کی رہائش گاہ ایسی جگہ پر ہے، جہاں سے پولیس ہیڈ کوارٹر قریب ہی ہے، اس کے باوجود بھی ہندوسیناوں کی جرات تو دیکھیے کہ ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی، یہ تو ان کی خوش طالعی تھی کہ وہ موقعے پر موجود نہیں تھے، اس سے آپ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ وطن عزیز کو فرقہ پرست عناصر نے تباہی و تاراجی کے کس دہانے پر پہنچا دیا ہے، اسی طرح آسام کے برہمپترا ندی کے کنارے واقع درنگ ضلع کے دھول پور فوفوو تولی علاقے میں آٹھ سو سے زائد مکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر جس بے رحمی سے ڈھا دیا گیا ہے، وہ بھی ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہاہے، بتایا جاتاہے کہ اس ضلع میں بیش تر مسلمانوں کے گھر ہیں، اس پر مستزاد تین مسجدیں شہید کردی گئی ہیں، صرف ایک مندر غلطی سے توڑ دیاگیا ہے، تو وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرمانے ٹوئٹ کرکے مندر کی انتظامیہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی ہے، کہ ہم شیو مندر تعمیر کریں گے، اور چاروں طرف سے اس مندر کو گھیر دیں گے، تاکہ اسے کوئی گزند نہ پہنچاسکے، ان کی فرقہ پرست ذہنیت تو ذرا دیکھیے کہ اس نے مسجدوں کی شہادت پر کچھ بولا نہیں، اور شاید غلطی سے ایک مندر ٹوٹ گیا ہوگا تو انھوں نے مندر انتظامیہ کمیٹی کو اس کی تعمیر کی یقین دہانی کرادی، جب کہ وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ہم یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں، اور سرکار اب یہ دعوی کر رہی ہے کہ یہ لوگ سرکار کی زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں، جب کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے ان گھروں کو توڑنے پر روک لگادی تھی، اس کے باوجود بھی غیر قانونی طریقے سے ان گھروں کو توڑا گیا، واقعی ان بیدادگروں کی ستم ظریفی کو تاریخ کے پنوں پر سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس کی بھی مہلت دینے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ لوگ اپنے سامانوں کو دوسری جگہ پر منتقل کرلیں، بھائیو !! آخر کب تک اس طرح چلتا رہے گا ؟ واللہ ، اب وہ وقت آہی چکا ہے کہ ہم آپسی اختلافات اور نظریات کو بالائے طاق رکھ کر ظلم کے خلاف زور و شور کے ساتھ آواز بلند کرنی شروع کردیں، جب کہیں سے بلا وجہ کی گرفتاری کی خبر موصول ہو، تو ہمیں اب سراپا احتجاج بن جانے کی ضرورت ہے، اگر مولانا کی جگہ غیر مسلموں کےقائد کی گرفتاری ہوتی، تو اب تک وہ لوگ آسمان سر پر اٹھالیے ہوتے، وہ لوگ تو زانیوں، مبینہ قاتلوں کی گرفتاری پر بھی احتجاج کرنے لگ جاتے ہیں، مگر ہم ہیں کہ حق پر رہنے کے باوجود بھی، آپ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہ لیں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی بزدلی، بےتوفیقی اور کم زور قیادت کے باعث تماشا دیکھنے کی خاطر خاموش ہوجاتے ہیں، پھر جب معاملہ ہمارے قابو سے باہر ہوجاتاہے، تو اس وقت رجوع الی اللہ شروع کردیتے ہیں، جب کہ رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی اپنانی چاہیے، اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی مکمل طور پر بیدار ہوجائیں، اور اپنی قیادت سے بھی اس بات کا مطالبہ کریں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے جائیں، تو صرف مذمتی بیان سے کام نہیں چلے گا، اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں، اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے –
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کیا ہم اسی کو آزادی کہتے ہیں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے