شخصیت : مشتاق مہدی

شخصیت : مشتاق مہدی

 ایس معشوق احمد

کچھ ادیب و فن کار ایسے ہوتے ہیں جو ادب و فن کو پروان چڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے لیکن ان کو وہ مقبولیت اور قبولیت نہیں ملتی جس کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادب و فن کو پرکھنے والے ناقدین ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ایسے ادیب بعض دفعہ لوگوں میں مقبول تو ہوتے ہیں لیکن ادبی حلقوں میں ان کے چرچے کم ہی ہوتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں بھی ایسے ادیب و فن کار ہیں جنھوں نے یہاں کے کلچر، ثقافت، تہذیب، تمدن اور اس ہر واقعے کو موضوع بنایا جو توجہ طلب تھا۔ ایسے ہی معزز ادیبوں میں ایک اہم نام مشتاق مہدی صاحب کا ہے۔
مشتاق احمد مہدی کا پورا نام مشتاق احمد شاہ ہے۔ آپ 13 فروری 1952 ء میں خانیار سرینگر میں پیدا ہوئے۔آپ اردو اور کشمیری دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور دونوں زبانوں میں آپ کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ پہلے چند برس مشتاق احمد مشتاق کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے،1977 ء میں یہ نام ترک کرکے مشتاق مہدی رکھ لیا۔ آپ کی اصل پہچان بطور افسانہ نگار ہے۔پہلا افسانہ 1974ء میں "کمینہ" کے عنوان سے بمبئی فلم سنسنار میں شائع ہوا۔ کشمیری زبان میں پہلا افسانہ ” پدپکون" 1974 ء میں قلم بند کیا۔ اب تک آپ کے دو افسانوی مجموعے مٹی کے دیے ( 1975)ء ( یہ افسانوی مجموعہ تین دوستوں نے مل کر شائع کیا تھا اور اس مجموعے میں مشتاق مہدی کے علاوہ سید یعقوب دلکش اور غلام نبی شاہد کے افسانے بھی شامل ہیں) اور ” آنگن میں وہ" (2010)ء شائع ہوچکے ہیں۔ مشتاق مہدی نے اپنے افسانوں میں لغزش آدم ( افسانہ_ آنگن میں وہ) سے لے کر کشمیر کی ابتر صورت حال تک کو کبھی سادہ بیانیہ تو کبھی علامتی اظہار اپنا کر بیان کیا ہے۔ چونکہ خود شہر میں رہتے ہیں اور شہر کی زندگی اور شہر کے انسان کی نفسیات سے واقف ہیں. اس نفسیات اور رویے کو ہی نہیں بلکہ انسان کی مٹتی قدروں کو انھوں نے اپنے افسانوں میں خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں اساطیری فضا بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور معنی کی تہہ داری بھی۔ مشتاق مہدی اپنی بات قاری کے سامنے دل کش اسلوب میں رکھنے کی قدرت اور مہارت رکھتے ہیں۔” آنگن میں وہ" ان کا مشہور افسانوی مجموعہ ہے جو 2010 ء میں منظر عام پر آیا ہے. اس افسانوی مجموعے میں اکیس افسانے شامل ہیں۔ان افسانوں میں ” وہ" کی تلاش اور ایک نئی دنیا کی جستجو دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں اشرف المخلوقات رہتے ہوں۔ جہاں نہ ابتر حالات کا رونا ہو اور نہ بے حیائی، بدتمیزی اور بڑوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہو۔
کسی بھی خطے کے ادب میں اس خطے کے حالات و واقعات جغرافیہ، ماحول اور قدرتی مناظر کا در آنا فطری ہے۔ کشمیر جن زبوں ترین حالات سے پچھلی کئی دہائیوں سے گزر رہا ہے اور یہاں جو ڈراؤنی آوازیں گونج رہی ہیں، کبھی سناٹے کا عالم تو کبھی پرچھائیوں کا خوف، کبھی نعروں کا شور تو کبھی خاموشی اور ماتم، کبھی رقص کرتی زندگی تو کبھی موت کا نرت، کبھی خوف کی گردش تو کبھی ڈر کے چکر، اس سارے گھماؤ کی عکاسی مشتاق مہدی اپنے افسانوں میں بھر پور انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں صرف اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں ملتی بلکہ سماج، افراد اور عوامی فکر و خیال کی ترجمانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
مشتاق مہدی افسانے کی روایات سے واقف نظر آتے ہیں۔ان روایات کو انھوں نے نہیں توڑا، ہاں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ یہ اضافہ پیوند کی صورت نہیں بلکہ بنا کسی کی تقلید کیے اپنا انوکھا، دل کش اور منفرد طرز اظہار اپنا کر قاری کی سوچ اور پسند کو سامنے رکھ کر کرنے کی سعی کی ہے۔ اعتدال کے راستے پر چل کر انھوں نے  نہ صلے کی تمنا کی نہ ستائش کی پروا کی. بلکہ فنی معیار کا خیال رکھ کر ادب کے گلستان کی سجاوٹ میں منہمک رہے۔ ستیش ومل ان کی کتاب "آنگن میں وہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے مشتاق مہدی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ__
"ایک سچے ادیب کی طرح مشتاق مہدی نے توصیف ناموں اور شاباشیوں کے بھرم جال میں پھنسے پھنسائے کی مشق کے بجائے اپنے مخصوص انداز بیان کے ساتھ اپنا اظہار جاری رکھا۔ ہم انھیں نہ مکمل روایت شکن کہہ سکتے ہیں اور نہ روایتی۔ روایت میں جو کچھ اچھا ہے وہ بچا لینا ہے اور جو تازہ اور نیا ہے اسے گلے لگا لینا ہے. یہی مشتاق مہدی کا فلسفہ ہے۔ ہم اسے اعتدال کی صورت کہہ سکتے ہیں۔ ہر دور میں جب روایت اور روایت شکنی کے بیچ پل کا کام ادب کرتا ہے تو مشتاق مہدی کی ہی طرح نمایاں ہوجاتا ہے۔"
ایک ادیب نعرے بازی نہیں کرتا اور نہ ہی ہاتھ میں پتھر اٹھا کر ایوان بالا میں بیٹھے ارکان کے گھر جاکر شیشے توڑتا ہے بلکہ وہ قلم کے ذریعے اپنا احتجاج درج کرتا ہے جس کو آنے والی صدیاں پڑھ لیتی ہیں۔ مشتاق مہدی نے اپنے افسانوں میں یہی احتجاج درج کیا جس کی عمدہ مثال افسانے ” سچ کیا ہے" اور ” کہانی " میں ملتی ہے۔ "رات کا فسانہ" مشتاق مہدی کا ایسا ہی ایک افسانہ ہے جس میں نقارچی، سحر، تاریک رات، تاریکی کے دیو، بھیڑیا جیسی علامتوں کے ذریعے احتجاج درج کیا گیا ہے۔ اس افسانے سے یہ اقتباس دیکھیں جس میں المیہ کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔
” ادھر ناظم اعلی کے کارندے بستیوں میں گھوم گھوم کر اعلان کرتے کہ نقارچی شر پسند ہیں، امن و امان کے دشمن ہیں، انھیں بہت جلد زیر کیا جائے گا۔ پھر اس نے بے شمار آہن پوش بستی کے چاروں اطراف پھیلا دیے۔ آہن پوشوں کی آنکھوں میں نفرت اور دہشت کے شعلے بھڑکے ہوئے تھے۔ انھیں جس پر شک گزرتا اسے موت کی وادی میں سلا دیتے۔ بہت سے نقارچیوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ بے شمار نوجوانوں، مردوں اور بچوں کو نقارچیوں سے ہمدردی رکھنے کی بنا پر مختلف زندانوں میں قید کر دیا گیا۔"

مشتاق مہدی نے نہ صر ف افسانہ لکھے بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر ڈراما، شاعری، مضامین، شارٹ فلمز اور سیریل میں بھی دکھائے۔ کشمیری زبان میں ان کی غزلوں کا مجموعہ ” نغمے دل " کے عنوان سے 1996ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ نغمے دل میں شامل غزلوں کو وادی کشمیر کے نامور گلوکاروں نے اپنی آواز بخشی ہے۔ یہ غزلیں آج بھی ریڈیو کشمیر سرینگر اور دور درشن پر سامعین کی سماعتوں میں رس گھولتی ہیں۔ مشتاق مہدی کی کشمیری ڈراموں پر مبنی کتاب "شکر بابا" 2019 ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ ان ڈراموں میں حالات حاضر کے انسان کے مسائل کو فنی خوبیوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مشتاق مہدی نے دور درشن سرینگر کے لیے اردو اور کشمیری میں کئی سیریل لکھے ہیں۔ جن میں انتقام (1996ء تیرہ اقساط)، خود دار (پانچ اقساط) اور قدرت ( پندرہ اقساط) خاصے مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ مشتاق مہدی نے ایک درجن سے زائد شارٹ فلمیں لکھی ہیں۔1977 ء میں مہدی کا پہلا ریڈیائی ڈراما ” ہاوس " پران کشور کی ہدایت میں ریڈیو کشمیر پر براڈ کاسٹ ہوا۔
” مہدی پرڈکشنز " کے بینر تلے مشتاق مہدی نے بحیثیت رائٹر، اینکر اور ڈائریکٹر دور درشن کے لیے کچھ ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائی ہیں۔ جو ” وءلو زانو" نامی پروگرام سیریل کے عنوان سے نشر کی گئی۔ کشمیر کے تین عہد ساز اور بڑے شعراے کرام شمس فقیر، وہاب خار اور صمد میر پر بھی ایک پروگرام سیریل بنائی جس میں ان شعراے کرام کی حالات زندگی، فکر و فن اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مشتاق مہدی کی کشمیری کہانیاں سورخ وٹھ، کنہ میول زو، گاڈ شہرک شکار کا ترجمہ انگریزی، اردو اور پہاڑی زبانوں میں ہوا ہے۔ اردو کے جن افسانوں کو انگریزی زبان کا غلاف پہنایا گیا اور مقبول ہوئے ان میں” عبادت" اور "سچ کیا ہے" شامل ہیں۔

مشتاق مہدی کی تخلیقات کشمیر کے اخبارات و رسائل شیرازہ، تعمیر، جہات، نگینہ انٹرنیشنل، واد، آلو، لفظ لفظ، قاشین، ہر موکھ، نہج کے علاوہ شب خون(الہ آباد)، شاعر( ممبئی)، فلم سنسار( ممبئی)، تریاق(ممبئی)، شمع(دہلی)، ایوان اردو( دہلی )، روشن ادب(دہلی)، سفیر اردو(برمنگھم انگلینڈ)، انہماک انٹرنیشنل( پاکستان)، ندائے گُل(پاکستان)، بھاشاوباگ(پنجاب)، العطش(جموں) جیسے رسائل و جرائد میں اہتمام سے چھپتی ہیں۔
مشتاق مہدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ فکش رائٹرس گلڈ کی پہلی نششت کی صدارت انھوں نے ہی سنبھالی تھی جس میں کشمیر کے معتبر افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیاں پیش کی تھیں۔ مشتاق مہدی فکشن رائٹرس گلڈ کے بنیاد گزار ممبران میں سے ایک ہیں۔
مشتاق مہدی کا قلم ابھی جوان ہے اور امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید فن پارے وجود میں آئیں گے جو دبستان کشمیر کے ادبی سرمائے میں قابل قدر اضافہ ہوگا۔

پچھلا کالم یہاں پڑھیں: شخصیت : ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

کالم نگار کا یہ انشائیہ بھی ملاحظہ ہو: ادھار اور گالی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے