والدین اور بوڑھوں کی پریشانیاں

والدین اور بوڑھوں کی پریشانیاں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

مشرقی تہذیب وثقافت کے نمائندہ ملکوں میں ہندستان کا نام آتا رہا ہے ؛ لیکن گذشتہ نصف صدی میں مغرب کی طرف سے آنے والی بے راہ روی نے ہندستان میں تیزی سے پاؤں پھیلائے ہیں اور جس طرح مغربی ممالک میں ضعفا کے لیے الگ مکانات ہوتے ہیں اور ان کی خبر گیری سرکار اور حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، والدین سے بیٹے اور بیٹیوں کا تعلق یوم پدر ومادر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے ، یوم پدر پر والد صاحب سے اور یوم مادر پر والدہ سے اولڈ ایج ہوم جا کر مل آنا کافی سمجھاجاتا ہے، اگر کوئی لڑکا لائق ہے تو ہر ہفتہ کے اختتام پر ملاقات کے لیے چلا جاتا ہے، یہ بڑی سعادت اور نیک بختی کی علامت سمجھی جاتی ہے، جن والدین نے بچوں کی پرورش وپرداخت میں اپنے آرام و سکون کا خیال نہیں رکھا، اپنی ضرورتوں کو مؤخر کرکے ان کی فرمائشوں کی تکمیل میں لگے رہے، وہی بچے جوان ہو کر والدین اور بزرگوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں، ظلم صرف یہی نہیں ہے کہ ان پر ڈنڈے برسائے جائیں، ظلم و ستم یہ بھی ہے کہ ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھا جائے، ان کی دل جوئی کے لیے ان کے ساتھ نہ بیٹھا جائے، محبت کے دو بول سے بھی انھیں محروم کر دیا جائے، قرآن کریم میں تو انھیں ’’اُف‘‘ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے اور اپنے کاندھے جھکا لینے کی تلقین کی گئی ہے، ان کے لیے اللہ سے رحم کی دعا سکھائی گئی ہے؛ لیکن آج کل زیادہ لوگوں کو اس کی فکر نہیں ہوتی اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بچے بھی بڑھاپے میں ان کا وہی حشر کریں گے جو انھوں نے اپنے والدین کے لیے روا رکھا ہے، مثل مشہور ہے، ’’ جَس کرنی تَس بھوگ‘‘ مکافات عمل اسی کا نام ہے، کچھ اعمال کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے زیادہ سخت ہے ۔
آج ملک ہندستان میں بڑی تعداد ان والدین اور بوڑھوں کی ہے، جنھیں زندگی کے آخری پڑاؤ میں لڑکوں سے اپنے حقوق کی طلب کے لیے عدالت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، فی الحال پورے ملک میں بزرگوں کی جانب سے اپنے متعلقین پر پچیس لاکھ سے زائد مقدمات عدالتوں میں زیر غور ہیں، تین لاکھ مقدمات ایسے ہیں جن میں بزرگ والدین اپنے بچوں سے نان ونفقہ، تحفظ یا رہائش کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں، قومی عدالتی ڈیٹا گریڈ (نیشنل جوڈیوشیل ڈیٹا گریڈ) کے مطابق بزرگ شہریوں کے ذریعہ پچیس لاکھ دو ہزار ایک سو تین مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں، جن میں اٹھارہ لاکھ، تہتر ہزار آٹھ سو تہتر مقدمات سول اور چھ لاکھ اٹھاسی ہزار دو سو تین مقدمات کا تعلق جرائم سے ہے، تین لاکھ مقدمات وہ ہیں جن میں بزرگوں نے گذارہ بھتہ، ضروری اخراجات، اپنے گھر میں قیام پذیر ہونے اور بچوں کے ذریعہ مار پیٹ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے ترجیحی بنیاد پر بزرگوں کے مقدمات کے نمٹارے کا حکم دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ اس کی مدت تین ماہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
بزرگوں کے لیے مقدمات کو دہلی میں بغیر فیس کے وکالت کرنے والے این کے سنگھ بھدوریا کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلوں سے انھیں ان کا حق مل جاتا ہے، اور بزرگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی آتی ہے؛ کیوں کہ عدالت کے فیصلے کے بعد انھیں لڑکوں کے ذریعہ پریشان نہیں کیا جاتا ہے، اگر کسی نے زیادتی کی تو پولیس فوراِ کارروائی کرتی ہے اور ضروریات زندگی کے لیے جو خرچہ عدالت نے مقرر کیا ہے اسے مل جانے سے ان کی پریشانیاں کم ہوتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کام اپنے طور پر کرنا ہماری شرعی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری تھی اسے عدالت کے خوف سے کرنے پر آمادگی ہو رہی ہے، ہم نے سارے شرعی تقاضوں ، اخلاقی اقدار اور انسانی اطوار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:کتاب : زاویۂ نظر کی آگہی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے