امارتِ شرعیہ کے امیر کا انتخاب یا علماے کرام کی سیاسی بصیرت کا امتحان؟

امارتِ شرعیہ کے امیر کا انتخاب یا علماے کرام کی سیاسی بصیرت کا امتحان؟

گذشتہ تین مہینوں کی کوششوں کے بیچ امیرِ شریعت کے انتخاب کے مسائل مزید پیچیدہ ہوئے ہیں،
اب جگ ہنسائی سے کم پر کوئی حلقہ تیّار نہیں ہے۔

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو،کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اخبارات و رسائل میں یہ خبر شاہ سرخیوں میں آنی چاہیے تھی کہ قوم و ملّت کے جاں سوز اور دوٗر اندیش علماے کرام نے ١٩٢١ء میں امارتِ شرعیہ کے نام سے جو ایک چھوٹا سا پودا لگایا، وہ سو برس کی منزل پار کرکے بے شک ایک تناور درخت بن گیا۔ گذشتہ ڈیڑھ برسوں کے وبائی ماحول نے کسی جشن کی گنجایش کسی ادارے کے لیے نہیں چھوڑی ورنہ امارتِ شرعیہ بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ اور آسام کا جتنا بڑا دائرۂ اثر ہے، اس کے اعتبارسے اس کا صد سالہ جشن پورے سال چلنا چاہیے تھا۔ مگر رسمی طَور پر ہی جشنِ صد سالہ کو منا لینا ممکن ہُوا۔ مگر اِسی سو سال کی تکمیل سے ذرا پہلے اپریل  ٢٠٢١ء میں ساتویں امیرِ شریعت مولانا ولی رحمانی کا انتقال ہوا اور اپریل سے ان سطروں کے لکھنے تک جو سیاست، عالمانہ چپقلش اور علماے کرام کی اور علماے کرام کے ذریعے ایک دوسرے کی تذلیل اور خفّت و ردِّ خفّت کے جو مناظر دیکھنے کو مِلے، وہ حیرت انگیز ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بزرگوں کی امانت کو سرِ عام اور رُسوا سرِبازار کرنے کے لیے ہر کوئی در پَے ہے۔ اب امیرِ شریعت کے انتخاب کی الگ الگ دو تاریخیں بھی سامنے آ چکی ہیں، اس لیے جنگ و جدال، مقدّمہ اور پولس کیس جیسے خدشات سے انکار کرنا فصیلِ وقت پر واضح عبارتوں کو جھٹلانے جیسا معلوم ہوتا ہے۔
کہنے کو امارتِ شرعیہ اپنی طویل روایت اور ضابطوں کی پابند ہے مگر الگ الگ وقتوں میں حسبِ ضرورت یا حسبِ سہولت اس میں ترمیم و اضافہ بھی کیا گیا۔ آخر آخر میں وہ ادارہ ٹرسٹ در ٹرسٹ کے دائرۂ کار میں بھی چلا آیا اور اب جتنے مسائل پیدا ہوں گے، موجودہ عہد کے قوانین سے اس کی مطابقت لازم ہوگی اور ذرا سی پیچیدگی آنے پراصحابِ اقتدار اور انتظامیہ کی مداخلت کے امکانات اپنے آپ پیدا ہوجائیں گے۔ ان خطرات کو ہر شخص سمجھ تو رہا ہے مگر زبان پر اور کھُلے منچ سے کوئی کہنے کے لیے تیّار نہیں ہے۔ زبان سے رٹی رٹائی یہی بات ہر شخص یا تمام فریقَین ادا کر رہے ہیں کہ امارتِ شرعیہ کی مہتم بالشّان روایت اور اس کی ملّی خدمات کے پیشِ نظر اُس کا تحفّظ لازم ہے۔ مگر اس تحفّظ کے اعلان میں بکھراو کے کتنے اوزار سب نے چھپا رکھے ہیں، اس کا اعلان بھلے نہ کیا جائے مگر دنیا آنکھیں کھول کر یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ متعلّقہ اکثر و بیش تر افراد اس حمّام میں ایک ہی جیسی کیفیت میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔
امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں یہ بات موجود ہے کہ امیرِ شریعت جِسے چاہیں اپنا نائب مقرّر کر دیں۔ اسی ضابطے کے تحت مولانا ولی رحمانی نے اپنی بیماری کے دوران مولانا شمشاد رحمانی کو نائب امیرِ شریعت نام زد کیا۔ فوری طَور پر سماج میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ امیرِ شریعت نے جسے اپنا نائب بنایا، اُسے سب نے تسلیم کر لیا۔ حالاں کہ جمہوری عہد اور مذہبی صلاح و مشورہ کا اصول یہ کہتا ہے کہ امیرِ شریعت جب اپنا نائب مقرّر کریں تو کیوں نہیں مجلسِ شوریٰ اور اربابِ حلّ و عقد کی مجلس کا عِندیہ بھی جان لیں۔ کیوں کہ امیرِ شریعت کے نہیں رہنے پر نائب امیرِ شریعت تمام و کمال امیرِ شریعت کا درجہ رکھتا ہے۔اس میں پریشانی یوں بھی نہ ہونی چاہیے کہ امیرِ شریعت اپنا نائب یقینی طَور پر ایسے لائق و فائق کو منتخب کریں گے، جن کی بزرگی اور قائدانہ صلاحیت پر انھیں یقین ہوگا۔ مگر امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں ایسی کوئی جمہوری شِق موجود نہیں۔ بزرگوں نے اپنی سادگی اور شرافت یا نیکی میں مستقبل کے خدشات پر نگاہ نہ رکھی۔ یہ محض اتّفاق ہے کہ مولانا سجّاد سے لے کر مولانا شمشاد رحمانی تک سُلجھی ہوئی فکر کے افراد نائب امیرِ شریعت بنتے رہے اور قوم و ملّت کی آبروٗ کی سلامتی میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا۔
امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں یہ ہے کہ امیرِ شریعت کے وصال کے تین مہینے کے اندر نائب امیرِ شریعت نئے امیرِ شریعت کے انتخاب کی کارروائی مکمّل کر لیں۔ اس مدّت میں اگر وہ یہ کام انجام تک نہیں پہنچا سکیں تب مجلسِ شوریٰ اپنی نشست بُلائے گی اور نئے امیرِ شریعت کے انتخاب کے لیے ناظمِ امارتِ شرعیہ کو کارروائی مکمّل کرنے کی ہدایت دے گی۔ مسائل اِنھی دونوں پہلوؤں سے پیدا ہوئے۔ مولانا ولی رحمانی بھی کورونا کی وبا میں رخصت ہوئے اور ان کی وفات کے تین مہینے گُزرنے تک واقعتا ایسی کوئی گنجایش قانونی طَور پر سماج میں موجود نہیں تھی کہ آٹھ سو اکیاون(٨٥١) افراد کو کسی ایک جگہ پر جمع کر کے اربابِ حلّ و عقد نئے امیرِ شریعت کا انتخاب کرلیں۔ اس لیے نائب امیرِ شریعت نے مجلسِ شوریٰ کی آن لائن نشست بُلائی اور شوریٰ نے وبائی صورتِ حال کے پیشِ نظر نائب امیرِ شریعت کو تین مہینے کی رُکاوٹ سے علاحدہ رکھا اور انھیں یہ حق دیا کہ حالات درست ہونے کی صورت میں انتخاب کی کارروائی وہ مکمّل کریں۔ اگست میں انتخاب کی تاریخ متعیّن ہوئی اور مختلف حلقوں میں بانٹ کر الگ الگ انتخاب کے مراکز بنائے گئے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں تھی اور اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ کسی ایک مرکز پر پچاس ساٹھ سے زیادہ افراد نہ ہوں۔
اس انتخاب کی ایک شرط تھی کہ اربابِ حلّ و عقد کے ایک سو اکیاون (۱۵۱) ممبران کی توثیق کے بعد ہی کوئی آدمی امّید وار بن سکتا ہے۔ یہ بھی تھا کہ جو لوگ اپنی نام زدگیاں پیش کریں گے، اس کے مطابق بیلٹ پیپر تیار کیا جائے گا۔ بعض جیّد علماے کرام جن کی باتیں ملک و قوم بہ غور سُنتی ہے، انھوں نے اس رائے دہندگی کے طریقے کو غیر اسلامی کہا۔ ایک بڑے عالمِ دین نے یہ بھی کہا کہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ امیرِ شریعت کا انتخاب سراسر اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ حالاں کہ اسی دوران اُن بڑے علما میں سے ایک نے پریس کے سامنے یہ بیان دیا کہ مجھے بہ اتّفاقِ رائے امیرِ شریعت منتخب کر لیا جائے تو مَیں اس کے لیے راضی ہوں۔ حالاں کہ یہ بات پہلے بحث میں آئی تھی کہ امیرِ شریعت بننے کا دعوا کرنا یا خواہش کا اظہار کرنا، یہ بزرگوں کی شان نہیں ہے۔ اسی لیے امّید واری طلب کرنا یا نام زدگی کے کاغذات داخل کرنا غیر اسلامی ہے۔ مگر خود سے یہ دعوا کرنا کہ بہ اتّفاقِ رائے مجھے چُن لیا جائے تو مَیں خدمت کے لیے تیّار رہوں گا؛ کیا یہ خواہش کا اظہار نہیں ہے؟ حالاں کہ مختلف مراکز پر ووٹنگ اور بیلٹ پیپر کا استعمال وبائی اور قانونی دونوں صورتوں میں نادرست کہنا نامناسب تھا۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ ٨٥١/ ممبران والے ’اربابِ حلّ و عقد‘ سے ۱۵۱/ افراد کی توثیق غیر ضروری تھی اور اس کے مخفی مقاصد اندیشوں کو جنم دے رہے تھے۔ مختلف حلقوں سے اس کے ردِّ عمل میں ہنگامہ آرائیاں ہوئیں اور آخر کار یہ انتخاب اعلان سے آگے نہ بڑھ سکا اور مُلتوی کے خانے میں چلا گیا۔
اس دوران ستمبر کے آغاز میں اچانک یہ خبر شایع ہوئی کہ مجلسِ شوریٰ نے اَلمعھدالاسلامی میں ایک نشست منعقد کی اور دس اکتوبر ٢٠٢١ء کو امیرِ شریعت کے انتخاب کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اسی خبر میں یہ بات بھی درج تھی کہ تین مہینے کی مدّت ختم ہونے کے بعد نائب امیرِ شریعت کا حقِ انتخاب ختم ہو گیا مگر اس سے چار مہینے قبل آن لائن مجلسِ شوریٰ میں آخر اُن کے اختیارات وبائی صورتِ حال کے پیشِ نظر بڑھائے گئے تھے، اُسے کیا مانا جائے؟ چند دنوں کی خاموشی کے بعد دس اکتوبر کے انتخاب کا اعلان امارتِ شرعیہ کی طرف سے جاری ہوا۔ یہ اتنا اہم موضوع تھا مگر قایم مقام ناظم کی جگہ پر کسی دوسرے شخص کا دستخط ثبت تھا۔ پھر بعد میں ناظم(قایم مقام) اور نائب امیرِ شریعت کے بیانات سے بھی یہ واضح ہوا کہ دس اکتوبر کو ہی یہ انتخاب عمل میں آئے گا۔ یہ بھی اعلان ہوا کہ اتّفاقِ رائے نہ ہونے پر پسندیدہ فرد کے نام کو لکھ کر بکس میں ڈالنے کی سہولت رہے گی۔ گویا یہ بیلٹ پیپر سے الگ قسم کی کوئی ”اسلامی صورت“ سامنے آ گئی۔
حقیقی سوالات کئی ہیں جنھیں اس اعلان میں پسِ پشت رکھا گیا۔ اگر مجلسِ شوریٰ میں ۱۰۱/ ممبران ہیں تو ان میں سے کم از کم ٥١/ افراد جمع ہوئے بغیر اکثریت سے تاریخِ انتخاب کا فیصلہ کیسے ہو گیا اور اسے کیوں کر تسلیم کیا گیا؟ مجلسِ شوریٰ کی نشست کے دعوت نامے کب جاری ہوئے اور کب لوگوں کو اس کی اطّلاع دی گئی؟ آج کی تاریخ تک اس خاص نشست کی ویڈیو ریکارڈنگ سامنے نہیں آسکی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اس نشست میں کم از کم ٥١/ ارکانِ شوریٰ شامل تھے۔ دستخط اور ان کی جعل سازیاں، فہرستِ ارکان کی خبر میں شمولیت اور تشہیر جیسے معاملات پر اخبارات میں جگ ہنسائی ہو چکی ہے۔ ایسی صورت میں وہ مجلسِ شوریٰ کی نشست جس کی اطلاع تمام ارکان کو نہ دی گئی ہو اور جس میں شریک افراد کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی نہ دستیاب کرائی گئی ہو؛ ایسی شوریٰ کی ہدایت کو نائب امیرِ شریعت یا قایم مقام ناظم نے کس طرح اور کیوں قبول کیا، یہ سمجھ سے پَرے ہے اور ان کی صواب دید پر سوال ہے۔
اب تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک اور مجلسِ شوریٰ نے نشست منعقد کی اور امیرِ شریعت کے انتخاب کی تاریخ ۹/ اکتوبر متعیّن کر دی ہے۔ اس نشست کے لیے بھی کوئی اشتہار، دعوت نامہ یا اعلان پہلے سے نظر نہیں آیا۔ المھد الاسلامی کی ستمبر کے آغاز کی مجلسِ شوریٰ کی نشست اگر غیر قانونی نہیں ہے تو یہ نشست بھی آئینی ہے۔ دونوں شوریٰ کی نشستوں کے جو نتائج اخبارات تک روانہ کیے گئے، ان میں محض چند ارکان کے نام اور کسی ایک کا دستخط ثبت ہے۔ اب اقبال کے لفظوں میں یہ سوال اربابِ حلّ و عقد پوچھتے ہیں:
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
دس اکتوبر کے انتخاب کے لیے جو جگہ مقرّر ہے، وہ ٨٥١/ اربابِ حلّ وعقد کے لیے غیر مناسب ہے۔ ایک سو اور دو سو کے لیے وہ جگہ موزوں تھی مگر پتا نہیں کس عقل و شعور سے وہ جگہ چُنی گئی۔ وبائی صورتِ حال میں جسمانی دوری کا خیال رکھتے ہوئے کوئی کھُلی جگہ چُنی جانی چاہیے یا شری کرشن میموریل ہال یا اسی طرح بڑی جگہ ہونی چاہیے۔ تازہ تر اطلاعات کے مطابق ابھی تک ارکان کو کسی مجلس نے خطوط جاری نہیں کیے ہیں۔ باضابطہ طور پر اربابِ حلّ و عقد کی تصویروں کے ساتھ شناختی کارڈ بنوانے چاہئیں اور ووٹر لسٹ تصویروں کے ساتھ شایع کرکے پولس یا سِوِل انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ جس تاریخ کو امیرِ شریعت کا انتخاب ہو، اربابِ حلّ و عقد کا جسمانی تحفّظ بھی ہو اور متوقّع انتشار یا علما کے پس پردہ جرائم پیشہ حلقے کی بہ راہِ راست شمولیت کا کوئی راستا نہ کھُل جائے۔ مناسب یہ ہوگا کہ امارتِ شرعیہ، مجلسِ شوری اور اربابِ حلّ و عقد سے باہر کے افراد انتخابی عمل کے کارِ پرداز ہوں۔ امارتِ شرعیہ ٹرسٹ تو ہے ہی، کیا بُرائی ہوگی اگر کلکٹر یا کمشنر کی سطح کے کسی افسر اور اس کے اہل کاروں کو اسے صاف و شفّاف طریقے سے انتخابی عمل کی تکمیل کے لیے دعوت دے دی جائے۔ ورنہ پنچایت اور اسمبلی یا پارلیمنٹ انتخابات کے اعمالِ بد کے مظاہر سے انکار ممکن نہیں۔

مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔
Email: safdarimamquadri@gmail.com
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : مولوی محمد باقر : قومی صحافت کا نقّاشِ اوّل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے