شخصیت : ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

شخصیت : ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

ایس معشوق احمد

ہر فرد کے پاس کہنے کو ہزار باتیں ہوتی ہیں۔ اگر وہ ادیب ہے تو ان باتوں اور قصوں کو وہ ادبی انداز میں بیان کرکے عمر جاوداں عطا کرتا ہے جو ادب کہلاتا ہے۔ ادب میں اپنی سوچ و فکر، احساسات و جذبات، اپنے اور لوگوں کے مسائل کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ کسی واقعہ پر اپنا رد عمل اور مخصوص نقطہ نگاہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اپنی بات کو بیان کرنے کا وسیلہ کوئی افسانے کو بناتا ہے تو کوئی شاعری کے ذریعے اپنے خیالات کی تشہیر کرتا ہے۔بعض افراد متنوع اصناف کا سہارا لیتے ہیں. کیونکہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے اور وہ ادب کے آسمان میں افسانے اور تنقیدی و تحقیقی مضامین کے پروں سے پرواز کرتے ہیں۔ کچھ ادیب زود نویس ہوتے ہیں اور ادبی معیار کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بہت کچھ تخلیق کرتے ہیں۔ افسانے اور تنقید و تحقیق میں شہرت رکھنے والے ایسے ہی زود نویس ادیبوں میں ایک معتبر اور معزز نام ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی 3 مارچ 1960ء کو محلہ سروال، گاؤں بہوتہ، علاقہ مرمت تحصیل و ضلع ڈوڈہ جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔ (ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات "خارستان کا مسافر" میں لکھا ہے کہ میری اصل تاریخ پیدائش بقول میری والدہ مرحومہ کے 3 مارچ 1963 ء ہے لیکن اسکول ریکارڈ میں غلطی سے 3 مارچ 1960ء لکھی گئی ہے)۔ والد کا نام محمد اسد اللہ وانی اور والدہ کا مہتاب بیگم تھا۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا کچھ زمانہ ضلع ڈوڈہ میں گزرا۔ اس کے بعد وہ ضلع ادھم پور کی تحصیل چنہنی میں چلے آئے۔ ڈاکٹر صاحب مارچ 1987 ء کو محکمہ اسکول ایجوکیشن میں مدرس کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ علمی و ادبی ذوق نے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور اپنے محکمے سے اجازت نامہ لے کر جموں یونی ورسٹی میں ” تقسیم کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران" کے موضوع پر کام کیا اور انھیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری تفویض ہوئی۔2012 ء میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی ( یوپی) سے ” اردو ادب میں تانیثیت " کے موضوع پر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 2 جنوری 2017 ء میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی میں بحیثیت اسٹینٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔

بعص ادیبوں کا فطری میلان کسی ایک صنف کی طرف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا بھی فطری میلان افسانہ کی طرف ہے۔ ایک عرصے سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ پہلا افسانہ 1989ء میں "تڑپتے پنچھی" کے عنوان سے ماہنامہ بھیانک جرائم نئی دہلی میں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں میں معاشرے کے مسائل، اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت، رشتوں کی ناقدری، ماں باپ سے دوری، انسانی دکھ درد کی عکاسی، افراتفری جیسے موضوعات نہایت دل فریب اسلوب میں بیان ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو زندگی کی محرمیوں اور ناکامیوں سے الگ نہیں کیا بلکہ باہم شیر و شکر کرتے ہوئے انسانی دکھ درد کی عکاسی کی جس کے سبب ان کی کہانیاں موثر اور "روداد جہاں" معلوم ہوتی ہیں۔ چونکہ ناقد بھی ہیں اور فن سے واقفیت رکھتے ہیں اس لیے اپنے افسانوں میں فنی لوازم کو قائم رکھتے ہیں۔ کسی بھی موضوع کو مکمل بیان کرنے کی قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہجرت کے موضوع پر اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں نے بہت سارے افسانے لکھے ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے "جنم بھومی کے آنسو" عنوان سے ایک افسانہ قلم بند کیا ہے جو اس موضوع پر کامیاب افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ گہرا ہے اور موضوع کی تہہ تک پہنچ کر دل کش اسلوب میں تمام تر جزئیات کو افسانے کے قالب میں ڈال دیتے ہیں۔ ممتاز نقاد گوپی چند نارنگ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"ان کی ( ڈاکٹر مشتاق احمد وانی) انگلیاں معاشرے کی نبض پر ہیں اور ان کی کہانیاں آج کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں، بالخصوص اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت، انسانی رشتوں کا بکھرنا، بزرگوں اور ان کی اولادوں کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ، خود غرضی، لالچ اور کاروباری ذہینت کے فروغ نیز سماجی سطح پر لڑکیوں کی ناقدری اور ان کے جذبات کے تئیں عزیزوں، رشتہ دادوں کی بے حسی۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی سماج کے فاسد مادے کے معالج ہیں اور ان کی کہانیاں ترسیل، تاثیر اور دردمندی کے اعتبار سے توجہ چاہتی ہیں"۔
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا پہلا افسانوی مجموعہ "ہزاروں غم" کے عنوان سے 2001 ء میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ افسانوی مجموعوں میں اندر کی باتیں (2015)ء، قبر میں زندہ آدمی (2019)ء اور کیا حال ہے جاناں (2019)ء منظر عام پر آچکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے مشہور و معروف افسانوں میں دل و دماغ میں گھومتی کیل، دوہری مار، پنجرے میں مورتی، میٹھا زہر، درد بھری راتیں، تنہا پرندہ، بیٹی، افراتفری میں پھنسا آدمی، اندرکی باتیں، جسم خور کیڑا، باغی، چھپاسانپ، قبر میں زندہ آدمی، معاوضہ، سب کی ماں، مجھے ایک دن گھر جانا ہے، عورت، واپسی، کیاحال ہے جاناں، غشی، ڈراونی آوازیں، میں ہوشیارپوری ہوں، آثار قیامت جیسے افسانے قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق وانی نے نہ صرف سنجیدگی سے افسانے لکھے ہیں بلکہ تنقید کے میدان میں بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ تنقید و تحقیق کے حوالے سے ان کی کتابوں میں تقسیم کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران (2002)ء، آئینہ در آئینہ ( 2004)ء، اعتبار و معیار (2011)ء، اردو ادب میں تانیثیت( 2013)ء، شعور بصیرت ( 2014)ء، افہام و تفہیم زبان و ادب (2018)ء، تناظر و تفکر ( 2019)ء، نئی تنقیدی معنویت (2020) ء، زبان و بیان ( 2021) ء، کہکشاں خیال (2021)ء، اور تنقیدی فکر وفن (2021) منظر عام پر آچکی ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کو 2010ء میں بہترین افسانہ نگار انعام افسانہ کلب ملیر کوٹلہ پنجاب کی جانب سے ملا۔ وقار ادب انعام 2014 ء میں اردو ساہتیہ اکادمی ممبئی مالیگاؤں مہاراشٹر نے دیا۔2016 ء میں ڈاکٹر صاحب کو اردو ادب کی خدمت کے صلے میں گلوبل ایچیور انعام سے ممبی میں نوازا گیا۔ کرشن چندر انعام 2018 اور ممتاز محقق ایوارڈ بھی 2018 ء میں ملا۔ اس کے علاوہ "اعتبار و معیار" نامی کتاب پر اردو اکادمی لکھنو نے 5000 روپے کے انعام سے نوازا۔ شعور بصیرت نامی کتاب پر 10000 روپے نقد انعام اردو اکادمی بہار نے دیا۔ افہام و تفہیم نامی کتاب پر اترپردیش اکادمی نے 10000 کے انعام سے نوازا۔ ڈاکٹر صاحب کی حیات و ادبی خدمات پر تحقیقی و تنقیدی کام بھی ہوا ہے۔محمد حسین وانی ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کے پہلے ناقد ہیں۔ انھوں نے اندور یونی ورسٹی سے دسمبر 2018 ء میں "مشتاق احمد وانی: حیات اور ادبی خدمات" کے موضوع پر تحقیقی و تنقیدی مقالہ مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی کہانیاں ابتدا میں گلابی کرن، بھیانک جرائم اور بیسوی صدی جیسے رسالوں میں چھپتی تھیں۔ کشمیر کے معتبر اخبارات و رسائل کے علاوہ ان کی تخلیقات شاعر(بمبٸ )، سب رس(حیدرآباد)، تحریک ادب(بنارس)، شاندار(اعظم گڑھ)، اصنام شکن(وشاکھاپٹنم)، جہان اردو(بہار)، رنگ(جھارکھنڈ) وغیرہ میں اہتمام سے چھپتی ہیں۔
جموں و کشمیر کے جن افسانوں نگاروں کو اردو کی بستیاں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ان میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی بھی شامل ہیں۔ اپنے احساسات، جذبات، مشاہدات اور معاشرے کے مختلف رویوں کو تخلیقی صلاحیت اور تخیل سے افسانے کے قالب میں ڈالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لگاتار لکھ رہے ہیں اور کشمیر کے دبستان ادب میں ان کے افسانوں سے قابل قدر اضافہ ہوا ہے.
***
ایس معشوق احمد کا پچھلا کالم یہاں پڑھیں :شخصیت : نور شاہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے