خود اپنے کو ہم در بدر دیکھتے ہیں

خود اپنے کو ہم در بدر دیکھتے ہیں

عامر لکھنوی

خود اپنے کو ہم در بدر دیکھتے ہیں
نہیں دیکھنا تھا مگر دیکھتے ہیں

نظر ایک جانب ٹھہرتی نہیں ہے
بتائیں کہاں کب کدھر دیکھتے ہیں

ابھی گھر کے حالات سے سامنا ہے
یہ کیسے کہیں ہم سفر دیکھتے ہیں

یہ وعدہ تھا ہم سے تم آؤگی ملنے
شب و روز ہم رہ گزر دیکھتے ہیں

ہمیں جو سکھایا ہے رہبر نے عامر
سخن کا وہ خود میں ہنر دیکھتے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے