معروف افسانہ نگار ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں پر لاہور یونیورسٹی میں تحقیق

معروف افسانہ نگار ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں پر لاہور یونیورسٹی میں تحقیق

رام پور کی مردم خیز سرزمین سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے معروف افسانہ نگار ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں پر ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے حال ہی میں لاہور کالج برائے خواتین، یونیورسٹی آف لاہور، پاکستان میں ایک تحقیق ہوئی ہے۔ یہ تحقیق معروف قلم کار پروفیسر سعدیہ بشیر صاحبہ کی نگرانی میں جویریہ امجد کے ذریعہ کی گئی ہے جس کی ضخامت تقریباً  ٢٥٠ صفحات ہے اور یہ جلد ہی شائع ہو کر منظر عام پر بھی آنے والی ہے۔ ایم.فل کے لیے لکھے جانے والے اس تحقیقی مقالے کا عنوان ’ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں بحیثیت نثرنگار(افسانہ نگاری اور ادب اطفال کے حوالے سے)‘ ہے۔
اس حوالے سے ’روزنامہ خبریں‘ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کا کہنا تھا کہ مردہ پرستی کے اس مجہول دور میں کسی شخص پر اس کی حیات ہی میں تحقیقی کام کیا جانا خوش آئند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکرہ تحقیق خود ان کے لیے بھی استفادے کا باعث ہوگی جس سے انھیں یہ اندازہ کرنے میں بہرحال آسانی ہوگی کہ محققین اور ناقدین ان کے کام کو کس نظر سے اور کس پیرائے میں دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کو ملک بھر کے علمی اور ادبی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کا علمی، تحقیقی اور ادبی ذخیرہ ہزاروں صفحات پر محیط ہے۔ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی ادبی شناخت یوں تو بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار کی ہے لیکن انھوں نے نثر کی بیش تر اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں میں اگر قاری کو اپنا بچپن ہنستا، کھلکھلاتا اور گاتا دکھائی دیتا ہے تو افسانوں کے ذریعہ زوال پذیر سماجی اور اخلاقی قدروں کے تئیں ان کی گہری تشویش قاری کے ذہن و دل دونوں پر گہری چوٹ کرتی ہے۔ ان کا معرکۃ الآرا افسانہ ’ٹھنڈا خون‘ ہے جو اتفاق سے ان کے افسانوی مجموعہ کا نام بھی ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے ان کے ۳۳ افسانے نشر ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک کہانی بہار کی ایک نصابی کتاب میں بھی شامل ہے۔ انھیں مختلف ادبی اکادمیوں اور انجمنوں کے ذریعہ متعدد ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی طرز نگارش شستہ و شائستہ اور لفظی و معنوی خمیدگیوں اور پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ وہ الفاظ کے پیروں میں گھنگھرو باندھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کو اشاریہ سازی میں مہارت اور درک حاصل ہے۔ انھوں نے اترپردیش کے شعرا کا اشاریہ بنام’اشاریہ تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ ترتیب دیا جو ١٧٠٤ شاعروں کے اشاریہ پر مشتمل ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’تذکروں کا اشاریہ‘ہے اس میں تین ہزار قلم کاروں کا اشاریہ ہے۔ اسی طرح ماہنامہ نیا دور لکھنؤ کا اشاریہ ترتیب دے کرانھوں نے اشاریہ سازی کے میدان میں اپنی ایک مخصوص پہچان بنا لی ہے۔ کتاب و قلم سے وابستہ حضرات بہ خوبی جانتے ہیں کہ تحقیقی کاموں میں مصروف افراد یا اسکالرز کے لیے اشاریوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں اس فن میں درجۂ کمال پر فائز ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی پیدائش ٢٨/جون ١٩٦١ کو رام پور میں ہوئی۔
انھوں نے حامد انٹر کالج رام پور سے ١٩٧٥ میں ہائی اسکول اور ١٩٧٧ میں انٹر میڈیٹ پاس کیا۔ ٢٠٠٤ میں تقریباً ١٧٠٠ صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ لکھ کر انھوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران ہی کر دیا تھا جب ان کی کہانی ’فرض اور مامتا‘ ١٩٧٥ میں رام پور کے ماہنامہ ’نور‘ میں شائع ہوئی۔ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں نے اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب تک ان کی سولہ کتابیں علمی، ادبی اور تحقیقی تصنیفات وتالیفات زیور طبع سے آراستہ ہو کر حلقہ ہائے علم و ادب اور فن ونقد سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ رام پور میں ادب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔
***

بحوالہ: رامپور(نامہ نگار،روزنامہ خبریں)

ڈاکٹر اطہر مسعود خاں کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: مقدمہ کتاب: ’لفظوں کے آسمان‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے