مقدمہ کتاب: ’لفظوں کے آسمان‘

مقدمہ کتاب: ’لفظوں کے آسمان‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ کتاب: ’لفظوں کے آسمان‘ (مصنف:فہیم بسمل، شاہجہاں پور)

ڈاکٹر محمد اطہرمسعودخاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور،یو.پی،انڈیا
موبائل نمبر:9520576079
ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ بزرگی علم سے ہوتی ہے نہ کہ طویل عمر سے۔ ہماری زندگی میں بہت سی باتیں اور چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ سچ ثابت ہوتی ہیں یا ہم ان تجربات سے گزرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے جو کچھ سنا تھا یا برسوں پہلے دیکھا تھا، وہ درست اور ٹھیک تھا۔
رضا لائبریری میں بارہ تیرہ سال پہلے ہماری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جو ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی صاحب سے ملنے آئے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کا نام فہیم بسمل ہے اور وہ شاہ جہاں پور سے آئے ہیں۔ میرے ساتھ غریب خانے پر تشریف لائے تو تفصیلی گفتگو ہوئی۔ خوش گفتار، خوش اطوار، باسلیقہ، مہذب گفتگو، اردو ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ، ذہین و فطین اور ملنسار و ہمدرد۔ وہ تو ملاقات کے بعد اپنے وطن چلے گئے مگر اپنی نستعلیق و شائستہ اور خوب صورت شخصیت کا عکس میرے دل پر چھوڑ گئے۔ اس وقت موبائل کا اتنا چلن نہیں تھا اور ہو بھی تو ہمارے پاس کوئی موبائل نہیں تھا۔ اس لیے فہیم بسمل سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔
فہیم بسمل کے سلسلہ میں دو باتوں کا مجھے سو فی صد اتفاق ہے کہ بڑے کاموں یا کارناموں کے لیے طویل عمر کا ہونا کوئی ضروری نہیں یا کوئی شرط نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ صلاحیتیں موجود ہوں تو کوئی بھی کم عمری میں ہی اچھے اور بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے اور فہیم بسمل نے یہی سب کر دکھایا ہے۔دوسری بات یہ کہ نام کا اتنا اچھا اثر کم ہی لوگوں کی شخصیت میں نظر آتا ہے جتنا فہیم بسمل کے نام میں۔البتہ اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ فہیم کے ساتھ ’بسمل‘ کب ہوئے اور کس کی وجہ سے۔ ممکن ہے پہلے بسمل یا گھائل ہوئے ہوں اور بعد میں شاعر یا یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے جب شاعری شروع کی ہو تو تخلص کی ضرورت کے پیش نظر انھوں نے ایک اچھا اور خوب صورت تخلص’بسمل‘ اختیار کیا ہو۔
ہم نے ہائی اسکول میں انگریزی کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ سماج میں چار طرح کے لوگ یا قلم کار ہوتے ہیں۔ایک وہ جو اچھا لکھتے ہیں لیکن بولنا یا تقریر کرنا نہیں جانتے۔ دوسرے وہ، جو اچھا بول تو لیتے ہیں لیکن ان کے اندر لکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ تیسرے وہ ہوتے ہیں جو اچھا برا لکھنا نہیں جانتے اور نہ بولنا جانتے ہیں اور چوتھے وہ جو اچھا لکھتے بھی ہیں اور اچھا بولتے بھی ہیں۔ فہیم بسمل کا تعلق اسی چوتھے گروہ سے ہے۔ وہ اچھا لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں اور اسٹیج پر آجائیں تو اس کی بھی شان بڑھا دیتے ہیں۔ یوں تو قلم کاروں کی بھی بہت سی خصوصیات یا کیٹاگری ہوتی ہیں لیکن ان میں بھی دو اہم ہیں. ایک تو یہ کہ کوئی قلم کار یا تو صرف نثر نگار ہوتا ہے یا پھر شاعر ہوتا ہے اور نثر کی طرح شاعری میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا ہے۔ دوسری قسم ان قلم کاروں کی ہوتی ہے جو نظم ونثر دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں اور یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہوگا کہ فہیم بسمل اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
خود میں نے تحقیق میں بھی اور تخلیق میں بھی ہزاروں صفحات لکھے ہیں جن میں مختلف اصناف شامل ہیں. اس کے علاوہ متعدد شعرا پر بھی طویل ترین مضامین اور مقالے لکھے ہیں لیکن آج تک کوئی شعر نہیں کہا، نہ لاشعوری طور پر کوئی شعر موزوں ہو سکا اور سچی بات یہ کہ شعوری طور پر بھی کبھی کوشش نہیں کی۔ فہیم بسمل بھی نثر و نظم دونوں میں مختلف اصناف کے تحت لکھتے ہیں۔ ان کے حمد و نعت اور منقبت کے مجموعے اس بات کے ضامن اور گواہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت رکھتے ہیں. کیونکہ حمد و نعت اور منقبت تو تبھی لکھی جا سکتی ہیں جب شاعر کی سوچ و فکر میں اسلامیات بھی شامل ہو۔ وہ دینی ماحول کے پروردہ اور اسلامی خیالات کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن بہت دکھ کے ساتھ یہ تذکرہ کرنا بے محل نہ ہوگا کہ چند برس قبل ان کے چھوٹے بھائی کا ایک حادثہ میں انتقال ہو گیا تھا جو حافظ قرآن تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے، آمین!
فہیم بسمل ادب کے میدان میں jack in all کی حیثیت رکھتے ہیں. یعنی وہ ادب کی ہر صنف میں لکھتے اور لکھ سکتے ہیں۔ ان کی تصنیف و تالیف شدہ کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان کے ادبی کارناموں کو اجاگر کرتی ہے۔ انھیں صحافت کا بھی خاصا تجربہ ہے۔ سہ ماہی رسالہ ’کاوش‘ ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کی گواہی دیتا ہے۔ وہ رسالہ کے لیے جس خوش اسلوبی سے تخلیقات کا انتخاب کرتے ہیں اور اس میں تنوع بھی برقرار رکھتے ہیں، وہ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا غماز ہے. پھر وہ اپنے رسالہ کو کسی ایک نظریہ کا حامل نہیں بناتے اور نہ اپنی بات یا اپنے خیالات کو منوانے کے لیے مصر رہتے ہیں۔ اپنے رسالہ میں حمد ونعت کو بھی جگہ دینا بلکہ ترجیح دینا ان کی نیک نیتی اور خدا پرستی کی گواہی دیتا ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت میں اس لیے سمجھتا ہوں کہ میرا بھی بچپن سے اب تک سکیڑوں رسائل اور ان کے مدیران سے رابطہ اور واسطہ رہا ہے اور وہ اپنے رسالوں میں حمد ونعت کو شائع کرنا گویا شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگانا سمجھتے ہیں۔ دوسرے مختلف رسائل کا اشاریہ بنانے کی وجہ سے بھی مجھے اس کا تجربہ اور ادراک ہوا ہے۔
’لفظوں کے آسمان‘ فہیم بسمل کے ٢٧ مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین مرحومین قلم کاروں پر بھی ہیں اور موجودہ ادیبوں پر بھی۔ ان میں شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی۔ صحافی بھی ہیں اور افسانہ و ناول نگار اور مزاح نگار بھی۔ اس طرح انھوں نے ادب کے چمن سے مختلف رنگا رنگ پھول چن کر ایک گلدستہ بنایا ہے اور اس کا نام جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں ’لفظوں کے آسمان‘ رکھا ہے۔ ان میں پہلا مضمون مصلح قوم سرسید احمد خاں سے متعلق ہے جو محض چار صفحات پر مشتمل ہے جب کہ اس کتاب کا آخری مضمون ہے ’عظمت شاہ آبادی: طنز و مزاح کے آئینے میں‘۔ یہ مضمون سات صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ اگرچہ ادب اور خاص کر اردو ادب کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں کی جاتی اور سبھی کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
اس لیے فہیم بسمل نے بھی اپنی کتاب کو اس پہلو سے تشنہ نہیں رکھا ہے اور انھوں نے اس کتاب میں اپنا ایک مضمون ڈاکٹر ودیا ساگر آنند سے متعلق بھی شامل کیا ہے۔ اب رہا خواتین کا گوشہ یعنی نصف آبادی کے تعلق سے پیش کش، تو اس ضمن میں بھی انھوں نے دو قلم کاروں کا انتخاب کیا ہے یعنی نصرت شمسی اور ڈاکٹر رباب انجم۔ یہ دونوں رام پور کی نمائندہ قلم کار ہیں۔نصرت شمسی کی اب تک چھ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر رباب انجم کا تحقیقی مقالہ جوش کی رباعی گوئی پر مشتمل چند برس قبل منظر عام پر آ چکا ہے اور مجھے یاد آتا ہے کہ اس کی رسم اجرا میں فہیم بسمل نے بھی شرکت کی تھی۔
ان سبھی مضامین کی طوالت کا ذکر کیا جائے تو ڈاکٹر معصوم شرقی اور ڈاکٹر فرید بلگرامی پر لکھے مضامین محض تین تین صفحات پر مشتمل ہیں۔ سب سے طویل مضمون ڈاکٹر طاہر رزاقی پر لکھا گیا ہے جس کے صفحات کی تعداد ١٩ ہے۔ پروفیسر قمر رئیس اور فراق گورکھ پوری پر مضامین بالترتیب ١٣ اور ١٣ صفحات کے ہیں۔ مسودہ میں یہ سارے مضامین صفحہ نمبر ۸ سے ١٩٩ تک ہیں یعنی ان کے کل ۱۹۱صفحات ہوتے ہیں اور ان کو اگر ٢٧ سے تقسیم کیا جائے تو ہر مضمون اوسطاً ساڑھے سات صفحات پر مشتمل ہے۔ تحقیق کے پہلو سے ایک بات اور بھی لکھ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کتاب میں جن ٢٧ قلم کاروں پر مضامین لکھے گئے ہیں ان میں سے ۷ کا تعلق شاہ جہاں پور سے ہے جن کے نام ہیں: پروفیسر قمر رئیس، دل شاہ جہاں پوری، پیارے میاں رشید، سید احمد سحر، شاغل وجدانی، اصغر یاسر اور عتیق صبا۔ ان حضرات میں سے کئی نے عالمی شہرت بھی پائی لیکن انھوں نے خود اپنے وطن کے قلم کاروں کی کیسی اور کتنی ہمت افزائی کی اور اردو ادب کے حوالے سے انھوں نے شاہ جہاں پور کو کیا کچھ دیا یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے جس میں اختلاف اور اتفاق دونوں کی گنجائش موجود ہے۔
کتاب کا پہلا مضمون سرسید احمد خاں سے متعلق ہے جن کی شخصیت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خصوصاً اور عالم اسلام کے لیے عموماً کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سرسید کے کارہائے نمایاں سے کون ہے جو واقف نہیں! سرسید کی تحریک، ان کا تدبر، ان کا علم، مسلمانوں کے لیے غم خواری، ہندستان سے محبت، قومی یک جہتی کے عناصر، غرض کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے تو سرسید نے ہندستانیوں اور خاص کر مسلمانوں کے لیے تعلیم کے میدان میں جو کام کیے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ مولانا حالی، ڈپٹی نذیر احمد، علامہ شبلی نعمانی نے ان کے ساتھ رہ کر اور ان کے مشوروں سے جو علمی، ادبی خدمات انجام دیں ان کی ہی بدولت مسلمانوں کو عالمی افق پر جو مقام ملا اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ فہیم بسمل نے اپنے مضمون کی ابتدا تحقیقی نوعیت کے جملوں سے کی ہے اور اس میں سر سید کی تاریخ ولادت، ان کا حلیہ، ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت، ان کے اساتذہ، ان کی گھریلو اور خانگی زندگی، ان کی شادی اور اولاد امجاد کی بابت مختصراً تحریر کیا ہے۔ سرسید کی تحقیقی کتابوں، ان کے ادبی ذوق، صحافتی خدمات اور ان کی کتابوں کے نام مع تاریخ اشاعت کے درج کیے ہیں۔
سرسید احمد خاں انیسویں صدی کے ایک عظیم مصنف، محقق اور قوم کے مصلح اور مذہبی و قومی رہ نما تھے۔وہ انگریزی کی اس زمانے میں حمایت اور وکالت کرتے تھے جب اس زبان کو سیکھنا اور سکھانا کفر کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ سرسید ہی کی کوششوں سے ملک میں اور خاص کر مسلمانوں میں انگریزی کی طرف رجحان بڑھا اور اس کے اثرات آج تقریباً دو صدی بعد بھی بآسانی دیکھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ فہیم بسمل نے سر سید احمد خاں کی تقریباً سبھی کتابوں کا تذکرہ مختصراً لیکن تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔مذکورہ مضمون اگرچہ مختصر ہے لیکن فہیم بسمل نے گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
انھوں نے غیر ضروری الفاظ اور بے ضروری طوالت سے گریز کرتے ہوئے یہ مضمون نہایت جامع اور کم الفاظ میں تحریر کر کے گویا طالب علموں کو اس نکتہ سے روشناس کرایا ہے کہ مختصر لکھنا بجائے خود ایک فن ہے۔ فہیم بسمل کے بقول اپنے محسن اور قوم کے مصلح سر سید احمد خاں کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے اچھا، بہتر، کارگر اور مؤثر طریقہ یہی ہے کہ ہم سرسید احمد خاں کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھائیں اور تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ تعلیم اور علم و ادب کی روشنی سے ہمارا معاشرہ پاکیزہ سے پاکیزہ تر ہو جائے۔ اردو شاعری کے بنیادی ستونوں اور اہم شاعروں میں سے کون ہے جس نے فراق گورکھ پوری کا نام نہ پڑھا، یا نہ سنا ہو۔ فہیم بسمل نے فراق گورکھ پوری کے چند اشعار نوٹ کیے ہیں جیسے:
حیات بے محبت سربہ سر موت محبت زندگی کا دوسرا نام ہے
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
مذکورہ بالا اشعار کی طرح سیکڑوں اشعار ایسے ہیں جو زبان زد خاص وعام ہیں اور کچھ تو ضرب المثل کے مقام کو پہنچ گئے ہیں اور سہل ممتنع کی بھی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔ فہیم بسمل نے فراق پر لکھے اپنے مضمون کی ابتدا میں ان کی پیدائش، ان کے ادبی سفر کی ابتدا، ان کے والد اور اساتذہ کا ذکر کیا ہے اور ان کے مشہور شعری مجموعوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ فراق کا مطالعہ خاصا وسیع اور وقیع تھا اور کئی زبانوں کے کلاسیکی ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ فراق بنیادی طور پر تو غزل کے ہی شاعر تھے لیکن ان کی رباعیات کا مجموعہ ’روپ‘ بھی خاصا مشہور ہوا تھا۔فہیم بسمل کے بقول فراق گورکھ پوری نے ایسے اچھوتے موضوعات پر بھی اشعار کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا احساس اور بیان اور حسن و جمال اردو غزل کے لیے اچھوتا اور بالکل نیا تھا۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ فراق کی شاعری میں جو صوتی حسن اور موسیقیت ملتی ہے اس کی مثال اردو شاعری میں اتنے بھرپور انداز میں اور کہیں نہیں ملتی۔ چھوٹی بحروں میں ان کے متعدد اشعار ان کے خیالات و جذبات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں، مثال کے طور پر یہ اشعار:
اس دور میں زندگی بشر کی بیمار کی رات ہو گئی ہے
چپ ہو گئے تیرے رونے والے دنیا کا خیال آ گیا ہے
کس کو روتا ہے عمر بھر کوئی آدمی جلد بھول جاتا ہےحیات بے محبت سربہ سر موت
محبت زندگی کا دوسرا نام ہے
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
مذکورہ بالا اشعار کی طرح سیکڑوں اشعار ایسے ہیں جو زبان زد خاص وعام ہیں اور کچھ تو ضرب المثل کے مقام کو پہنچ گئے ہیں اور سہل ممتنع کی بھی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔ فہیم بسمل نے فراق پر لکھے اپنے مضمون کی ابتدا میں ان کی پیدائش، ان کے ادبی سفر کی ابتدا، ان کے والد اور اساتذہ کا ذکر کیا ہے اور ان کے مشہور شعری مجموعوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ فراق کا مطالعہ خاصا وسیع اور وقیع تھا اور کئی زبانوں کے کلاسیکی ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ فراق بنیادی طور پر تو غزل کے ہی شاعر تھے لیکن ان کی رباعیات کا مجموعہ ’روپ‘ بھی خاصا مشہور ہوا تھا۔فہیم بسمل کے بقول فراق گورکھ پوری نے ایسے اچھوتے موضوعات پر بھی اشعار کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا احساس اور بیان اور حسن و جمال اردو غزل کے لیے اچھوتا اور بالکل نیا تھا۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ فراق کی شاعری میں جو صوتی حسن اور موسیقیت ملتی ہے اس کی مثال اردو شاعری میں اتنے بھرپور انداز میں اور کہیں نہیں ملتی۔ چھوٹی بحروں میں ان کے متعدد اشعار ان کے خیالات و جذبات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں، مثال کے طور پر یہ اشعار:
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
چپ ہو گئے تیرے رونے والے
دنیا کا خیال آ گیا ہے
کس کو روتا ہے عمر بھر کوئی
آدمی جلد بھول جاتا ہے
فہیم بسمل نے فراق کی غزل کا بالتفصیل مطالعہ کیا ہے اور خوبصورت اور عالمانہ انداز میں اور بصیرت افروز الفاظ میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس سے فہیم بسمل کی ادبی اور تخلیقی صلاحیت بھی بہ خوبی اجاگر ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”فراق اردو غزل کے پاسدار و امین اور غزل کے شیدا وپرستار تھے۔ ان کی غزل میں غزل کا تمام تر جلال و جمال نظر آتا ہے۔ ان کے کلام میں عصری آگہی بھی ہے اور شعریت اور حسن وجمال بھی……زندگی کے عصری مسائل ان کی غزلوں میں اس طرح سموئے ہوئے ہیں کہ غزل کی نزاکت کو ذرا بھی ٹھیس نہیں لگتی۔“
فہیم بسمل نے فراق کی رباعیات پر بھی خوب صورت انداز میں روشنی ڈالی ہے اور ان کی چند دل کش رباعیاں بھی پیش کی ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ فراق کی رباعیات میں صوتی اور جمالیاتی حسن منفرد انداز میں نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں جن شعرا پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے ان میں مرزا غالب، علامہ اقبال، میر انیس، نظیر اکبر آبادی، میر تقی میر اور جوش ملیح آبادی کے ساتھ فراق گورکھ پوری کا نام بھی شامل ہے۔ ماہنامہ نیا دور لکھنؤ نے بھی غالب کے بعد سب سے زیادہ مضامین فراق گورکھ پوری پر ہی شائع کیے ہیں جن کی تعداد تقریباً دو سو ہے۔
میں نے چونکہ نیا دور کا ١٩٥٥ سے ٢٠١٩ء تک کا اشاریہ (مع ضروری وضاحت) مرتب کیا ہے اس لیے علم ہے کہ نیا دور نے اپنی ادبی اور صحافتی تاریخ میں تقریباً ڈیڑھ سو خاص نمبر اور خصوصی گوشے شائع کیے لیکن ان میں غالب پر دو (فروری،مارچ ١٩٦٩ اور دسمبر١٩٩٩ء) جاں نثار اختر پر دو (فروری ٢٠١٦ اور اپریل،مئی ٢٠١٦ ء) اور فراق گورکھ پوری پر بھی دو خاص اور ضخیم نمبر شائع کیے۔ ایک ’فراق نمبر اول‘ مارچ-مئی ١٩٨٣ میں امیر احمد صدیقی کی ادارت میں ٢٥٦ صفحات پر مشتمل اور دوسرا ’فراق نمبر دوم‘ مئی-جولائی ١٩٨٤ میں امیر احمد صدیقی کی ہی ادارت میں ٢٢٨ صفحات پر مشتمل۔
یہی نہیں فراق کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نیا دور نے ان دونوں خاص نمبروں میں شامل سبھی مضامین کو الگ سے دیدہ زیب طریقہ سے ایک کتابی شکل میں بھی شائع کیا اور یہ اعزاز صرف اور صرف نیا دور اور فراق گورکھ پوری کو ہی حاصل ہے۔
فہیم بسمل نے فراق کی نظم گوئی پر بھی اچھے انداز میں اظہار رائے کیا ہے اور ان کی وطن پرستی کی داد دیتے ہوئے ان کی ایک نظم ’مادر ہند‘ کو خراج عقیدت کے تعلق سے دو بند بھی پیش کیے ہیں۔ فراق نے اپنی نظموں میں کیسی اور کون سی تکنیک استعمال کی اس بابت بھی فہیم بسمل نے روشنی ڈالی ہے۔ فراق کی نظر صرف ہندستانی سیاست پر ہی نہیں تھی بلکہ وہ عالمی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔
فہیم بسمل نے فراق کی عشقیہ، حزنیہ اور المیاتی شاعری کا الگ الگ انداز میں جائزہ لیا ہے، اپنی رائے بھی پیش کی ہے اور ان کی شاعری کے نمونے بھی قارئین کی نذر کیے ہیں۔ فراق محبوب کے اعضائے جسمانی کا جس طرح بیان کرتے ہیں اور ایک ایک عضو کی خوب صورتی کا جس دل کش اسلوب میں بیان کرتے ہیں اس کو پڑھ کر محبوب کا سراپا گویا تصوراتی سے حقیقی روپ اختیار کر لیتاہے۔ اس تعلق سے فراق کی نظم ’پرچھائیاں‘ کے اشعار فہیم بسمل نے پیش کیے ہیں۔ اس نظم سے نہ صرف فراق کے جمالیاتی شعور کا ادراک ہوتا ہے بلکہ انھوں نے جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے وہ بھی بہترین ہے اور قاری کوبے حد متاثر کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ فراق جیسی عہد ساز شخصیت پر فہیم بسمل کا مضمون نہ صرف یہ کہ نہایت معلوماتی ہے بلکہ خود فہیم بسمل کے ادبی ذوق اور تخلیقی جوہر کی عکاسی کرتا ہے۔انھوں نے اپنے مضمون کا اختتام فراق کے اس مشہور زمانہ شعر پر کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے ہم عصرو! آنے والی نسلیں تم پر رشک کریں گی جب تم کو خیال آئے گا کہ کبھی تم نے فراق کو دیکھا تھا۔
اس کتاب کا تیسرا مضمون آبروئے غزل اور کلاسیکی ادب کے مشہور و معروف شاعر خمار بارہ بنکوی سے متعلق ہے۔ خمار کی شاعری کے رنگ و آہنگ، ان کے موضوعات، الفاظ کی دروبست، سہل ممتنع، جذبات کی ہماہمی، مناظر کی دلآویزی، انسانی جذبات کی عکاسی، غزل کا مزاج، روایتی اور کلاسیکل غزلوں کی خوبیاں، شاعر کی تخیل آفرینی، خمار کی انفرادی شان، ان کا لب ولہجہ، ان کی غزلوں میں احساس و شعور وغیرہ کے حوالے سے فہیم بسمل نے اپنے مضمون کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے اور خمار کے کئی، مشہور زمانہ اشعار بطور نمونہ کلام پیش کیے ہیں۔ خمار کی غزلوں میں مضامین کی ندرت اور رنگارنگی موجود ہے۔ عشق ومحبت ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔ محبوب کی یاد، اس سے بچھڑنے کا غم، اس کا حسن وغیرہ سب کچھ اشعار کے پیکر میں نظر آتا ہے۔
ان کے یہاں رومان پرور مضامین ہی نہیں ملتے بلکہ زندگی کے گوناگوں پہلوؤں اور مسائل اور دکھ اور غم اور آنسو غرض ہر پہلو کی عکاسی ملتی ہے۔ خمار
کی غزلوں اور ان کے موضوعات میں بھی کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ وہ پیچیدہ مضامین کو بھی نہایت سادگی اور روانی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ خمار کے کئی اشعار سہل ممتنع کا دل کش نمونہ پیش کرتے ہیں۔ فہیم بسمل نے خمار کی شاعری کی متعدد خوبیاں بیان کی ہیں اور مضمون کے آخری پیراگراف میں ان کی سوانح کے تعلق سے بھی چند جملے تحریر کیے ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش، ولدیت، اساتذہ کے حوالوں کے ساتھ دل نشیں اسلوب میں اس مضمون کی تکمیل کی ہے۔
اس کتاب کا چوتھا مضمون پروفیسر قمر رئیس سے متعلق ہے۔ فہیم بسمل کو مضمون نگاری کے ساتھ تذکرہ نگاری سے بھی خاص شوق اور شغف ہے اور وہ اس صنف ادب کے فن اور آداب سے بہ خوبی واقف ہیں۔انھوں نے پروفیسر قمر رئیس پر لکھے مضمون میں انہی آداب و اصولوں کو مد نظر رکھا ہے۔ انھوں نے مضمون کے شروع میں قمر رئیس کے ابتدائی حالات، ان کے بزرگوں کے آثار و احوال، تعلیم و تربیت، اعلا تعلیم کا حصول تاریخ وار ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں اردو افسانے کے شہنشاہ پریم چند کی ناول نگاری پر پی ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی ان کا موضوع تھا ’پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار‘۔ پروفیسر قمر رئیس نے پریم چند پر پی ایچ.ڈی کر کے اپنے قلم کو رکھ نہیں دیا بلکہ ان کی شخصیت، ان کے کارناموں اور ان کی ناول و افسانہ نگاری پر متعدد مضامین و مقالات لکھے۔
یہاں میں اپنے ذاتی تاثرات بھی پیش کرنا چاہوں گا کہ جدیدیت، مابعد جدیدیت اور تجریدیت کے مارے اور اس کے بہت سے پرستاروں بلکہ شدت پسندوں کی روایتی افسانے سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے پریم چند کو محض روایتی افسانہ نگار سمجھ کر ان کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اپنی زندگی میں ان کا کوئی افسانہ ہی نہیں پڑھا. جب کہ حال یہ ہے کہ پریم چند کے افسانے آج بھی اپنے موضوع، مواد، کردار، زبان وبیان، اسالیب اور خاص کر وحدت تاثر اور انسانیت کو ایک درس کے باعث آج بھی مقبول و معروف ہیں۔ ادب میں پریم چند ہی وہ واحد اور اکیلے افسانہ نگار ہیں جن سے اردو اور ہندی والے یکساں محبت کرتے ہیں۔ اردو فکشن میں منٹو، کرشن چندر اور عصمت چغتائی سے کہیں زیادہ ایم.فل اور پی ایچ.ڈی کی ڈگریاں صرف پریم چند پر حاصل کی گئی ہیں۔ ہندی میں پریم چند پر تحقیقی کاموں اور مقالات کی چار سو سے زیادہ موضوعات کی فہرست خود میری نظر سے گزری ہے۔ اس لیے شاید یہ سب کچھ لکھنے میں، میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہوں۔
بہرحال فہیم بسمل نے اس مضمون میں قمر رئیس کے ساتھ شاہ جہاں پور کے ادبی ماحول کا بھی تذکرہ کیا ہے اور یہاں کے قلم کاروں نے شعر و ادب اور خاص کر تذکرہ نگاری میں جو خدمات انجام دیں ان کا بھی سیر حاصل تذکرہ کیا ہے۔ کچھ شاعروں کے نام اور تذکروں و شعری مجموعوں کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔ پروفیسر قمر رئیس نے بہت کم عمری میں ادبی میدان میں قدم رکھا. فہیم بسمل نے اس بابت بھی تفصیل سے لکھا ہے کہ ان کے پہلے استاد کون تھے اور ابتدا میں پروفیسر قمر رئیس کی تخلیقات کہاں کہاں شائع ہوئیں۔ فہیم بسمل نے اس مضمون میں قمر رئیس کے شعری مجموعے ’شام نوروز‘ سے متعلق قمر رئیس کی تحریر سے ایک اقتباس بھی نوٹ کیا ہے اور اسی مجموعے سے ان کی غزلوں کے چند اشعار بھی بطور نمونہ پیش کیے ہیں تاکہ ان کی شاعری کا مزاج واضح طور پر سامنے آ سکے۔ فہیم بسمل نے یہ بھی لکھا ہے کہ پروفیسر قمر رئیس نے اگرچہ اپنی شاعری میں روایتی علامتوں کو بھی اپنایا لیکن ان کو نئے معنی و مفاہیم سے ہم آہنگ کر کے اپنی شاعری میں پیش کیا۔ پروفیسر قمر رئیس نے اگرچہ نظم ونثر دونوں میں لکھا لیکن فہیم بسمل نے اپنے مضمون میں زیادہ تر ان کی شاعری کے حوالے سے ہی گفتگو کی ہے۔ ترقی پسند قلم کاروں کی فہرست میں پروفیسر قمر رئیس ایک اہم مقام رکھتے تھے اور ان کی بہت سی تحریریں دبے کچلے لوگوں کے استحصال کی ترجمانی کرتی اور اسے پراثر انداز میں بیان کرتی ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے وطن یعنی شاہ جہاں پور کے قلم کاروں کی ہمت افزائی بھی کرتے تھے اور ان میں فہیم بسمل کا نام بھی شامل ہے لیکن کسی بڑے قلم کار کی ہمت افزائی اور اس کی تحریری سند بھی تبھی کام کرتی اور کارآمد ثابت ہوتی ہے جب نئے قلم کار کے اندر خود بھی کچھ کام کرنے کی صلاحیت موجود ہو یعنی بہ الفاظ دیگر میگنٹ بھی تبھی کام کرتی ہے جب لوہے کے ذرات میں خود بھی دوڑ کر میگنٹ تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ممکن ہے فہیم بسمل کو بھی پروفیسر قمر رئیس کی، ان کے بارے میں لکھی تحریر سے کچھ فائدہ ہوا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ فہیم بسمل کے اندر بے پناہ خوبیاں ہیں اور ان کا ادبی و تحقیقی ذوق و شوق ان کو ہر پل ادب کی خدمت کرنے پر راغب کرتا رہتا ہے اور ان کی یہ خصوصیت، میں ان سے پہلی ملاقات سے لے کر آج تک برابر دیکھتا رہا ہوں۔
ترقی پسند ادیب و شاعر ہونے کی حیثیت سے پروفیسر قمر رئیس کو روس کے شہر تاشقند میں سولہ سال بحیثیت مہمان پروفیسر ادبی اور تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ فہیم بسمل نے ان خدمات کے بارے میں بھی تفصیلات پیش کی ہیں۔ اس مضمون کے آخر میں فہیم بسمل نے پروفیسر قمر رئیس کی نظم ونثر کی سبھی کتابوں کی فہرست پیش کر کے اس مضمون کو زیادہ کار آمد اور مفید بنا دیا ہے جس سے ریسرچ اسکالرز اور محققین کو نئی روشنی اورنئی راہ ملے گی۔
آبروئے سخن اور اعتبار الملک ضمیر حسن خاں دل شاہ جہاں پوری سے کون اہل علم ہے جو واقف نہیں۔ فہیم بسمل نے بھی اپنے وطن کے اس سپوت کی شاعرانہ عظمت اور ان کے کارناموں کو فراموش نہ کر کے ان پر ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا ہے۔ اُس دور میں امیر مینائی رام پور دربار سے وابستہ تھے۔ دل شاہ جہاں پوری نے ١٨٩٨ء میں را م پور تشریف لا کر اور حضرت امیر مینائی کی خدمت میں حاضر ہو کر زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ فہیم بسمل لکھتے ہیں کہ اس موقع پر امیر مینائی نے جو الفاظ ادا کیے وہ حرف بہ حرف سچ اور صحیح ثابت ہوئے۔
امیر مینائی نے دل شاہ جہاں پوری سے فرمایا: ”ضمیر!تمھاری شوخی طبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیائے شاعری میں تمہارا مستقبل بہت نمایاں ہوگا۔“ فہیم بسمل نے دل شاہ جہاں پوری کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان کا سلسلۂ نسب قادریہ اور چشتیہ سلسلے کے بزرگ شاہ قاسم سلیمانی سے ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر اپنے بزرگوں کی بہت سی خوبیاں موجود تھیں۔ اردو ادب کے متعدد اہل علم نے اور عالمی شہرت یافتہ برصغیر کے ادیبوں اور شاعروں نے دل شاہ جہاں پوری کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
ان میں علامہ اقبال، ریاض خیرآبادی، جلیل مانک پوری، جوش ملیح آبادی، آرزو لکھنوی، فانی بدایونی، کلیم الدین احمد، آل احمد سرور، مالک رام، علامہ سیماب اکبر آبادی، مرزا یاس یگانہ چنگیزی، مجنوں گورکھ پوری، علامہ نیاز فتح پوری وغیرہ بہت سے مشہور و معروف نام شامل ہیں۔ فہیم بسمل موجودہ دور کے ایک اچھے شاعر، ادیب، تنقید نگار، تذکرہ نگار اور محقق تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے بھلے ہی ایم.فل اور پی ایچ.ڈی کی ڈگریاں حاصل نہیں کی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتیں آج کے کسی بھی پی ایچ.ڈی ہولڈر سے کہیں زیادہ ہیں۔ فہیم بسمل نے دل شاہ جہاں پوری کی شاعرانہ حیثیت کا موازنہ لکھنؤ اور دہلی اسکول کے تناظر میں بھی کیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دل شاہ جہاں پوری اگرچہ لکھنؤ اسکول سے وابستہ رہے لیکن ان کے کلام میں دہلی اسکول کی خوبیاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
فہیم بسمل نے دل شاہ جہاں پوری کے جو اشعار پیش کیے ہیں وہ صرف دل شاہ جہاں پوری کی عظمت کا ہی اعتراف نہیں کراتے بلکہ فہیم بسمل کے حسن انتخاب کی بھی داد دینی پڑتی ہے. کیونکہ انوں نے دل شاہ جہاں پوری کے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جو ان کی شاعری کے مزاج اور خوبیوں کو بہ خوبی اجاگر کرتے ہیں۔ اردو ادب نے ان کو متعدد اعلا خطابات سے نوازا، جیسے اعتبار الملک، حکیم الشعرا، لسان الدہر وغیرہ۔ اس مضمون کے آخر میں فہیم بسمل نے دل شاہ جہاں پوری کے ایک قادرالکلام شاگرد ثابت خیرآبادی کے دو تاریخی قطعات پیش کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی ہے جو انھوں نے اپنے استاد محترم کے انتقال پُرملال پر کہے تھے جن میں ایک قطعہ کے آخری مصرعہ سے ١٩٥٩ عیسوی اور دوسرے قطعہ کے آخری مصرعہ سے ١٣٧٩ ہجری کا مادّہ نکلتا ہے۔
پیارے میاں رشید شاہ جہاں پوری پر لکھا گیا مضمون بھی خاصا اہم ہے۔ اس میں شاہ جہاں پور کے کئی اہم شعرا کے ناموں کوپیش کرنے کے ساتھ ان کے مجموعہ ہائے کلام کی تعداد اور حسب ضرورت ان کے نام بھی لکھے ہیں۔ رشید شاہ جہاں پوری کے متعدد اشعار پیش کرتے ہوئے فہیم بسمل نے ان کے کلام کی خوبیوں اور فنی ریاضت کا تذکرہ کیا ہے۔ اس مضمون کے آخر میں بھی وفا شاہ جہاں پوری کے دو اشعار پیش کرکے اجازت چاہی ہے۔
کتاب ’لفظوں کے آسمان‘ میں ایک بات جو مجھے بہت اچھی لگی ہے وہ یہ کہ فہیم بسمل نے تحقیقی مضامین کو بھی تخلیقی نثر کے بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ انھوں نے کسی مضمون میں بھی فٹ نوٹ ڈال کر اپنی قابلیت کا سکہ نہیں جمایا ہے. جب کہ آج حال یہ ہے کہ بہت سے قلم کار فٹ نوٹ کے طور پر دوسرے قلم کاروں کی تحریر سے اپنے مضمون کا پیٹ بھرتے ہیں۔ مزید یہ کہ کئی قلم کار اپنے مضمون میں محض دس بیس سطریں ہی لکھتے ہیں اور باقی پورے مضمون کی خانہ پُری دوسروں کی تحریروں کے حوالوں اور شاعروں کے دسیوں اشعار سے کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کم سے کم میرے نزدیک غلط، معیوب اور قلم کار کی کم ہمتی اور کم علمی اوربدعقلی پر دلالت کرتا ہے۔
جیسا کہ ہم شروع میں لکھ چکے ہیں فہیم بسمل کو نظم و نثر دونوں کے مطالعہ کا بھی ذوق ہے اور لکھنے کا بھی۔ نثر میں ان کی دل چسپی محض تحقیق و تنقید تک محدود نہیں بلکہ افسانہ اور ناول میں بھی ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان موجود ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں ان کا ایک مضمون رام پور کی ایک کہنہ مشق افسانہ و ناول نگار نصرت شمسی سے متعلق ہے۔ نصرت شمسی تقریباً تیس سال سے افسانے و ناول لکھ رہی ہیں لیکن ان کی بیش تر ابتدائی تخلیقات کی اشاعت ماہنامہ ’بتول‘رام پور میں ہوئی ہے۔ ان کی اب تک چھ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں اور بحمد اللہ ان کی سبھی کتابوں میں میرا پیش لفظ یا مقدمہ موجود ہے۔ ان کے افسانے اور ناول خواتین کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔
وہ عورت کی عظمت کی معترف بھی ہیں اور وکیل بھی۔اس لیے وہ اپنے افسانوں اور ناولوں میں خواتین کے مسائل کو بڑی خوبی کے ساتھ اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے سبھی افسانے ایک پاکیزہ معاشرہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی زبان مہذب اور شائستہ ہے۔ فہیم بسمل نے نہایت باریکی سے ان کے افسانوں، ناولوں اور ناولٹ کا مطالعہ کر کے ان کی فنی اور تکنیکی خصوصیات کی نشان دہی کی ہے اور ان کے افسانوں کے بہت سے جملے بھی بطور نمونہ پیش کیے ہیں۔ اگرچہ یہ مضمون مختصر ہے لیکن جامع ہے اور فہیم بسمل کی صلاحیتوں کو بھی پیش کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نصرت شمسی کے پہلے افسانوی مجموعہ ’ماہ تمام‘ کو اترپردیش اردو اکادمی نے کئی سال قبل اعزاز سے بھی سرفراز کیا ہے۔ اس کتاب کا اجراء انجمن اصلاح قوم اسکول رام پور میں ١٥/ جون ٢٠١١ء کو ہوا تھا۔
نصرت شمسی پر لکھے مضمون سے پہلے فہیم بسمل کا ایک مضمون رام پور کی ایک اور قلم کار ڈاکٹر رباب انجم کے، پی ایچ.ڈی کے تحقیقی مقالہ سے متعلق شامل کتاب ہے۔ ڈاکٹر رباب انجم رام پور اور دیگر اضلاع کی ادبی سرگرمیوں کی روح رواں رہی ہیں۔ وہ رام پور ریڈیو سے بھی وابستہ ہیں اور شعبہ درس و تدریس سے بھی اور اس وقت مرادآباد مسلم ڈگری کالج کی پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ فن خطابت اور ادبی محفلوں میں نظامت کی بھی شان رہی ہیں۔ ان کا تحقیقی مقالہ جوش ملیح آبادی کی رباعیات سے متعلق ہے اورجس کا موضوع ہے’جوش:بحیثیت رباعی گو‘۔
اس کتاب میں بھی بیس صفحات پر مشتمل خاکسار کا مقدمہ موجود ہے جس میں ڈاکٹر رباب انجم کی ادبی خدمات، جوش کی شاعری کی خصوصیات اور جوش پر اب تک لکھے گئے پی ایچ.ڈی کے مقالات کی فہرست بھی پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب پر ڈاکٹر رباب انجم نے خاصی محنت کی ہے اور فہیم بسمل نے بھی اس کتاب کا سیر حاصل مطالعہ کرکے نہ صرف جوش کی شاعرانہ عظمت بلکہ ڈاکٹر رباب انجم کی بھی ادبی اور فکری صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ جوش اور فراق اردو ادب کے دو عظیم شاعر تھے اور ان کا انتقال بھی تقریباً ایک ہفتہ کے فرق سے ہوا تھا۔ جوش ملیح آبادی کا انتقال ۲۲/ فروری ١٩٨٢ء کو اسلام آباد میں ٨٧ سال کی عمر میں ہوا اور فراق گورکھ پوری کی وفات ۳/مارچ ١٩٨٢ء کو دہلی کے ایک اسپتال میں ٨٦ برس کی عمر میں ہوئی (حوالہ:ماہنامہ اشاریہ نیا دورلکھنؤ، موضوع:وفیات)۔فہیم بسمل نے ان دونوں شعرا یعنی جوش اور فراق کی خدمات کا اعتراف بہترین انداز اور اسلوب میں کیا ہے۔ڈاکٹر رباب انجم کی کتاب کا اجراء ۲۲/ فروری ٢٠١٥ء کو ضلع سہکاری بینک رام پور کے وسیع و عریض ہال میں ہوا تھا جس میں فہیم بسمل نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
اس کتاب میں دیگر کئی قلم کاروں اور شاعروں پر بھی فہیم بسمل کے تحقیقی اور تفصیلی مضمون موجود ہیں۔ چونکہ وہ خود کمپیوٹر کے ماسٹر اور ڈپلومہ ہولڈر ہیں اس لیے کتاب میں کمپوزنگ یا ٹائپنگ کی غلطیاں نظر نہیں آتیں اور ہوں بھی تو وہ آٹے میں نمک یا محض چھرا چھینٹا ہی ہیں۔ تحقیقی اور تنقیدی مضامین میں زبان و بیان اور اسلوب کی چاشنی برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن فہیم بسمل کی تحریر صاف ستھری، تروتازہ، سادہ و سلیس اور سنجیدہ ہے۔ عام تنقید نگاروں کی روش سے گریز کرتے ہوئے انھوں نے طنز و تشنیع سے گریز کیا ہے اور کہیں بھی طنزیہ لہجہ اور اسلوب اختیار نہیں کیا ہے۔
اختصار اور تحریر میں جامعیت ان کی تحریر کی ایک نمایاں اور خاص خوبی ہے۔ مختلف مزاج کے شاعروں پر لکھنا بھی خود ایک فن ہے اور فہیم بسمل اس میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ وہ دوسروں کے چبائے ہوئے نوالوں کو لینے سے گریز کرتے ہیں اور انھوں نے کسی مضمون میں اگر کہیں حوالہ دیا بھی ہے تو وہ خود اس قلم کار کی تحریر سے پیش کیا ہے جس کے بارے میں وہ لکھ رہے ہیں اور کسی دوسرے قلم کار کی تحریر سے حوالہ نہیں لیتے۔
ابھی ماشاء اللہ وہ نوجوان ہیں اور ان کے سامنے ادب کے بہت سے میدان موجود ہیں۔ ان کی شخصیت اس بات کی ضامن ہے کہ بڑا قلم کار بننے کے لیے اور بڑے کام کرنے کے لیے طویل اور لمبی عمر کا ہونا ضروری نہیں۔وقت اور عمر اور علم کے اضافے کے ساتھ قلم کار کا تجربہ بھی بڑھتا جاتا ہے اس لیے امید ہے کہ ان کا قلم نثر و نظم دونوں میں مزید گل افشانیاں دکھائے گا یا کارہائے نمایاں انجام دے گا۔
مذکورہ کتاب میں ایک مضمون طنز و مزاح کے تعلق سے بھی ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے’عظمت شاہ آبادی: طنز ومزاح کے آئینے میں‘۔ عظمت کا تعلق ضلع ہردوئی کی ایک تحصیل شاہ آباد سے ہے۔ فہیم بسمل نے ان سے اپنی پہلی ملاقات اور پھر دراز ہوتی ملاقاتوں کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ فہیم بسمل نے ان کی شاعری کی بابت لکھا ہے کہ عظمت شاہ آبادی کی شاعری میں ذہانت و متانت اور بذلہ سنجی اور شوخی کا خوب صورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے کلام میں زندگی کی تمام تر شوخیاں اور شرارتیں بکھری نظر آتی ہیں۔ فہیم بسمل نے نمونہ بطور ان کے کچھ قطعات بھی پیش کیے ہیں۔ یہ اس کتاب کا آخری مضمون ہے۔ فہیم بسمل کے مضامین میں ندرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کا ایک اہم مضمون اردو ادب کی مشہور و معروف شخصیت نذیر فتح پوری سے متعلق بھی ہے۔ نذیر فتح پوری نظم و نثر اور صحافت کے ایک اہم ستون ہیں۔ نذیر فتح پوری کی کتابوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اور خاص بات یہ کہ وہ ہر موضوع پر لکھتے ہیں۔ فہیم بسمل نے ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کی دوہا غزلوں کے حوالے سے بھی ایک معلوماتی مضمون لکھا ہے۔ یہ مضمون موضوع کی مناسبت سے اپنے آپ میں انفرادیت رکھتا ہے۔ ان مضامین کے علاوہ دبستان لکھنؤ کے ایک معروف شاعر والی آسی، شاہ جہاں پور کے سید احمد سحر، ڈاکٹر محمد طاہر رزاقی سنبھلی اور عشرت ظفر سے متعلق بھی اچھے مضامین اس کتاب میں موجود ہیں جن میں حیات و خدمات کے ساتھ نمونہ ہائے کلام کو بھی پیش کیا گیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے لکھا ہے اس کتاب میں فہیم بسمل کی ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا ایک مضمون ادب اطفال کے ایک منفرد اور مشہور ومعروف ادیب و شاعر حافظ کرناٹکی سے متعلق بھی ہے۔ مضمون میں حافظ کرناٹکی کی ادب اطفال کے تحت خدمات کا تذکرہ اور اعتراف کیا گیا ہے۔ ان کی تخلیقات کے موضوعات کی بابت بھی قلم فرسائی کی گئی ہے۔ خاص بات یہ کہ فہیم بسمل نے حافظ کرناٹکی کی نثر و نظم میں بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کے نام بھی پیش کیے ہیں۔
حافظ کرناٹکی کی کئی کتابیں نصابی ضروریات کے تحت بھی لکھی گئی ہیں۔ حافظ کرناٹکی کے موضوعات میں کھیل کود، ہنسی مذاق، سیر سپاٹا، جنگل، پہاڑ، دادا، دادی، نانا، نانی، ابا، باجی، بھیا، استاد، بجلی، بارش، ہوا، چھتری، غبار، چوزہ، گلہری، بتاشے، مکڑی کا گھر، لکڑی کا گھوڑا وغیرہ کے علاوہ ہندستانی موسموں، جانوروں، تہواروں، موٹرگاڑیوں، غباروں وغیرہ مختلف موضوعات پربھی خوب سے خوب نثر ونظم دونوں میں لکھا گیا ہے۔امید ہے فہیم بسمل کا قلم اسی طرح اپنی جولانیاں مستقبل میں بھی دکھاتا رہے گا،ان شاء اللہ!
***
(٢٥/اپریل٢٠٢١ء)

ڈاکٹر اطہر مسعود خاں کی یہ نگارش بھی پڑھیں : بابائے اردو مولوی عبدالحق : حیات و خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے