”تذکرہ صوفیاے بہار" پرایک طائرانہ نظر

”تذکرہ صوفیاے بہار" پرایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر سیّدشاہد اقبال(گیا)

بہارمیں صوفیاے کرام کی آمد کو آٹھ سو سال سے زائد ہوگئے ہیں. ان میں چند صوفیاے کرام کے ماسوا بیرون بہار بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ؒ کے علمی کارنامے سے دنیا واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا براعظم کے شہر برس بین (BRIZBANE) سے ایک انگریز اسکالر فادر پال جیکسن (PAUL JACSON) (B,1937-D,2020) برائے تحقیق بہار پہنچ گئے اور پروفیسر سید حسن عسکری (1900-1990) کی رہ نمائی میں ”مکتوبات صدی"، مکتوبات دوصدی اور خوان پرنعمت  کے ترجمہ کا کام کیا۔ یہ کام کوئی آسان کام نہ تھابلکہ فارسی زبان سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا تھا۔ فادرپال جیکسن کی مندرجہ ذیل کتابیں شایع ہوچکی ہیں:
(1) Sharfuddin yahya Maneri,-The Hundred Letters
New York, Paulist Press,1980,458,Page.
(2) The Quest of God-Maneri Scond Collection of 150 Letters
Gujrat Sahitya Prakasran, 2004, 337 Pages.
(3) Khwane-Pur Nemat-A table Laden with good things
Delhi -1986,174,Pages.
پروفیسر سید حسن عسکری اورپروفیسر قیام الدین احمد (1930-1998) نے بہار کے صوفیاے کرام پر بہت تحقیقی کام کیاہے۔
بہار کی خانقاہوں، سجادگان اورخانوادے کے ذریعہ اپنی اپنی خانقاہوں سے متعلق صوفیاے کرام کے حالات مرتب کرکے شایع کیا گیا ہے۔ ان میں خانقاہ منیر شریف سے آثار منیر (شاہ مراد اللہ منیری)، خانقاہ اسلام پور سے تذکرہ مشائخ بہار (ڈاکٹر طیب ابدالی)، خانقاہ پھلواری شریف سے اعیان وطن (حکیم شاہ شعیب)، خانقاہ منعمیہ قمریہ سے اخبارالاولیاء (پروفیسرشمیم منعمی) سے تذکرہ آلکرام، خانقاہ شاہ ارزان سے ”نورعلی نور“ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
خوش آئندہ بات یہ ہے کہ حکومت بہار نے صوفیائے بہارکے مزارات اور درگا ہوں کو صوفی سرکٹ (Sufi-Curcit) سے جوڑدیا ہے۔ اس سلسلے میں صوفیاے بہار (Sufiya-e-Bihar) پر ایک دستاویزی کتاب انگریزی زبان میں 2013 میں شایع کیا گیا ہے۔ اس میں 140 (ایک سوچالیس) خانقاہوں اورمزارات کی رنگین تصویر مع مکمل تعارف پیش کیا گیا ہے. اس کتاب کو Jagran Prakashan Limited / Kanpur-2013 نے شایع کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ کتاب اٹلس سائز آفسٹ پیپر کے 86 صفحات پرمشتمل ہے۔ اس کی قیمت 4000/=(چارہزار روپے) ہے۔
آج سے ربع صدی قبل جناب قیام الدین احمد نظامی (مقیم کراچی) نے بہار کے صوفیاے کرام سے متعلق ”شرفائی نگری“ دو جلدوں میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں. اس کتاب میں صوفیاے بہار سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد عام لوگوں نے صوفیاے بہار پر مزید کام کرنے کے لیے قدم بڑھایا۔ ان میں پروفیسرسید شاہ شمیم الدین احمد منعمی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ انھوں نے شہر عظیم آباد (میتن گھاٹ، پٹنہ سٹی) میں ایک عظیم الشان لائبریری قائم کر رکھی ہے اور یہاں Sufi Research Centre بھی قائم کیا ہے۔ اس جگہ صوفیاے کرام کے حالات، ملفوظات، کی تحقیق و تدوین اور اشاعت کا کام بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
پروفیسر شمیم منعمی کے بعد ڈاکٹر حفیظ الرحمن کا نام آتاہے۔ انھوں نے نئی دہلی میں یونیورسل صوفی سنت اسٹڈی اینڈ پیس فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)  قائم کیا ہے۔ اس ادارہ کے توسط سے انگریزی، اردو، ہندی میں بیس (20) کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ان میں اولیاے دہلی کی درگاہیں (2011)، مزارات اولیاے دہلی (2006)، اور ہندی زبان میں، مقامات اولیاے دہلی (2005) میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ کاجائزہ (2008)، فلسفہ حیات جیون درشن، 2009 تصوف کا انکریشن، صوفیوں کا ابتہاس (2005)، مقامات اولیاء روہیل کھنڈ (2010)، شامل ہیں۔ ان سب کے علاوہ انگریزی زبان میں، تصوف اور سورسیز آف تصوف  زیرطبع ہے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی یہ کتاب ”تذکرہ صوفیاء بہار“ میں کل 96 صوفیاے کرام کا تذکرہ شامل ہے۔ یہ کتاب علاقائی بنیاد پر آٹھ ابواب میں منقسم ہے۔
ڈکٹر حفظ الرحمن تاریخ کے طالب علم رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بڑے منصوبہ بند طریقے سے اس کام کو کیا ہے۔ پہلے انھوں نے اجمالی تعارف کے ضمن میں نام، لقب، ولادت، وطن، وفات، مدفن، پیرومرشد اور سلسلہ خلافت  کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد اسی عنوان کو تفصیل سے پیراگراف بناکر پیش کیاہے۔ ان تفصیلات کے ضمن میں جگہ جگہ حوالہ بھی صفحہ نمبر کے ساتھ درج کیاہے۔
باب اول (صوفیاء منیرشریف) پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ منیرشریف مشرقی ہندستان میں اسلام کا پہلا گہوارہ تھا۔ صوفیاے کرام کی پہلی جماعت بھی اسی جگہ وارد ہوئی تھی۔ بختیار خلجی کا لشکر سب سے پہلے منیرشریف پہنچتا ہے۔ اس لیے منیرشریف کاذکر زیادہ تفصیل سے کیا گیاہے۔ منیرشریف کی تاریخی اہمیت کے ساتھ حضرت مومن ؔ عارف ؒ، حضرت امام تاج فقیہ ؒ، حضرت شاہ رکن الدین مرغیلانی ؒ، حضرت جلال منیری ؒ، حضرت مخدوم یحییٰ منیری، حضرت مخدوم جلیل الدین منیری ؒ، حضرت مخدوم شاہ دولت منیری ؒ کے ساتھ ساتھ خانقاہ منیر شریف سے سلاطین و امرا کی عقیدت کا والہانہ ذکر کیاہے۔
باب دوم (تذکرہ صوفیاء بہار شریف) میں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ؒ، خواجہ احمد سیستانی ؒ، سید موسیٰ ہمدانی ؒ، شیخ خضر پارہ دوست ؒ، حضرت سید ابراہیم ملک بیاؒ، حضرت سید احمد چرم پوش تیغ برہنہ ؒ، سید احمد جاجنیری، شیخ شہاب الدین ؒ، حضرت مخدوم چولہائی ؒ، حضرت زین بدر عربی ؒ، حضرت شیخ شہاب الدین، خواجہ محمد تالاؒ، حضرت مخدوم خلیل الدین ؒ، شیخ نصیرالدین شاہ، حضرت شمس الدین بلخی، حضرت مظفر بلخی، حضرت بدرالدین بدرعالم زاہدی ؒ، شیخ احمد لنگردریا، سید فضل اللہ عرف سید گوشائیں ؒ، پیر امام الدین راج گیری ؒ، مخدوم فرید الدین طویلہ بخش ؒ، حضرت شاہ ابوصالح محمدیونس فیضی ؒ کاذکر شامل ہے۔
باب سوم (تذکرہ صوفیاے عظیم آباد) میں قاضی شیخ شہاب الدین پیرجگجوت ؒ، حضرت آدم صوفی ؒ، حضرت شیخ حمید الدین ؒ، حضرت دیوان شاہ ارزان ؒ، حضرت سید پیرڈمریاسہر وردی ؒ، حضرت منعم پاک بازؒ، حضرت شاہ رکن الدین عشق ؒ، مخدوم شاہ حسن علی ؒ، مخدوم سید شاہ قمرالدین حسین ؒ، حضرت سید شاہ ابوالبرکات ؒ، حضرت سید شاہ غلام نجف ؒ کا ذکر شامل ہے
باب چہارم (تذکرہ صوفیاء پھلواری شریف) میں حضرت مخدوم منہاج الدین زراستی ؒ، حضرت مخدوم بدرعالم قادری ؒ، خواجہ عماد الدین قلندر ؒ، حضرت سید شاہ مجیب اللہ قادری، مخدوم شاہ محمدآیت اللہ جوہری ؒ، حضرت نورالحق تپاں ؒ، حضرت شاہ محمد ظہور الحق ؒ، شاہ محمد حبیب اللہ ؒ، مولوی احمد کبیر ؒ، شاہ محمد بدرالدین قادری ؒ، حضرت شاہ سلیمان ؒ، شاہ محمد حبیب الحق ؒ، شاہ محمد محی الدین ؒ کا ذکر شامل ہے۔
باب پنجم (تذکرہ صوفیاء داناپور) میں حضرت سید شاہ یٰسین چشتی داناپوری ؒ، سید شاہ مبارک حسین ؒ، حضرت سید شاہ محمد اکبر داناپوری ؒ، سید شاہ محمد رکن الدین حسین عارف ؒ، حضرت شاہ محمد محسن ابوالعلاء کا ذکر کیا گیا ہے۔
باب ششم (تذکرہ صوفیاء آراء) میں بیسوی صدی عیسوی کے گیارہ (11) صوفیاے کرام کا ذکر ہے۔ ان میں حافظ شاہ فرید الدین قادری ؒ، شاہ محمد مصلح الدین، عاشق رسول شاہ معین الدین ؒ، حافظ شاہ محمد عبدالصمد ؒ، مولانا تصدق حسین ؒ، شاہ آبانی دھنوشاہ ؒ، حافظ شاہ عبدالکریم فریدی ؒ، حضرت کالے پیر مراد ؒ، بخشو شہید، انجان شہید اورحضرت صادق شاہ شہید کا نام شامل ہے۔
باب ہفتم (تذکرہ صوفیاے بکسر) میں چودہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی عیسویں کے سات (7) صوفیاے کرام کا ذکر ہے۔ ان میں قاضی شمس الدین فریدی، مخدوم ابراہیم بلخی ؒ، شیخ محمد بختیار ؒ، سید جلال الدین شاہ ؒ، سید سالار غازی کے شہیدا، حافظ عبدالغفور آروی ؒ، دریا شاہ شہید ؒ کا نام شامل ہے۔
آخری باب ہشتم (بہار کے مختلف علاقہ میں مدفون صوفیاے کرام کا ذکر ہے۔ ان میں حضرت شیخ سلیمان لنگرزین ؒ (کاکوی) ، سید وحیدالدین کش ؒ (ارول) ، حضرت شیخ آمون (شیخ پورہ) مخدوم ذکی الدین منیری (بردوان)، مخدوم شمس الدین عرف شمن چشتی (ارول) مخدوم شاہ قطب فردوسی (شیخ پورہ)، مخدوم شاہ دویش(بیتھوشریف)، حضرت سید ابراہیم زندہ دل ؒ (کاکوی)، مخدوم منجھن قتال بخاری (گیا)، مخدوم سید محمد قادری (امجھرشریف)، مخدوم پیر سرمست تیغ آوایزاں (حاجی پور)، شیخ بدرالدین بدھن فردوسی (سہسرام)، حضرت سید شاہ شہباز (بھاگل پور)، حضرت محمد شفیع عثمانی (امتھوا شریف)، مولانا حسن رضا (فتوحہ)، مخدوم شاہ حسن دوست (چھپرہ)، حضرت سید شاہ ولایت علی ہمدانی ؒ (اسلام پور)، شاہ قیام الدین اصدق (گیا)، شاہ مجیب الحق کمال (اورنگ آباد)، حضرت محمد شفیع علی شاہ (مظفر پور)، کے اسماے گرامی شامل ہیں۔
تذکرہ صوفیاء بہار میں کل 96 صوفیاکرام کاذکر ہے۔ ان میں قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ، ابوالعلائیہ، فردوسیہ، مجیبیہ، اشطاریہ، سلیمانیہ، غرض کہ سبھی سلاسل کے بزرگان دین شامل ہیں۔
تذکرہ حفظ الرحمن میں 56خانقاہوں کاتعارف اور 96 صوفیاے کرام کا احول پیش کیاہے۔ ان کے مطالعے سے یہ واضح ہوتاہے کہ مشرقی ہندستان میں صوفیاے کرام کا مرکز اورمنبع سرزمین بہار ہی تھا. خصوصی طورپر منیر شریف اور بہار شریف کے چپے چپے پر صوفیاے کرام کی ضو فشانیاں موجود ہیں. ان میں شیدائین اسلام کی ضیا مشرقی اورشمال مشرقی ہندستان کا یہ خطہ بہ شمول برما (میانمار) تبت اور سن کیانک (چین) تک اسلام کاپیغام پہنچایا ہے۔
مولانا ابولبرکات عبدالرؤف قادری ؒ نے آثار منیر (سید مراداللہ منیری ١٩٤٨) کے تعارف میں لکھاہے۔
اس خاندن (امام تاج فقیہ ؒ) کے بہت سے بزرگوں نے بڑی ریاضیتیں اوربڑی چلہ کشیاں کی ہیں. ان کے آثار منیر میں بہار اور راجگیر کے پہاڑوں، دیگر مواضعات و قصبات میں، بعض جنگلوں میں اورملک سے باہر برما کے دور دراز علاقوں میں موجود ہیں۔
(آثا رمنیر15)
اس خاندان (امام تاج فقیہ ؒ) کے بہت سے حضرات فرداً فرداً اراکین تصوف دین اور رشدوہدایت میں شہرت نامہ رکھتے ہیں۔ بہت سے قلوب پر ان کی آج بھی حکومتیں ہیں ان سب حضرات کے آثار اگرجمع ہوجائیں توبڑی ہدایت وروحانیت کاذریعہ ہوسکتاہے۔
(آثا رمنیر15)
آج 72سال کے بعد حضرت مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف قادری داناپوری (1856-1948) کی یہ تمنا پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ ڈاکٹر حفظ الرحمن نے ان سب بزرگوں کے آثار کو جمع کردیاہے تاکہ مسلمانان ہند کے قلوب ان کی روحانیت کے جلوے سے لبریزہوجائیں۔ میری خداے لم یزل سے دعاہے کہ ان کے اس نیک عمل کو قبول فرما ئے (آمین)

DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com

٭٭٭

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے