شخصیت : نور شاہ

شخصیت : نور شاہ

نوٹ: یہ تعارفی سلسلہ کشمیر کے عصری ادبا و شعرا کی شخصیت اور ادبی خدمات کے لیے مختص ہے۔

کالم نگار : ایس معشوق احمد

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے کچھ ادیبوں کا ادبی قد اتنا بلند ہے کہ ان کی شخصیت اور فکروفن کے بارے میں قلم اٹھانے سے قبل وسوسے آتے ہیں ، خوف طاری ہوتا ہے اور ایک دباؤ سا رہتا ہے کہ تحریر شخصیت کے شایان شان اور ان کے فکر و فن کے معیار کے برابر ہونی چاہیے ورنہ کم علمی آشکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ آدمی عیب و ہنر کا مجموعہ ہے۔ اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور یہی انسان اپنی قابلیت سے ناقابل یقین کارنامے بھی انجام دیتا ہے۔ ادبی حلقوں میں بڑا نام رکھنے والوں کے بارے میں لکھنا آسان بھی ہے اور نوکیلے کانٹوں پر چلنے کے برابر بھی، کیونکہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہوتا ہے اور مزید فنی پہلوؤں کی نشان دہی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بڑے ادیب مختلف اصناف میں اپنے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی تحریرات میں شفتگی اور نیا پن ہوتا ہے۔ ان کے قلم سے اتنے موتی نکلے ہوتے ہیں کہ ان تمام موتیوں کو جمع کرکے پرکھنا اور ان کو اکھٹا کرکے دیدہ زیب ہار میں تبدیل کرنا بعض دفعہ نا ممکن ہوجاتا ہے۔ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی بڑے اور معتبر ادیبوں میں ایک اہم نام محترم نور شاہ صاحب کا ہے۔
جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی روایت کے امین نور شاہ کا پورا نام نور محمد شاہ ہے۔ 9 جولائی 1936ء میں ڈلگیٹ سرینگر میں پیدا ہوئے۔ پیشے سے محکمہ زراعت و دیہی ترقی میں ڈپٹی کمشنر اور ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ ڈائریکٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور چیف ایکزیکٹو آفیسر جموں و کشمیر جیسے اہم عہدوں پر بھی اپنے فرائض منصبی نبھا چکے ہیں۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ آپ کا تخلیقی سفر آدھی صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے اور ابھی لکھ رہے ہیں۔ لکھنے کی شروعات 22 سال کی عمر میں کی اور پہلی کہانی ” نلنی " کے عنوان سے ماہنامہ ” شمع " دہلی کے جنوری1958ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ آپ شاہدہ شیرین کے نسوانی نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ واقعہ ہے کہ آپ نے ایک کہانی کسی رسالے کو بغرض اشاعت ارسال کی تھی وہ چھپ نہیں پائی۔ وہی کہانی کچھ ادل بدل کے بعد اسی رسالے کو "شاہدہ شیرین" کے نسوانی نام سے ارسال کی اور وہ چھپ گئی۔ کچھ عرصے بعد اس نسوانی نام کو ترک کیا اور نور شاہ کے نام سے ہی لکھتے رہے۔

نور شاہ نے نہ صرف افسانے تخلیق کیے بلکہ ناول، ریڈیائی ڈرامے، فلمی فیچر، کالم، افسانچے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔ ترجمہ نگار بھی ہیں اور کشمیر کی روح، کلچر، ثقافت، تہذیب و تمدن کے ترجمان بھی۔ بحثیت افسانہ نگار شہرت پائی اور ان کے باقی پہلوؤں کی طرف کم ہی دھیان دیا گیا۔ ان کے افسانوں میں حسن پرستی اور رومانیت بھی ہے اور عشقیہ قصے بھی، زندگی کی کڑواہٹ بھی ہے اور خوشیوں کی مٹھاس بھی، حقیقیت پسندی بھی ہے اور رومان بھی۔ نور شاہ نے سادہ اور سہل زبان میں اپنے خیالات قارئین تک پہنچائے اور علامتی اسلوب بھی اپنایا۔ انھوں نے ثقیل اور دشوار الفاظ سے پرہیز برتا جس کی بدولت ان کے یہاں زبان میں روانی اور فطری ادائیگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے معاشرے اور اردگرد سے کبھی آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ اپنے افسانوں میں کشمیر کی تصویر کے دونوں رخ پیش کیے۔ یہاں کی ہری بھری شاداب وادی، پہاڑ، ندی نالے، خوب صورت باغات، خوب صورت مقامات کی مدد سے اپنے افسانوں میں یہاں کی مکمل فضا کی عکس بندی کی ہے۔ ان کے افسانوں میں رنگارنگی اور موضوعات میں تنوع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار کشمیر کی ترجمانی کرنے والے معتبر اور بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
بڑے ادیبوں کے یہاں موضوعات میں تنوع، اسلوب کی نیرنگی، اپنے عہد کے حالات و واقعات کی عکاسی، ماضی کی روداد، حال کی داستان اور مستقبل کی خبر دیکھنے کو ملتی ہے۔ نور شاہ کے یہاں بھی بوقلمونی ہے۔ ان کے یہاں ادبی زبان کی لطافت بھی ہے اور کہانی بننے کی فنکاری بھی۔پروفیسر قدوس جاوید نور شاہ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
” نور شاہ کے فنی و جمالیاتی، لسانی و فکری امتیازات اتنے روشن اور امکانات سے پر ہیں کہ معاصر اردو افسانہ نگاروں میں غالباً چند ایک کو ہی نور شاہ کے مد مقابل رکھا جا سکتا ہے."
نور شاہ کے افسانوں میں جہلم اور ولر کے شفاف پانی کا عکس بھی ہے، مناظر فطرت کا بیان بھی اور گرینڈ دھماکوں، ناحق قتل و خون ریزی کی بو باس بھی۔ جنت کیسے دھیرے دھیرے جہنم کے روپ میں ڈھلنے لگی، کیسے لگاتار نوجوان لاپتہ ہوئے، بے نام قبریں کیسے وجود میں آئی، مسخ شدہ لاشیں، آگ کی وارداتیں، نا انصافی، ظلم اور زیادتی کی تمام تصویریں نور شاہ کے افسانوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ خوب صورتی کو دیکھ کر قلم سے بھی خوب صورت اور رومان پرور کہانیاں نکلتی ہیں۔ چونکہ نور شاہ نے سارا بچپن ڈل جھیل کے کنارے گزارا اس لیے ان کی کہانیوں میں خوب صورتی کا عکس اور رومانوی فضا دیکھنے کو ملتی ہے۔ کشمیر کے حالات خراب ہوئے تو قلم بھی رونے لگا اور آس پاس کے مناظر افسانوں میں جگہ پانے لگے۔ ان کے افسانوں میں صحافتی رپوٹنگ نہیں ملتی بلکہ فن اور ادبی رچاؤ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اندھیرے اجالے، بے جڑ پودے، خواب بھی بکتے ہیں، کرب ریزے، آسمان پھول اور لہو، یہی سچ ہے، کوئی رونے والا نہیں جیسے شہکار افسانوں کو کشمیر کی مکمل عکاسی کرنے کے لیے بطور سند پیش کیا جا سکتا ہے۔ نور شاہ نے کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں بے گھاٹ کی ناؤ، ایک رات کی ملکہ، من کا آنگن اداس اداس، ویرانے کے پھول، گیلے پتھرکی مہک، بے ثمر سچ، آسمان پھول اور لہو، کشمیر کہانی، کیسا ہے یہ جنون، ایک معمولی آدمی اور لفظ لفظ داستان شامل ہیں۔
نور شاہ بحیثت افسانہ نگار جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن انھوں نے ناول اور ناولٹ بھی لکھے ہیں۔ ان کے ناولوں اور ناولٹ میں پائل کے زخم، نیلی جیل کالے سائے، آدھی رات کا سورج، لمحے اور زنجیریں، قفس اداس ہے اور آؤ سو جائیں شامل ہیں۔ نور شاہ نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ جن ریڈیائی ڈراموں نے شہرت پائی ان میں میرے دکھ کی دوا کرے کوئی، امراؤ جان اور میراجی شامل ہیں۔ فلمی فیچر بھی ریڈیائی ڈراموں کی طرح مشہور ادبی شخصیات پر لکھے ہیں، جن میں شکیل بدایونی، ملکہ ترنم نور جہاں اور کیفی اعظمی شامل ہیں۔ نور شاہ نے مختلف کشمیری ادیبوں کی کہانیوں کو بھی اردو کا روپ دیا، جن میں ہری کرشن کول کی کہانی ” ایک صاحب دوسرے صاحب" ، صوفی غلام محمد کی کشمیری کہانی ” دیواریں" ، امین کامل کی کہانی ” نیا تحفہ" ، اختر محی الدین کی کہانی "ایک چھوٹی سی قیامت" اور محی الدین ریشی کی ” خواہش " شامل ہیں۔

نور شاہ خاکہ نگار بھی ہیں۔” کہاں گئے یہ لوگ ” نامی کتاب ان کے مختلف النوع شخصیات پر لکھے خاکے ہیں۔ خاکوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ صاحب خاکہ کے خدوخال اور عادات و اطوار کی جامع اور سہل انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان خاکوں میں روانی ہے اور اختصار سے بھی کام لیا گیا ہے۔ نور شاہ کا بڑا کارنامہ ” جموں و کشمیر کے اردو افسانہ نگار " نامی کتاب ہے۔ اس کتاب میں یہاں کے افسانہ نگاروں کی حالات زندگی، کارناموں اور فکر وفن پر جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
نور شاہ کی تخلیقات کشمیر کے معتبر اخبارات و رسائل کے علاوہ برصغیر کے مستند رسائل و جرائد جن میں بیسوی صدی ، شمع ، شب خون ، شاعر، سمندر ( جرمنی)، سفیر ادب ( لندن)، آجکل ، ایوان اردو ، اردو دنیا، اردو اکادمی، بچوں کی دنیا ، کتاب نما، پیام اردو ، حکیم الامت ، ہمارا ادب ، بزم ادب، تحریک ادب، پندرہویں صدی، امکان ( اور بہت سارے رسائل و جرائد ہیں جن کے نام میں طوالت کے سبب چھوڑ رہا ہوں) میں اہتمام سے چھپتی ہیں۔
نور شاہ صاحب اردو کو فروغ دینے والے مختلف اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔ جموں وکشمیر اردو اکیڈمی کے چیرمین، عالمی اردو ٹرسٹ دہلی کے ممبر، جموں اینڈ کشمیر اسٹیٹ کونسل اینڈ پرموشن آف اردو کے ممبر، رسالہ نگینہ انٹرنیشنل اڈیٹوریل بورڈ کے ممبر، فکشن رائٹرس گلڈ ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر اور جموں و کشمیر کلچرل کانفرنس کے ممبر ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نور شاہ ایک کہنہ مشق اور ہمہ جہت فکشن نگار ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر دبستان کشمیر کی تاریخ ناقص اور نامکمل ہے۔اس بیان سے نور شاہ کے ادبی قد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ کے دو بڑے نام کرشن چندر اور عصمت چغتائی نے اقرار کیا ہے کہ ہم نے کشمیر کو نور شاہ کے افسانوں سے مکمل جانا ہے۔ اس سے بڑی ہمارے لیے اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ ہم نور شاہ صاحب کے عہد میں جی رہے ہیں۔ انھوں نے پوری زندگی ادب کی آبیاری کی ہے اور آج بھی اس گلشن کی اپنی تخلیقات سے مزید تزئین کر رہے ہیں۔
گذشتہ کالم یہاں پڑھیں : شخصیت : راجہ یوسف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے