بربادی کی داستان

بربادی کی داستان

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ

جنت نشاں کشمیر میں جوحالات پیدا ہوئے یا پید اکیے گیے، اس نے گذشتہ تیس(30) سالوں میں کشمیر کی اقتصادیات کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے، مبینہ دہشت گردی کے تیس (30) سال میں، سیاحت اور صنعت سب کچھ تہہ و بالا ہو کر رہ گئی ہے، اس مدت میں سترہ سو چھیانوے (1796) دن ریاست میں کر فیو نافذ رہا، ایک اندازہ کے مطابق ایک دن کے کر فیو میں کشمیر کو دو سو پچاس (250) کروڑ روپے کا نقصان بر داشت کرنا پڑتا ہے، 1991ء میں یہاں سال کے دو سو ساٹھ (260) دن اور 2016 میں ایک سو تیس (130)دن کرفیو میں گذرے، صرف 2016ء میں اکاون (51) دن کی مکمل بندی کے نتیجے میں دس ہزار پانچ سو (10500) کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔
کشمیر کی معاشی بنیاد سیاحت ہے، کر فیو، ہڑتال اور بندی کے نتیجے میں یہاں سیاح آنے سے کترانے لگے، 1988ء میں سات لاکھ (700000) سیاح وادی میں آئے تھے، 1989ء سے یہاں تشدد شروع ہوا تو سیاح کی تعداد دو لاکھ گھٹ گئی، اگلے دو سال میں یہ تعداد ۸۹ فی صد گھٹی اور صرف چھ ہزار دو سو ستاسی (6287) سیاح ہی وادی میں داخلہ کی جرأت کر سکے۔ 2001 میں حالات مزید بگڑے تو صرف ستائس ہزار تین سو چھپن (27356) سیاح وادی میں داخل ہوئے، 2016ء میں سیاحوں کی تعداد کافی بڑھی، لیکن اب جو حالات ہیں، اس میں سیاحوں کی آمد میں پھر سے کمی واقع ہو گئی ہے اور اس کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
یہاں بے روزگاری کا تناسب اکیس فی صد ہے اور پچیس فی صد نوجوان بے کار بیٹھے ہیں، ریاست میں بائیس ہزار اسکول و کالج ہیں، لیکن 68ء 75 فی صد اسکول آج بھی بجلی کی روشنی سے محروم ہیں، یہاں کی گھریلو صنعتیں دم توڑ رہی ہیں، نئے تجارتی مواقع کالعدم ہیں، یہاں صرف چھیاسی بڑی اور اوسط درجہ کی صنعتی کمپنیاں ہیں، جس میں انیس ہزار تین سو چودہ لوگ ہی روزگار سے لگے ہیں، گھریلو اور چھوٹی صنعتیں تیس ہزار ایک سو بیس (30120) ہیں، جس سے 142317 لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے، ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے اس میں اضافہ نہیں ہو پا رہاہے، گذشتہ دس سالوں میں صرف پانچ ہزار لوگوں کو یہاں اضافی نوکری مل سکی ہے۔
جموں کشمیر کے حالات مرکزی حکومت کے لیے بھی درد سر بنے رہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اسے مسلسل وہاں کے فنڈ میں اضافہ کرنا پڑا، ایک اندازہ کے مطابق 1990ء سے 2002 کے درمیان اس مد میں پینتیس ہزار کڑوڑ روپے خرچ کرنے پڑے، مرکزی حکومت نے 1989ء میں مبینہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حفاظتی اسکیموں کو منظوری دی، جس کے دو حصے تھے، ایک حصہ حفاظتی دستوں کے لیے اور دوسرا راحت اور باز آبادکاری کے لیے، باز آباد کاری کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن حفاظتی دستوں پر اٹھارہ سالوں میں وزارت داخلہ نے سات ہزار چھ سو ستائیس کڑوڑ روپے خرچ کیے، دوسری طرف سیاحت کے ذریعہ جو ٹیکس ریاست سے مرکز کو ملا کر تا تھا وہ دس فی صد سے گھٹ کر چھ فی صد پر آگیا ہے، 2017ء میں گذشتہ چھ سالوں کے اعداد و شمار کے اعتبار سے سیاحوں کی تعداد سب سے کم رہ گئی۔ مرکزی حکومت نے کشمیر میں انتخاب کرانے کے لیے کشمیری سیاست دانوں کی کل جماعتی میٹنگ بلائی تھی، لیکن اس کا بھی مستقبل قریب میں کوئی نتیجہ بر آمد ہوتا نظر نہیں آتا، ریاست کی تقسیم کرکے جس طرح اسے مرکز کے زیر انتظام لایا گیا اس سے کشمیر کی عوام خوش نہیں ہے، دفعہ 370 / اور 51/ اے کا اختتام بھی کشمیریوں کے لیے گراں ہے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ اس ملک کے سارے فکری مراکز (تھنک ٹینک) ایسی منصوبہ بندی کریں اور اسے حکومت تک پہونچائیں تاکہ بربادی کی یہ داستان قصۂ پارینہ بن سکے.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:عالم، مولانا، مولوی اور مُلّا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے