اب رواجی جلسوں کی ہرگز ضرورت نہیں

اب رواجی جلسوں کی ہرگز ضرورت نہیں

غلام آسی مونس پورنوی
مقیم حال لکھنؤ، اترپردیش

ہمارا سیمانچل تقریباً آزادی کے بعد ہی سے غربت و افلاس کی زبردست مار برداشت کررہا ہے، سیمانچل کے ہر سو آدمیوں میں سے تقریباً 85 آدمی مزدوری کرکے اپنی زندگی گذربسر کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ابھی تک سیمانچل کی تعلیمی شرح سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 30 سے 45 فی صد ہی ہے، اور ایک سروے کے مطابق سیمانچل میں گریجویٹ افراد کی تعداد 3.4 فی صد ہی ہے، علاقے میں ہرچیز کی قلت خاص طور پر بنیادی ضروریات کی سہولیات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے، جیسے اچھا اسکول، مدرسہ، ہاسپٹل، کوچنگ سینیٹرس وغیرہ وغیرہ،
مگر اہل سیمانچل کی نظر اس طرف کبھی نہیں اُٹھی، اور اہل سیمانچل نے کبھی بھی اپنی نسلوں کے مستقبل کی جانب نظر اٹھانے کی جسارت نہیں کی، اور یہ سوچنا گوارا نہ فرمایا کہ اگر ہم نے اپنی نسلوں کے مستقبل کو تابناک نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کس کس نام و القاب سے یاد کریں گی. 
اہل سیمانچل کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ میری نسلیں کیسے تعلیم حاصل کریں گی؟ کیسے ہماری بیماریوں کا علاج ہوگا؟ کیسے ہم اور ہمارا علاقہ ترقی کرے گا؟
اگر اہل سیمانچل کے فکر کے باب بھی کھلے ہیں تو ان کے فکر کی سرحدوں کا اختتام قیام جلسہ اور کانفرنس تک ہی ہو کر رہ گیا ہے ہے،
جہاں موسم ریبع کا نزول شروع ہوا ہندستان کے تقریباً تمام خطبا و شعرا اور خانقاہوں کے سجادگان کی آمد و رفت کا سلسلہ سر زمین سیمانچل پر شروع ہوجاتا ہے،
کیونکہ اہل سیمانچل کی خمیر میں غلامی، کفش برداری، جی حضوری، جاں نثاری شامل ہے،
ایک شب میں ایک ہی علاقے میں درجنوں جلسوں کا انعقاد، ان جلسوں پر لاکھوں کا خرچہ، الگ سے ان پیشہ ور پیروں، خطیبوں، بازاری شاعروں ،جاہل نقیبوں کے ناز نخرے جھیلنے کی ہمت اگر کہیں کے لوگوں میں ہے تو وہ زمین ہے سیمانچل کی،
ایک بات تو ہے!
کہ اہل سیمانچل کے پاس دل بہت بڑا ہے، وہ خود بھوک تو برداشت کرلیں گے، اپنے بچوں کے دودھ اور دوائیوں میں تخفیف کرنا تو گوارا کرلیں گے مگر مجال ہے کہ کوئی پیر، مقرر، شاعر و نقیب کی عزت و عظمت، شان و شوکت، اور نذرانے میں ذرہ برابر بھی کمی واقع ہو. 
پورے سال پیر صاحبان کا جم غفیر علاقے میں حاضر و موجود ہوتا ہے، لاکھوں کروڑوں کے لفافے اہل سیمانچل سے حاصل کرنے کے بعد جب وہی پیر صاحبان اپنی خانقاہوں میں پہنچتے ہیں، اور خانقاہوں کے اعراس کا وقت ہوتا ہے، اور جب وہی غریب مرید اپنے پیر کی شرف زیارت کا قصد کرکے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جب خانقاہ کی دہلیز پر اپنا قدم رکھتا ہے تو پیر صاحبان کے خُدّام دھکے دے کر انھیں باہر کا راستہ دکھاتے ہیں. 
وہ لاکھ دہائی دیتا ہے کہ میں حضرت کا مرید ہوں، جب حضرت ہمارے علاقے میں دورے پر ہوتے ہیں تو حضرت کا قیام ہمارے غریب خانہ پر ضرور ہوتا ہے، مگر وہاں اس کی ایک بھی نہیں سنی جاتی. 
المختصر یہ کہ حالات اس سے بھی دگر گوں ہیں جس کو صفحۂ قرطاس پر نہیں لایا جاسکتا، آمدم برسر موضوع. 
تو میں عرض کررہا تھا کہ علاقے سے ہرسال خانقاہوں کے پیران کرام کی بارگاہوں میں علاقے کی عوام کروڑوں روپے نذرانے کے طور پر پیش کرتی ہے. 
مگر جب اہل علاقہ پر آندھی و سیلاب کی شکل میں مصائب و آلام کےطوفان ٹوٹتے ہیں، تو آج تک سجادگان خانقاہ نے اپنے مریدین کی خبر و خیریت دریافت نہیں فرمایا، الاماشاء اللہ
ابھی ابھی جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ تھا، لوگ دانے دانے کو ترس گئے تھے، نہ جانے کتنے لوگوں کی بھوک سے موت ہوگئی، اس مصیبت کی گھڑی میں خاص طور پر سیاسی جماعتوں نے، صاحبان ثروت نے اور ہرذمہ دار فرد نے اپنی بساط کے مطابق ایک دوسرے کی امداد کی، مگر راستہ دیکھتے رہ گئے غریب مریدین کہ ہمارے پیر کی طرف سے کوئی نہ کوئی امدادی کٹ تو ہم تک ضرور پہنچے گا، کیونکہ ہم نے اپنے پیر کی خدمت جان ومال سے کی ہے. اپنی اولادوں کو بھوکے سونے پر مجبور کیا ہے مگر پیر کے نذرانے میں کوئی کمی نہیں کی، اسی لیے ہمارے پیر کو ہماری یاد ضرور ستا رہی ہوگی. 
کاش ایسا ہوتا کہ امیر پیر کا دل غریب مرید کی بے بسی پر دھڑکتا، بے چارہ مرید بے بسی کے عالم میں صبح سے شام تک اپنے دوار سے بار بار جھانکتا رہا کہ اب شاید آجائے پیر کی جانب سے کوئی امدادی وفد. مگر نہ آنا تھا نہیں آیا. 
یہی احوال ہیں پیشہ ور خطیبوں، بازاری شاعروں اور جاہل نقیبوں کے، اس دوران جب قوم کو ضرورت تھی صرف سہارے کی تو ان نامور خطبا، شعرا، نقبا نے
جو علاقے سے ایک ایک رات میں 25 ہزار سے لے کر 60 ہزار تک کا نذرانہ لے جاتے ہیں، کسی نے بھی اہل علاقہ کی حال پرسی نہ فرمائی. 
مگر لاک ڈاؤن جوں ہی ختم ہوا، لوگ بیوی بچوں کو چھوڑ کر اپنی جان ہتھیلی پر لے کر مزدوری کے لیے پردیس گئے اور جب کچھ کما کر اپنے گھر لوٹے تو پیسوں کی گرمی نے انھیں جلسہ کرنے پر مجبور کردیا
اور وہی پیران کرام کو وہی خطباے عظام کو، اور وہی بازاری شعرا کو اپنے جلسوں میں 25 سے 60 ہزار تک کا نذرانہ دے کر بلانے کی درخواست کرنے لگے، جنھوں نے کبھی بھی ان کے کھائے ہوئے نمک کا حق ادا نہیں کیا، اور نہ ہی اس علاقے کے لیے کچھ کیا. اگر کیا ہے تو صرف ایک کام. وہ کام یہ کہ اپنے اکابرین کا نام لے کر سیمانچل کی عوام سے غلامی کروائی، نذرانے کے نام پر ان سے لاکھوں لوٹے، بے چارہ بے وقوف مرید کو پھر سے بے وقوف بنایا بس_!
آج علاقے میں ہزاروں جلسے ہورہے ہیں، کروڑوں روپے بیرونی خطبا و شعرا و نقبا اکٹھا کرکے لے جاتے ہیں، اور آج ان جلسوں کا کچھ فائدہ بھی نظر نہیں آتا سوائے نقصان کے، ایک بات اور،__ ان رواجی جلسوں نے سماج میں بہت سی برائیوں کو بھی جنم دیا ہے، ان جلسوں کی وجہ سے آئے دن کسی نہ کسی کانڈ کی خبر پردۂ سماعت تک ٹکرا ہی جاتی ہے، جلسے جلوس پہلے بھی ہوتے تھے مگر ان جلسوں کا وقار الگ تھا، میں نے خود ان جلسوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ آدمی جب جلسہ سننے کے لیے جاتا تھا تو جب تک صلاۃ و سلام نہ ہوجائے اپنی جگہ وہ نہیں چھوڑتا، اور جب جلسوں سے اس کی واپسی ہوتی تھی تو کسی نہ کسی بتائی گئی بات پر وہ عمل پیرا ضرور ہوتا تھا، آج سے تقریباً دس پندرہ سال پہلے جو جلسے ہوتے تھے وہ تبلیغ کا ایک ذریعہ تھے مگر جو جلسے آج ہورہے ہیں وہ سوائے ذریعۂ تضحیک کے اور کچھ بھی نہیں.
چلتے چلتے میں ذمہ داران قوم، ائمہ ملت، رہنماے مذہب و مسلک سے گذارش کرتا چلوں کہ آپ قوم کو سمجھائیں کہ اس طرح غیر ضروری جلسوں کا انعقاد یقیناً کوئی فائدہ پہنچانے والا نہیں، یقیناً رواجی جلسوں کے قیام سے صرف اور صرف قوم کا سرمایہ ضائع ہوتا ہے، اب جلسوں اور جلوسوں پر دھیان دینے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں، بلکہ اب علاقائی مدارس، اسکول، ہاسپٹل، اور دیگر ضروری سہولیات پر علاقے کے ہر فرد کو نظر کرنے کی سخت ضرورت ہے، جو پیسے آپ جلسوں اور جلوسوں پر، پیران کرام خطبا و شعرا کے نذرانوں پر خرچ کرتے ہیں اب وہی پیسے آپ علاقائی مکاتیب و مدارس پر خرچ کریں. 
آج علاقائی تعلیم گاہوں میں تعلیم کے نام پر صرف اور صرف ڈھونگ رچا جارہا ہے، اس کی کسی کو خبر نہیں
اس پر سختی کے ساتھ دھیان دیں، علاقائی قابل علما کی خدمات اپنے ہی علاقے میں لیں، اور انہیں اچھی تنخواہیں ادا کریں، تاکہ وہ فکر معاش سے دست بردار ہوکر علاقے کے نونہالوں کے روشن مستقبل کے لیے جد و جہد کرسکیں. 
یاد رکھیں اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تعلیم تو حاصل کرنی ہی پڑے گی، پیٹ کاٹ کر تعلیم کے لیے بجٹ تو تیار کرنا ہی ہوگا، پیروں اور مقررروں اور بازاری شاعروں کے نذرانے تو بند کرنے ہی پڑیں گے، تب کہیں جا کر آپ کامیابی کی منزل کا راستہ دیکھ سکیں گے، ورنہ یاد رہے ہماری اور آپ ہی کی طرح ہماری اولادیں بھی، مزدوری کرکے اپنا گذر بسر کرنے پر مجبور ہوں گی، اور غلامی، جی حضوری، کفش برداری ہی ہمارا مقدر بن کر رہ جائے گا.

صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : ایک سفر لکھنؤ سے بریلی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے