ایک سفر لکھنؤ سے بریلی

ایک سفر لکھنؤ سے بریلی

غلام آسی مونس پورنوی
خادم التدریس و الافتاء دارالعلوم انوار مصطفےٰ لکھنؤ

تقریباً پچھلے تین مہینوں سے دل بڑا بے چین تھا، قرار قلب کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے، کون کون سی تدبیریں نہیں کیں، مگر کہتے ہیں نہ،کہ دل تو اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا، پچھلے ایک ہفتے سے دل کی دھڑکنوں نے کچھ زیادہ ہی شور و غوغا مچا رکھا تھا، حال ایسا ہوگیا تھا کہ جاگوں تو قرار نہیں سوؤں تو سکون نہیں، جہاں جاؤں وہاں بے قراری…. قرار کا پرندہ ایک عجیب کلفت وگھٹن میں پھڑپھڑاتا مگر ہر بار اسے ناکامی ہی ہاتھ لگتی، اتفاق سے پرسوں یعنی 31 جولائی 2021 کو اپنے کمرے کے سامنے بیٹھ کر نماز عصر کے بعد چائے نوشی کر رہا تھا کہ ہمارے دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا افضل رضا نوری صاحب کی آمد ہوئی،
انھوں نے آتے آتے ہی ایک مژدۂ جاں فزا سنایا،
کہ حضرت مولانا محمد فخرعالم رضوی صاحب استاذ الجامعۃ العظمتیہ نصیرالعلوم باز بیریا بائسی پورنیہ بہار اپنے کچھ احباب کے ساتھ مرکز اہل سنت بریلی شریف میں جلوہ گر ہیں، ان کا فون آیا تھا، وہ آپ کو فون ملاتے ملاتے پریشان ہوگیے مگر آپ کا نمبر نہ مل سکا، اسی لیے مجھ سے کہا ہے کہ آپ بریلی شریف چلیں، اتنا سننا تھا میری تو بانچھیں کھل اٹھیں، اچانک ذہن کے دریچے کھلے کہ یار
جب شہر محبت میں زیر تعلیم تھا، ہلکی سی پریشانی ہوتی درگاہ اعلی حضرت پہنچ جاتے، اعلی حضرت کی بارگاہ میں دکھڑا سناتے، پیر و مرشد کے دربار میں حاضر ہوکر سلام عرض کرتے، ان کے رخ منور سے اپنے آپ کو منور کرتے، کچھ ہی لمحات میں غموں کا مداوا ہوجاتا. مگر میں کیسا ابھاگا ہوں کہ پیر و مرشد کے پہلے عرس کے بعد اتنے قریب میں رہتے ہوئے بھی درگاہ مرشد پر حاضر نہ ہوسکا، خیر اسی وقت تہیہ کیا اور کچھ ہی دیر میں مولانا افضل رضا نوری کے ہم راہ شہر رضا کے لیے روانہ ہوگئے، پانچ گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم لوگ اس شہر میں حاضر تھے، جس شہر کو شہر محبت وعقیدت کا تمغہ حاصل ہے، جس دربار میں عشق رسالت کی جلوہ گری کے آثار شش جہات میں نظر آتے ہیں، جس شہر کو اکابرین نے شہر بخارا سے تعبیر کیا ہے، جس شہر میں اکابرین نے جوتیاں تک پہننا گوارا نہ کیا، جو شہر پوری دنیا میں ناموس رسالت کی پہرے داری کے حوالے مشہور ہے، جس شہر میں امام المتکلمین سرکار علامہ نقی علی، امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت جیسا عاشق صادق، مفتی اعظم جیسی ذات با برکات، حجۃ السلام جیسا سپہ سالار امت، مفسرت اعظم جیسی باکمال ہستی، صدرالعلماء جیسے محدث، تاج الشریعہ جیسے جلیل القدر عالم و مفتی، محدث و مفکر، مدبر و محقق، مؤلف ومصنف، مرتب ومترجم، مفسر ومحشی موجود ہیں.

تقریباً رات کے گیارہ بجے ہم لوگ پہنچ چکے تھے، اسٹیشن سے قریب موجود نوری مسجد میں ہم لوگوں نے نماز پڑھی، بعد نماز وہیں کے ایک ہوٹل میں کھانا کھایا، بعدہ حضرت مولانا فخر عالم صاحب رضوی سے رابطہ کیا، تو پتہ چلا کہ آپ محلہ گلاب نگر میں حضرت بشیر میاں رحمۃ اللہ کے سامنے والی مسجد، جس میں حضرت مولانا شرف الہدی صاحب امام ہیں، کے ہاں قیام فرما ہیں.

مولانا موصوف اور مفتی غلام ربانی صاحب اشہر پورنوی نے اصرار کیا کہ آپ یہاں تشریف لائیں، میں نے بتایا… فی الحال تو دل کافی مضطرب ہے پہلے سرکار اعلی حضرت اور مرشد برحق کی بارگاہ میں حاضری کے لیے جا رہا ہوں، وقت موافق رہا تو قیام ان شاء اللہ آپ ہی کے پاس ہوگا،… بعدہ ہم لوگ درگاہ اعلی حضرت کے لیے روانہ ہوئے، درگاہ پر پہنچتے پہنچتے رات کے تقریباً گیارہ بج چکے تھے، درگاہ رضا کا ماحول اتنا پرسکون تھا، کہ پہنچتے پہنچتے ہی مضطرب دل کو دولت سکون سے آشنائی ہوئی، قرار دل کے پرندے کو کھلے آسمان کی آب و ہوا نے مست و مگن کرڈالا، ہم لوگوں نے تربت رضا کے پائنتی پر بیٹھ کر فاتحہ پڑھی، کافی دیر تک بیٹھ اعلی حضرت کی بارگاہ اپنا دکھڑا سناتے رہے، جب تسکین کا حصول ہوا، پھر اپنے اور احباب کا سلام عرض کیا بعدہ بارگاہ مرشد میں حاضری دی، افق نین پر گھٹا ٹوپ بادلوں نے اپنا پہرہ لگا دیا تھا، آنکھوں نے موسلا دھار بارش شروع کردی، زخم دل کو مرہم فراہم ہوگیا، وقت کافی ہو چکاتھا، کچھ لوگ شاید درگاہ مقدس کی قفل سازی کی تیاری کررہے تھے، اس لیے ہم لوگ فاتحہ و سلام کے بعد باہر آئے، اور رکشہ لے کر گلاب نگر کے لیے روانہ ہوگئے.

ادھر حضرت مولانا فخر عالم رضوی صاحب، مفتی غلام ربانی صاحب، اور مولانا اقلیم رضا صاحب بار بار فون سے لوکیشن دریافت کررہے تھے، بالآخر دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد ہم لوگ گلاب نگر پہنچ ہی گئے، پہنچتے پہنچتے ہی مفتی غلام ربانی صاحب اشہر، مولانا فخر عالم صاحب، مولانا اقلیم صاحب و دیگر حاضرین سے یکے بعد دیگر مصافحہ و معانقہ کیا، پھر ہم لوگ مولانا اقلیم صاحب کے حجرے میں پہنچے، سامان رکھا، پھر سلسلہ شروع ہوا گفتگو کا….
مولانا فخر عالم صاحب اور مفتی غلام ربانی صاحب نے کئی موضوعات چھیڑ دیے، ان موضوعات میں مرکزی موضوع، سیمانچلی مدارس کی زبوں حالی اور اسباب، اور سیمانچل میں غیر ضروری جلسوں کی کثرت رہا….
درمیان گفتگو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا. جب گھڑی پر نظر پڑی، تو گھڑی کی سوئیاں شب کے دو بجا رہی تھیں. سفر کی تھکاوٹ کا غلبہ ہو ہی رہا تھا، اور نماز فجر بھی ادا کرنی تھی اس لیے ہم لوگوں نے اپنی اپنی جگہ لی، نیند نے اپنے کرم کا شامیانہ تان کر اپنی آغوش میں کب لے لیا پتہ ہی نہیں چلا. اذان فجر کی خوش الحانی نے زنجیر نوم کو توڑا. بیدار ہو کر ضروریات سے فراغت کے بعد نماز فجر باجماعت ادا کی پھر سامنے ہی موجود حضرت بشیر میاں رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دی، بعدہ چائے ناشتے سے فارغ ہوکر حضور صدرالعلماء محدث بریلوی سرکار تحسین رضا خان علیہ الرحمہ کی بارگاہ پر حاضری کا قصد کیا.

بذریعۂ رکشہ ہم لوگ صدرالعلماء کی بارگاہ پر پہنچے سلام عرض کرنے کے بعد فاتحہ وغیرہ سے فراغت حاصل کرکے، ہم لوگ درگاہ اعلی حضرت کی طرف لوٹے، درگاہ پہنچ کر معلوم کیا کہ سرکار قائد ملت جانشین سرکار تاج الشریعہ ہیں کہ نہیں، آفس میں بتایا گیا کہ سرکار ہیں. ابھی کچھ ہی دیر میں مرکزی دالافتاء میں تشریف لائیں گے. ملاقات ہوجائے گی، دل کو تسلی ملی، تبھی اچانک، استاذ گرامی وقار استاذ الاساتذہ فخر افتاء و صحافت جن کی کرم فرمائیوں کی بنیاد پر میں مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا میں داخل ہوا، یعنی حضرت علامہ مفتی عبدالرحیم نشتر فاروقی صاحب قبلہ مدیر ماہ نامہ سنی دنیا کا خیال آیا، جب آپ کو فون کیا تو آپ نے فرمایا دارالافتاء میں ہی ہوں اوپر آجائیں، اوپر پہنچا، سلام پیش کیا.

حضرت نے جواب دے کر بیٹھنے کو کہا، پھرکافی دیر تک گفتگو ہوئی. حضرت نے چائے منگوائی، ابھی چائے نوش کر ہی رہا تھا کہ جانشین تاج الشریعہ حضور قائد ملت کی جلوہ گری ہوئی. سبھی حاضرین برائے تعظیم کھڑے ہوگئے، جملہ حاضرین نے یکے بعد دیگرے حضرت سے ملاقات کرکے دست بوسی کی، یقینا اس منظر کو دیکھ کر سرکار تاج الشریعہ یاد آگئے، وہی بارعب چہرہ، وہی جلال، وہی حسن و چمک، مریدین سے وہی طرق ملاقات، وہی احوال پرسی جو سرکار تاج الشریعہ کے اندر موجود تھی، حضور قائد ملت کے اندر بھی وہی کمالات نظروں نے ملاحظہ کیا.
پھر حضرت نے مرید فرمایا، لوگ مرید ہوکر لوٹنے لگے، تبھی حضرت کے پاس کچھ فتاوے تصدیق کے لیے پیش کیے گئے، حضرت نے ان تمام فتاؤوں کو پڑھ کر دستخط فرمایا… اس منظر کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جانشین تاج الشریعہ نہیں بل کہ خود سرکار تاج الشریعہ بہ نفس نفیس مرکزی دالافتاء میں موجود ہیں اور اپنے علمی فیضان سے خلق خدا کو فیضاب فرمارہے ہیں.
تبھی میری سمجھ میں آیا کہ حضور قائد ملت سے لوگ حسد کیوں رکھنے لگے ہیں، اصل میں وجہ یہ ہے کہ رب نے اپنے محبوب کے طفیل حضور قائد ملت کو وہ علوم و کمالات عطا فرمایا ہے کہ حاسدین کی رسائی وہاں تک ممکن ہی نہیں.

اللہ جانشین تاج الشریعہ کا اقبال اور بلند فرمائے، کہنے کو تو لوگ کچھ بھی کہتے ہیں مگر حقانیت سرچڑھ کر بولتی ہے، حضور قائد ملت کو سرکار تاج الشریعہ نے اپنا جانشین ایسے ہی مقرر نہیں فرمادیا، بل کہ سرکار تاج الشریعہ جانتے تھے کہ جانشینی کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں وہ تمام چیزیں حضور قائد ملت کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہیں، آپ کے فتاوے ملاحظہ کریں تو آپ کو آپ کے فتاوے میں دلائل و براہین کے انبار قرآن و حدیث آثار صحابہ، واقوال ائمہ سے لبریز نظر آئیں گے.
اور اگر قائدانہ حیثیت سے حضور قائد ملت کو دیکھیں تو زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں، حکومت کے ذریعے لائے گئے سی اے اے، این آر سی، مدارس میں جن گن من کی لزومیت، اور گستاخ رسول کے خلاف دور کووڈ میں اسلامیہ انٹر کالج کا احتجاجی ویرودھ ملاحظہ کریں.
جس وقت ان مظالم کے خلاف پورے ہندستان کی خانقاہیں خاموش تھیں اہلیان مدارس اپنی اپنی کرسی اور تنخواہیں بچا رہے تھے، اس وقت حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کارنامہ حضور قائد ملت نے تن تنہا انجام دیا.

الغرض یہ کہ قوم و ملت کو جیسا قائد چاہیے تھا اللہ نے ویسا ہی قائد، حضور عسجد رضا خان کی شکل میں قوم کو عطا فرمایا.

تقریباً ڈیرھ گھنٹے کی نششت کے بعد ہم لوگوں نے اجازت طلب کی، کیوں کہ الوداعی حاضری بھی باقی تھی اورٹرین کا وقت بھی ہورہا تھا، پھر ہم لوگوں نے جلدی جلدی الوداعی حاضری دی اور نکل پڑے، راستے میں رضوی دارالعلوم مظہر اسلام کے پرنسپل حضرت علامہ ڈاکٹر فرقان رضا نوری سے بھی ملاقات کی. وہاں بھی دس پندرہ منٹ بیٹھ کر عقود رسم المفتی کی تشریحات و توضیحات جو ناچیز کی تصنیف ہے اور ٹائپنگ کے مراحل طے کررہی ہے، پر تبادلۂ خیال ہوا، وقت کی قلت دامن گیر تھی، کیوں کہ محب گرامی حضرت مولانا نوید رضا صاحب سے ملاقات کا وعدہ بھی کیا تھا، حضرت سے اجازت طلب کرنے کے بعد ہم لوگ سٹی کے قریب
حضرت مولانا نوید رضا صاحب کی مسجد میں حاضر ہوئے، کچھ دیر وہاں علاقے کے مدارس و مساجد کی حالت پر تبادلۂ خیال ہوا، موصوف نے پندرہ منٹوں میں ہی لاجواب مہمان نوازی کی، اللہ انھیں اس کا صلہ عطا فرمائے آمین… پھر ہم لوگ تقریباً 30:3 بجے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے، جوں ہی اسٹیشن پہنچے، اس کے دس منٹ کے بعد گاڑی آئی اور دس بجے رات کو ہم سبھی لکھنؤ پہنچ چکے تھے.
***
غلام آسی مونس پورنوی کی یہ نگارش بھی پڑھیں : گانوں کی طرز پر نعت رسول ممنوع کیوں؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے