نفرتوں اور سازشوں کا طوفان ! ہوشیار رہیں مسلمان

نفرتوں اور سازشوں کا طوفان ! ہوشیار رہیں مسلمان

مفتی محمد عبدالرحیم نشترؔ فاروقی
مدیرماہنامہ سنی دنیا و مفتی مرکزی دارالافتاء، بریلی شریف

اٹھو وگر نہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ملک میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ذریعہ پھیلائی گئی مذہبی منافرت اس وقت پورے عروج پر ہے، جس کے سبب دن بدن حالات سنگین اورنازک ہوتے جارہے ہیں، جب سے سیاسی گلیاروں میں ’’بھگواگمچھا‘‘ ڈال کرمسلمانوں کو ’’مارنے، کاٹنے اور گولی مارنے‘‘ والے اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان ہونے لگے ہیں، تب سےسرعام ہی نہیں بلکہ برسر اسٹیج بھی دھرم کانام لےکر مسلمانوں کو گالیاں دینے کا ایک مقبول ترین ٹرینڈ ساچل پڑاہے، آج کل جسے دیکھو گلے میں بھگوا کپڑا ڈال کر ہر گلی نکڑ پر برساتی مینڈھکوں کی طرح صرف مسلمانوں کے خلاف ’’ ٹرٹر‘‘ کرتا ہوا نظر آتاہے ’’ہندوخطرے میں ہے، ہندو جاگ گیا ہے، ملّے کاٹے جائیں گے، قرآن آتنک واد پھیلا رہا ہے، اسلام دہشت گردپیدا کر رہاہے، پیغمبر اسلام کافروں کو قتل کاحکم دیتے ہیں، گھر میں گھس کرمسلمان تمہاری بہو بیٹیوں کاریپ کریں گے‘‘وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کی سنگین زہر افشانی کرکے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کاماحول بنایا جا رہا ہے اور ان کو ’’گئوہتیا، دھرم پریورتن اور لوجہاد‘‘ جیسی کوئی بھی فرضی کہانی گڑھ کرمارا، پیٹا اورکاٹا جا رہا ہے، جس ملک کی آزادی کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا آج وہی ہمارا مقتل بنتا نظر آرہا ہے اوراسی سے ہمیں نکالنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ؎
جب پڑا وقت گلستاں پہ لہو ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
آج ملک کے کونے کونے میں، ہندو مہا سبھا، ہندو رکشا دل، ہندو جاگرن منچ، ہندو یوا واہنی جیسی ہزاروں فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کی سودا گری کرنےمیں لگی ہوئی ہیں، کیوں کہ نفرت کےاس کاروبار سے انھیں کئی طرح کےفائدے ہوتے دکھ رہے ہیں، ایک تو لوکل انتظامیہ پر ان کی دھاک بیٹھ جاتی ہے جس کے سبب پولیس والے انھیں داماد سے کم نہیں سمجھتے، جس کی آڑمیں’’اُگاہی‘‘ کادھندا خوب پھلتا پھولتا ہے، اپنے مفاد کے لیے کسی بھی معاملے کو ’’ہندومسلم‘‘ کارنگ دے کرسامنے والے کا جنازہ نکالنا بڑا ہی آسان ہوجاتا ہے اور قانون کے ہاتھ لمبے ہونے کے باوجود بھی ان غنڈوں کے گریبان تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ بعض اوقات تو قانون کے یہ لمبے ہاتھ اس ’’شبھ کاریہ‘‘ میں اپنی ’’سہبھاگیتا‘‘ نبھانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
دوسرے سیاسی گلیاروں میں ایسوں کی رسائی بہت جلد ہوجاتی ہے، جو جتنا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتاہے اس کاسیاسی قد اتناہی اونچا ہوجاتاہے اور اگر کوئی’’گولی مارو سالوں کو‘‘ جیسا سپرہٹ نعرہ لگادیا تو بس راتوں رات منسٹری اورکبینیٹ تک میں جگہ مل جاتی ہے، مطلب یہ کہ اس ’’بھگواگمچھا‘‘ اور ’’ہندو‘‘ شبد کی آڑمیں پرلے درجے کی غنڈہ گردی ’’سیوا‘‘ ہوجاتی ہے اور بڑے سے بڑا ناجائز کام’’ جائز‘‘ پھر تو آپ گئورکشا کے نام پر پشو تسکروں سے اُگاہی کیجئے، داداگیری کیجئے یا رنگداری! کوئی روک ٹوک نہیں اور اگر کبھی محلے کےکسی مسلمان سے تو تو میں میں ہو جائے تو بس اپنے مکان پر’’مکان بکاؤہے‘‘ لکھ دیجیے پھر دیکھیے، ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں گے کہ بے چارہ وہ مسلمان اَونے پَونے داموں میں اپنامکان بیچ کر بھاگتا ہوا نظر آئے گا، غرض کہ ۔ ع
سو طرح کا فائدہ ایک بھگوا دھارنے میں ہے
انھی سیاسی امیدوں اور دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کے حرص وہوس میں آج کل ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے بڑے زور و شور سے یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکوں اور غیر مسلم لڑکیوں کے درمیان شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، وہ کوئی پیار و محبت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت ہے، جس کا مقصد ہندو لڑکیوں کو پیار و محبت کے جال میں پھنساکر ان سے شادی کرنا اور بالآخر ان کو مسلمان بنانا ہے، جسے’’ لَوجہاد‘‘ کا اختراعی نام دیا جارہاہے، اس کے ساتھ ہی یہ تاثر دیا جارہاہے کہ مسلمان چاہے جنگ کے میدان میں ہو یا پیار کے میدان! ہرحال میں وہ صرف ’’جہادی‘‘ ہوتا ہے، جب کہ اس حقیقت کو پارلیامینٹ میں سابق ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ نے بھی تسلیم کیاہے کہ ’’ہندستان میں لوجہادجیسی کوئی چیز نہیں ہے‘‘ ایک سوال کے جواب میں وزیر جی کشن ریڈی نے بھی لوک سبھا میں کہا تھا کہ ملک میں’’ لو جہاد‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ابھی تک کسی بھی ایجنسی نے اس سلسلہ میں کوئی اطلاع یا رپورٹ نہیں دی ہے، نہ ہی مرکز یا ریاستوں نے کوئی ایسا سروے کرایا جس سے پتا چل سکے کہ ملک میں ’’لو جہاد ‘‘ کا کوئی معاملہ معرض وجود میں آیا ہے، ان سبھی حقائق کے باوجود بی جے پی کی زیر اقتدار کئی ریاستیں اس فرضی ’’ لوجہاد‘‘ کے خلاف قانون بناچکی ہیں اور کچھ اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں، یہ طرز عمل اس حقیقت کو واضح کرتا ہےکہ یہ صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی ایک گندی سازش ہے اور کچھ نہیں، لَوجہاد کا فرضی شوشہ سب سے پہلے کچھ موقع پرست سیاسی لیڈروں نے چھوڑا ،پھر میڈیا نے اس مفروضے کو نمک مرچ لگا کر اس قدر اچھالا کہ آج ملک کا ہر تیسرا ہندو ’’لوجہاد‘‘کے "فسانے" کو حقیقت تسلیم کرنے لگاہے، جب کہ حقیقت سے اس کا دور دور کابھی کوئی واسطہ نہیں۔
مسلم لڑکوں کو بربادکرنے کاطریقہ:
نفرت وعداوت کے ان سوداگروں کے ذریعہ نفرتوں اور سازشوں کا ایساجال بُنا گیا ہے کہ کوئی بھی مسلمان لڑکا یا لڑکی ان کے دست برد سے محفوظ نہیں، مسلم لڑکوں اورلڑکیوں کو محبت کے دام تزویر میں پھانس کر ان کی زندگی تباہ و برباد کرنے کے لیے ہندو لڑکوں اور لڑکیوں کو ٹریننگ دی جارہی ہے، اس کام کو پلاننگ کےتحت منظم طریقے سے انجام دینے کے لیے موبائل آپریٹر کمپنیوں سےمسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے نمبرحاصل کیے جاتے ہیں، پھر مسلم لڑکوں سے ہندو لڑکیاں اورمسلم لڑکیوں سے ہندولڑکے موبائل پر رابطہ کرتے ہیں، ان سے پیار و محبت کی باتیں کرتے ہیں، رفتہ رفتہ ان سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ملاقاتیں کرتے ہیں، ساتھ میں گھومتے پھرتے ہیں اور انھیں اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں۔
کچھ مسلم لڑکوں کو تو ہندو لڑکیوں سے دوسری تیسری ملاقات ہی میں’’لَوجہاد‘‘ کی فرضی کہانی بنا کر مذکورہ فرقہ پرست تنظیمیں اس قدر توڑتی پھوڑتی ہیں کہ وہ برائے نام ہی زندہ رہ پاتاہے اور کچھ مسلم لڑکے ان ہندولڑکیوں کے دام محبت میں اس قدر گرفتار ہو چکے ہوتے ہیں کہ انھیں لے کرگھر سے فرار ہوجاتے ہیں، پھریہ تنظیمیں اپنے من گڑھت ’’لوجہاد‘‘ کا شور و غوغا کر کے آسمان سر پہ اٹھا لیتی ہیں، لڑکوں کے گھر پر یہ فرقہ پرست تنظیمیں حملہ کرتی ہیں، مارپیٹ، لوٹ پاٹ سب کرتی ہیں، ماں باپ، بھائی بہن گھر چھوڑ کرجان بچانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دور کے رشتہ دارتک محفوظ نہیں رہتے، پولیس والے اس معاملے میں ’’شیرببر‘‘ بن جاتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بوڑھے ماں باپ پر ایسی لاٹھیاں برساتے ہیں جیسے وہ انسان نہیں پتھر ہوں اور جب یہی ’’بھگوادھاری‘‘ان پولیس والوں کی دوڑا دوڑا کر ’’مرمت‘‘ کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہ ’’بھیگی بلّی‘‘ بن جاتے ہیں۔
ان پولیس والوں کے ڈرسے لڑکے اور اس کےگھر والوں کو مہینوں در بدر کی زندگی گزارنی پڑتی ہے، پھر پولیس انھیں زبردستی ’’دھرم پریورتن ‘‘ کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے اور لڑکی کوناری نکیتن بھیج دیاجاتا ہے جہاں سے پھر وہ اپنے اگلے شکار پر رواں دواں ہوجاتی ہے، جب کہ مسلم لڑکا سالہا سال اس ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتا ہے اور اپنی بربادیوں کاماتم کرتاہے، ان پر مزید کئی طرح کے دیگر سنگین مقدمے بھی درج کردیے جاتے ہیں، جس سے ان کی رہائی کے تقریباً سبھی راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔
ممکن ہے اس میں کچھ جوڑے سچ مچ پیارکے چکر میں پڑجاتے ہوں، لیکن انھیں اور ان کے گھروالوں کو بھی فرقہ پرستوں کے اس من گڑھت ’’لوجہاد‘‘ کی چکی میں پس کرمشق ستم بننا ہی پڑتا ہے، لڑکی ہزار صفائی دے، لاکھ ویڈیو جاری کرے کہ وہ خود اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ بھاگی ہے اور یہ کہ وہ عاقل، بالغ ہے اوراپنا بھلا برا بہ خوبی سمجھتی ہے۔
مسلم لڑکیوں کوبربادکرنے کاطریقہ:
مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانس کر ان کی زندگی تباہ و برباد کرنے یا ان کادھرم پریورتن کرانے کے لیے بجرنگ دل جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں ہندو لڑکوں کوباقاعدہ ٹریننگ دیتی ہیں، انھیں ایسے اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کو ٹارگیٹ کرنے کو کہا جاتاہے جہاں مسلم لڑکیاں زیادہ پڑھتی ہیں، انھیں کتنی مسلم لڑکیوں کو پھنسانا ہے اس کا ہدف دیا جاتا ہے اور پکڑے جانے پران کو ہر طرح کی قانونی و معاشی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے بھی مہیا کرائے جاتے ہیں۔
اس پلاننگ کے تحت ہندو لڑکے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں مسلم لڑکیوں کو منتخب کرتے ہیں، ان سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں، موبائل نمبر شیئر کرتے ہیں، انھیں اعتماد میں لے کر ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں اورجب اپنی فرضی محبت کی سچی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انھیں لے کر ایک دن گھر سے فرار ہوجاتے ہیں، بے چارے ماں باپ، بھائی بہن کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتے، سماج میں طرح طرح کی باتیں اورطعنہ زنی کی جاتی ہے، موجودہ حالات پر گہری نظررکھنے والے ایک فرد کے مطابق :کچھ ہندو نوجوانوں کے پاس گاؤں کی مسلم لڑکیوں کے نمبرات ہیں، جن کے ذریعہ وہ انھیں پھانستے ہیں، پیار کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے ان کا دین، ان کی عزت، ان کی آبرو چھین لینے کے بعد انھیں کہیں کا نہیں چھوڑتے، ایسے حالات میں سماج کے ڈر سے ماں باپ بھی اپنی مظلوم لڑکیوں کو اپنانے سے کتراتے ہیں، اس کے بعد وہ لڑکی کہیں کی نہیں رہتی، یا تو خود کشی کرلیتی ہیں، یا پھر جسم فروشی کے دلدل میں اتر جاتی ہیں۔
ہندو جاگرن منچ کے صدر راجو چوہان کے مطابق ہندو تنظیموں کے ذریعہ ہندو لڑکوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے اسکولس، کالجز، یونیورسٹیز، آفیسیز اور کمپنیز میں مسلم لڑکیوں سے میٹھی میٹھی باتیں کریں، خود انھیں کسی پریشانی میں ڈال کر ان سے جھوٹی ہم دردی کا مظاہرہ کریں، ان کی مدد کا ڈرامہ کرکے ان کایقین و اعتماد حاصل کریں، پھر رفتہ رفتہ انھیں پیار و محبت کے جال میں پھانسیں اور اس حد تک ان کا برین واش کریں کہ وہ اپنے ماں باپ، اپنا گھر بار، یہاں تک کہ اپنا مذہب بھی چھوڑنے کوتیار ہوجائیں۔(جرنلسٹ پونم پانڈےکی ایک رپورٹ پرمبنی )
اس وقت ’’لوجہاد-لوجہاد‘‘ چلا کر سینہ پیٹنے والی یہ فرقہ پرست تنظیمیں دور دراز کے شہروں میں مسلم لڑکیاں بھگا کر لے جانے والے ان ہندو لڑکوں کو چھپنے کی محفوظ جگہ فراہم کرتی ہیں، ان کی حفاظت کی ذمہ داری لیتی ہیں، چھ چھ مہینے تک کے لیے ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے کا انتظام کرتی ہیں، ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے کا انعام دیتی ہیں تاکہ دوسرے ہندو لڑکے بھی مسلم لڑکیوں کو اپنے جھوٹے پیار کے جال میں پھانسیں، پھر یہ ہندو تنظیمیں مسلم لڑکیوں سے اس طرح پیش آتی ہیں کہ یہ انھیں اپنا مسیحا سمجھنے لگتی ہیں بعد میں جب ان کا اصلی چہرہ سامنے آتاہے تب لڑکیاں ان کے طلسم سے باہرآتی ہیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، نتیجے کے طور پر لڑکیاں بدنامی اور ’’ڈپریشن‘‘ کا شکار ہو ایک زندہ لاش میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اہل خاندان کی بھی عزت و عظمت اور وقار و اعتبار کی دھجیاں اڑجاتی ہیں۔
آئے دن اخبارات کی سرخیاں بننے والی مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں کوئی اتفاقی نہیں بلکہ اِسی خطرناک مہم کاحصہ ہیں، ہندو انتہا پسند تنظیمیں سرعام ہندو نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو اپنی طرف مائل کریں اور انھیں پیار و محبت کے جال پھانس کر ان سے شادی کریں، یعنی ’’لوفساد‘‘ کے لیے یہ تنظیمیں خود ہندو لڑکوں کو ورغلارہی ہیں اور’’لوجہاد‘‘ کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑ رہی ہیں، ان تنظیموں پر’’ چور مچائے شور‘‘ کی کہاوت صادق آتی ہے۔
گزشتہ سالوں میں بنگلور اور وجے پور کے رجسٹرار آف میریج کے دفترمیں نوٹس بورڈ پر ایسی درخواستیں چسپاں دیکھی گئیں، جن میں کئی مسلم لڑکیوں نے غیر مسلموں کے ساتھ شادی کی درخواست دی تھیں، اسی طرح پچھلے مہینے مہاراشٹر خاص کر ممبئی میں غیرمسلموں سے شادی کرنے والی مسلم لڑکیوں کی ایک لمبی فہرست سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جو پوری امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ اورتازیانۂ عبرت ہے، اگر ہم اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور اپنی نسل نَو کو ان خطرناک سازشوں سے نہ بچایا تو آنے والے دنوں میں ہمارا وجود بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔
یہ بات بھی حقائق پر مبنی ہے کہ مسلم سے ہندو بنی مسلم لڑکیاں ہندوؤں کے لیے کبھی ’’ہندو‘‘ نہیں بن پاتیں، انھیں ’’شدر‘‘سے بھی نیچ اور اچھوت مانا جاتا ہے، انجام کار کوئی لڑکی ’’رقیہ‘‘ سے ’’مسکان‘‘بن کر بھی در بدر کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے تو کوئی ’’شبینہ‘‘ سے ’’انّو‘‘ بن کر بھی اپنی بد قسمتی کوروتی ہے ۔
چارسال قبل ’’فردوس بانو‘‘ نے ایک ہندو لڑکے کے پیار میں پھنس کر اس سے شادی کی تھی، لڑکے نے تین سال تک اسے استعمال کیا پھر مارپیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا، ان تین سالوں کے درمیان اس پر طرح طرح کے ظلم و ستم کیے گئے، جہیز لانے کی فرمائش کی جاتی، مارا پیٹاجاتا، اس دوران اسے ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی، جس پر وہ ہندو لڑکا بہت ناراض ہوا کہ تم نے لڑکی کیوں پیدا کی؟ آج کی تاریخ میں’’فردوس بانو‘‘ بھی اپنی نافرمانیوں، نادانیوں اور بربادیوں پرمرثیہ خوانی کر رہی ہے۔
اس صورت حال کاذمہ دارکون؟
اسلام کی بنیادی تعلیم و تربیت ہر مسلمان کے لیے ایک مضبوط حصار کی حیثیت رکھتی ہے جو ضلالت و گم راہی کی تیز و تند آندھیوں سے آہنی دیوار بن کر اس کی حفاظت و صیانت کرتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس! کہ آج کے مسلم والدین عموماً جس اہتمام اور دل چسپی کا مظاہرہ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر کرتے ہیں اس کا عشرعشیر بھی دینی تعلیم پر نہیں کرتے، بعض لوگوں نے تو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہلانے کے لیے ’’روشن خیالی‘‘ کی ایسی بھیانک روش اختیارکی جس کی’’ منحوس روشنی‘‘ نے ان کا اور ان کی نسل نو کا مستقبل بھی تاریک کر دیا ہے۔
ایسے لوگ اسلامی تعلیم و تربیت کو دقیانوسی اور قدامت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل بے حیائی اور بے راہ روی یہاں تک کہ ارتداد کی پر خطر راہ پر گام زن ہے، رہی سہی کسر موبائل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی، انٹرنیٹ وہ بلا ہے جو گھر بیٹھےکسی گوشہ نشین کو بھی عریانیت و فحاشی اور بدکرداری کی آگ میں جھونک سکتاہے چہ جائےکہ ایک عام نوجوان کو جو ہمیشہ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اختلاط میں رہتا ہو، نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اختلاط ویسے بھی’’آگ اور پیٹرول‘‘ کی مانند ہے، اس پر مستزاد یہ کہ گناہوں کی دعوت دیتی انٹرنیٹ کی دنیا ان کی مٹھی میں موجود ہے جو ان کی شہوانی خواہشات کو دو آتشہ کر دینے کے لیے کافی ہے، لہٰذا ایسی صورت حال کے لیے والدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں، ذمہ دار ارباب علم و دانش اور اصحاب فکر و فن کے ساتھ علما و مشائخ بھی ہیں جنھوں نے قوم و ملت کی اصلاح فکر و عمل کا فریضہ کماحقہ انجام نہیں دیا، الاماشاءاللہ۔
نسل نو کو اس ارتدادی مہم سے کیسے بچائیں؟
ایسے میں ان فرقہ پرستوں سے مسلم لڑکیوں کی عزت و آبرو کو بچانا اور ان کو ارتداد کے قعر مذلت میں گرنے سے روکنا اہم مسئلہ بن گیا ہے، اس سلسلے میں ہمارے ائمہ مساجد بھی کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں، ہر جمعہ میں اصلاح معاشرہ کے کسی نہ کسی موضوع پر سنجیدہ خطاب کریں، خاص کر ایمان و کفر، عقیدۂ توحید و رسالت اور فرقہ پرستوں کی آج کی اس خطرناک مہم کے بارے میں قوم کی نسل نو کو ضرور باخبر کریں، اس کے نقصانات پر بھر پور روشنی ڈالیں، دنیا و آخرت کی بربادیوں اور اس کی ہولناکیوں سے آگاہ کریں۔
مسلم والدین بھی اپنی نسل نو کو اس ارتدادی مہم کے زہر ہلاہل سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی بچیوں کو اسلامی پردے کا پابند بنائیں، ان میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کی حفاظت کا جذبہ پیدا کریں، ان کے دلوں میں اللہ و رسول کا مقام و مرتبہ اور ان کی عزت و عظمت پیدا کریں، ایمان و اسلام کو ان کے دلوں میں راسخ کریں، انھیں خواتین اسلام کے پاکیزہ واقعات سنائیں، اپنے سبھی گھر والوں کو جمع کر کے کسی اصلاحی کتاب کا درس دیں یا کسی سنجیدہ مقرر کی تقریر سنیں، اسکول، کالج، یونی ورسٹی اور ٹیوشن سینٹر میں پڑھنے والی لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی کوشش کریں، ان کے آنے جانے پر بھی گہری نظر رکھیں، حتی الامکان انھیں غیر مخلوط تعلیم گاہوں میں تعلیم دلائیں، انھیں تعلیمی ضرورت کے لیے بھی کسی سہیلی کے گھر نہ جانے دیں، بہ وقت ضرورت ان کا موبائل نمبر اپنے ہی ڈاکومینٹ پر جاری کرائیں، ان کا موبائل بھی خود سے یا اپنے لڑکوں کے ذریعہ ریچارج کرائیں، ان کے ڈاکومینٹ کی فوٹو کاپی بھی خود سے ہی کرائیں۔
باقاعدہ ان کے اسکول، کالج، یونی ورسٹی اورٹیوشن کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہیں، گھر میں ان کو بھر پور توجہ دیں اورنرم روی کے ساتھ انھیں پیش آنے والے مسائل پر ان سے گفتگو کریں، انھیں اسلامی اخلاق وآداب اور عادات و اطوار سے مزین کریں، اپنے بچوں کو تنہائی میں اینڈرائڈ موبائل اور انٹرنیٹ نہ استعمال کرنے دیں، بہ وقت ضرورت سب کے سامنے استعمال کرائیں، کیونکہ آج نسل نو کی تباہی و بربادی میں انھی دونوں ذرائع کا بنیادی رول ہے، انھیں نرم لہجے میں غیر مسلموں کے دام محبت میں پھنس کر شادی کرنے والی ان مسلم لڑکیوں کے شرم ناک اور دردناک واقعات بتائیں جو نہ گھر کی رہیں نہ گھاٹ کی۔
جہاں تک دو الگ الگ مذہب کے پیروکاروں کے درمیان شادیوں کے مکروہ رجحان کا تعلق ہے تو وہ آج کل ہر مذہب کے نوجوانوں میں عام اورکم وبیش یکساں ہے، اس لیے اس کی وجہ سے صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا غلط اور ان پرظلم و زیادتی ہے، اس قسم کا غلط رجحان مخلوط تعلیم اور مغربی کلچر کے سبب ہر مذہب کی نوجوان نسل میں عام ہو رہا ہے، جسے روکنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ہمیں بین مذہب شادیوں کے راستے مسدود کرنے ہوں گے اور نوجوانوں کو ایسی شادیوں کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہوگا، یہ ہماری قومی، ملی اورسماجی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے