ساس اور بہو کے مقدس رشتے

ساس اور بہو کے مقدس رشتے

مظفر نازنین، کولکاتا 
ہندستانی تہذیب میں ساس اور بہو خاصی اہمیت کا حامل ہیں۔ ساس اور بہوکی شخصیت کافی عظیم ہے۔ وطنِ عزیز ہندستان میں ساس اور بہو کے رول پر مبنی بہت ساری فلمیں بنائی گئیں جن میں ساس اور بہو کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو منظرِ عام پر لایا گیا ہے۔ ان دونوں شخصیتوں میں generation gap ہوتا ہے۔ ساس اور بہو دونوں کا تعلق صنفِ نازک سے ہے۔ وطنِ  عزیز ہندستان میں ساس اور بہو کے مقدس رشتے کیوں پامال ہو رہے ہیں؟ ان رشتوں میں کیوں شگاف پیدا ہو رہا ہے؟ آخرہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان رشتوں میں تلخیاں، کشیدگی اور رسہ کشی ہو رہی ہیں؟ تجزیہ کرنے پر ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ آج معمولات زندگی میں advance technology کا بہت زبردست رول ہے۔ آج ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد اوج ثریا پر پہنچ چکے ہیں تو ظاہر ہے خانگی زندگی میں بھی اس کا اہم رول رہا ہے۔ شادی کے بعد جب اولاد پیدا ہوتی ہے تو عموماً لوگ اس کی پرورش بڑے ناز و نعم سے کرتے ہیں۔ کثیر الاولاد والدین جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوتے ہیں، عموماً لڑکیوں کی شادی کو مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بعض خاندانوں میں لڑکیوں کی شادی سے فارغ ہونے کے بعد لڑکے کی شادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان میں اکثر لڑکیاں لڑکوں سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی شادی کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسے خاندانوں میں لڑکے عمر کی ایک حد پار کر لیتے ہیں اور مناسب اور موزوں رشتے نہیں مل پاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ، سوجھ بوجھ رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں سمجھتے ہیں کہ انھیں والدین کی فرماں برداری کرنی چاہیے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ والدین کی اطاعت گذاری اور فرماں برداری ہونی چاہیے لیکن اتنی بھی نہیں کہ ان کی تعمیل بچوں کے  معقول کرئیر اور موافق رشتے پر حاوی ہو جائیں۔ مثلاً کسی اعلا تعلیم یافتہ لڑکی کی شادی کسی کم تعلیم یافتہ لڑکے سے۔ شہر میں پلی بڑھی لڑکی کی شادی کسی پچھڑے ہوئے گاؤں میں کر کے والدین سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرض اور ذمہ داری سے سبک دوشی حاصل کر لی تو اسے ان کی حماقت نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اور بچے اور بچیاں محض والدین کے اصرار پر ان کی عزت اور عظمت کی خاطر، ان کی فرماں بر داری اور تابع داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے سر تسلیم خم کریں تو فوری طور پر نہیں لیکن بعد میں انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ جب کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کی شادی کرتی ہے تو اکثر و بیش تر مائیں highly qualified, professional, career oriented بہو کے ساتھ حسین ترین جو آج کی فلمی ہیروئینوں جیسے انوشکا شرما، دیپکا پاڈوکون اور ایشوریا رائے کو مات دیں ایسی بہو کی خواہشیں کرتی ہیں۔ ہزاروں امیدیں وابستہ کرلیتی ہیں۔ وہ یہ تصور کرتی ہیں کہ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت میں اسے ذہنی اور جسمانی طور پر کافی محنت کرنی پڑی۔ اب شادی کے بعد بہو آئے گی تو ساس کی پوری خدمت کرے گی، ہر حکم بجا لائے گی۔ گویا ساس محترمہ مسند اقتدار پر براجمان ہوں گی اور بہو ان کی حکم کی تعمیل کرے گی۔ بیش تر ماؤں کا خیال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ادھر لڑکی جب سسرال جاتی ہے تو کچھ سنہرے سپنے سجا لیتی ہے۔ اسے ایک مشفق شوہر کی تمنا ہوتی ہے۔ ایک خوش گوار اور کامیاب ازدواجی زندگی کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے۔ یعنی شادی کے بعد ہی ساس اور بہو کے درمیان گیم شروع ہوتا ہے۔ اگر عملی زندگی سے موازنہ کریں تو اس گیم میں کرکٹ کے کھیل کی طرح ساس کا رول ”بلے باز“ کا، بہو کارول ’گیند باز“، شوہر کا رول امپائر، نند کا رول فیلڈر اور دیور یا جیٹھ کا رول wicket keep کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ساس کا رول ایسا ہوتا ہے کہ جیسے بہو کی پہلے ہی گیند میں ساس ایسی بلے بازی کرتی ہیں کہ LBW ہو جاتا ہے اور ساس کھیل سے آوٹ ہو جاتی ہیں۔ بعض خاندانوں میں شادی کے بعد ساس محترمہ کی طرف سے نادر شاہی حکم نازل ہوتا ہے. وہ بہو پر اپنی بیٹیوں کو فوقیت دیتی ہیں۔ اسے فیملی ممبر نہیں سمجھتی  ہیں۔ ان سے جسمانی کام، امورِ خانہ داری کی پوری توقعات وابستہ کر لیتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ہر لمحہ وہ چاہتی ہیں کہ بہو ان کی تابع دار اور پاس دار ہو۔ ساس محترمہ کی خواہش ہوتی ہے کہ بہو ان کے تمام رشتے داروں کی خاطر و مدارات میں ہمہ تن اور ہمہ وقت لگی رہے۔ ساس اور بہو کے مقدر شتے پامال ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ساس بیٹے کی شادی کے بعد خواہش کرتی ہے کہ بہو اور بیٹے کی ہر ادائیں ان کے مزاج کے عین موافق ہوں۔ نشست و برخاست، انداز گفتگو سب ان کے عین موافق ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہو میکے جانے کی خواہش کرے تو خسر صاحب ”پاسپورٹ“ ایشو کرتے ہیں۔ یعنی ”بیرون ملک‘ جانے کی اجازت مل گئی۔ اب ساس محترمہ اس ”پاسپورٹ“ پر ’ویزے‘ کی معیاد مقرر کر کے مہر ثبت کرتی ہیں اور ’پاسپورٹ‘ اور ’ویزے‘ کی formality کے بعد جس طرح ائیر پورٹ پر custom ہوتا ہے۔ اسی طرح سسرال سے میکے جانے میں custom officer کا رول نندیں ادا کرتی ہیں کہ کیا کیا سامان لے کر بہو میکے گئی۔ کون سے جوڑے اور کس برانڈ کا سامان خریدا، کون سے جوڑے زیب تن کر کے سفر کو روانہ ہوئی۔ سامان کس شاپنگ مال سے خریدا گیا۔ Cosmetics کس برانڈ کا تھا۔ ادھر تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ بیٹے نے شادی کی ہے۔ بہو اس کی ”شریکِ حیات“ ہے۔ اس نے نکاح (ایجاب و قبول) کی رسم ادا کر کے یا اگنی کے چاروں طرف سات پھیرے لے کر اپنی شریک حیات کو خوش رکھنے کی ذمہ داری لی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ بہو اس گھر کی ممبر ہے۔ گھر کے داخلی امور میں اسے مداخلت نہیں تو کم از کم مشورہ دینے کا حق تو ضرور ہے۔ لیکن اس کا یہ حق نہ دے کر اسے اپنی مرضی کے مطابق امیدیں لیں تو یہ کہاں تک مناسب ہے۔ ظاہر ہے بہو کا دماغی توازن تو خراب نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی mental asylum سے آئی ہوتی ہے۔ اس کا تعلق چاہے جس طبقے سے ہو وہ سمجھتی ہے کہ کس طرح اسے ذہنی طورپر پریشان کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی بیٹے اور بہو کہیں جانے مثلاً hill resort پر جانے کی خواہش کریں تو ساس محترمہ جو وزیر داخلہ کا رول نبھاتی ہیں اور ان کی خواہش پر قدغن لگاتی ہیں۔ نتیجے کے طورپر کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ آج بیش تر لڑکے IT Sector میں جاب کرتے ہیں. کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ جیسے بنگلور، حیدر آباد، دہلی، نوئڈا، غازی آبادی میں سروس کرنے والے بیٹوں کے ساتھ بہویں بھی رہتی ہیں۔ بیرون ممالک میں رہنے والے لڑکے والدین کے ساتھ نہیں رہ پاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قدیم، روایتی، مشترکہ ہندستانی خاندان کا تصور دم توڑ رہا ہے۔ اور ہر جگہ individual family کا تصور ہے۔بچوں کے اسکول ایڈمیشن میں individual family کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے individual family ہو تو بچے پر خاص دھیان دیا جاسکتا ہے۔ جو مشترکہ خاندان میں نا ممکن نہیں لیکن مشکل تو ضرور ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ شہر کولکاتا کے کسی بھی play group اسکول کے باہر نوجوان ماؤں کی خاصی تعداد ساس اور سسرالی رشتے داروں کے خلاف شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی دھرم اور مذہب سے ہو۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ خوش اخلاقی، شیریں بیانی، حسین اندازِ گفتگو اور بلند اخلاق کے ذریعہ ساس اور بہو کے رشتے پائیدار اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ بقول شاعر ؎

حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچہ میں وہ چٹک ہے
اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی مہک ہے
یا فیض احمد فیض کے شیریں بیانی سے متاثر ہو کر شاعر نے کہا تھا ؎
تجھ سے پہلے حکایت، حکایت نہ تھی
کھردرے پیکروں میں لطافت نہ تھی
تلخ باتوں میں اتنی حلاوت نہ تھی
اتنا چمکا نہ تھا گفتگو کا ہنر
اے میرے ہم سفر، اے میرے راہ بر
اندازِ سخن بہتر ہو تو کھردرے پیکروں میں لطافت ہو سکتی ہے۔ شیریں بیانی جس میں ظرافت اور لطافت کی چاشنی ہو تب ہی رشتے استوار ہو سکتے ہیں۔

Mobile + Whatsapp: 9088470916

ڈاکٹر صاحبہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں:اساتذۂ کرام کی عظیم شخصیت : حقیقت کے آئینے میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے