نظم:  "کشتی والو رکو" کا اجمالی جائزہ

نظم:  "کشتی والو رکو" کا اجمالی جائزہ

انتخاب و پیش کش: ظفر معین بلے جعفری

اردو دنیا کی ہر دل عزیز اور مقبول شخصیت، ممتاز اسکالر، بے مثل مترجم، معروف نقاد، معتبر محقق، 
ادب کے سینٸر استاد اور خوب صورت شاعر محترم جناب ستیہ پال آنند صاحب نے معروف شاعرہ، محققہ، تنقید نگار اور شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی صاحبہ کی ایک خوب صورت اور قابل توجہ نظم پر جان دار تبصرہ فرمایا ہے بلکہ اس تبصرے کو اگر اجمالی جائزے کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

نظم :۔ کشتی والو رکو
نظم نگار : ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی
تجزیہ نگار : ستیہ پال آنند
انتخاب کلام و پیشکش : ظفر معین بلے جعفری

آئیے پہلے  یہ منفرد تخلیق یعنی نظم  "کشتی والو رکو" ملاحظہ فرمائیے 

کشتی والو رکو

سیپیاں مونگھے موتی
وہیں رہ گئے 
میری چنری کی رنگت
سیہ پڑ گئی
میں نے کشتی کھیویے کو آواز دی
کتنے ترلے کیے، ہاتھ جوڑے بہت
سارے ساتھی درختوں نے
منت بھی کی
نیم تڑپی بہت
کیکروں نے کہا
سارے جامن بھی چیخا کیے
رات دن
گھاس پیروں میں پڑ کے
سسکتی رہی
اور کہتی رہی
کشتی والو سنو
ایک پل تو رکو
وقت کی اس، سسی کو
نہ چھوڑو 
یہاں
بیٹ کی وحشتوں میں درندے
بهی ہیں
نوچ لیتے ہیں جو
رستہ تکتی ہوئی
آنکھ بهی
ایسے وحشی پرندے بھی ہیں
جانے والو رکو
یوں نہ جاو ابھی 
مر نہ جائے کہیں
چنری والی یہیں

اور اب پیش خدمت ہے صاحب نظر نقاد، ممتاز شاعر، معروف محقق، بے مثل مترجم اور قابل احترام اسکالر جناب ستیہ پال آنند جی کا اس منفرد نظم پر قابل توجہ تبصرہ. اس اجمالی جاٸزے کے پانچ نکات ہیں جوکہ ہم معزز قارئین کے لیے بالترتیب پیش کر رہے ہیں. 

نمبر ایک: (یہ نظم فاعلن فاعلن کی تکرار سے تقطیع کی جا سکتی ہے، یہ ان دو بحور میں سے ایک ہے جن کے ارکان چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور جنھیں بحر متدارک اور بحر متقارب کہا جاتا ہے۔ دوسری بحر فعولن فعولن کی تکرار سے تقطیع کی جا سکتی ہے۔ دونوں بحور کے ناموں کا مطلب بھی یہی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب قریب ہونا۔ انگریزی میں اس رِدھم کو ٹراٹ رِدھم کہا جاتا ہے کہ یہ گھوڑے کی ٹاپوں کے مترادف ہے۔ اور سفر کے استعارے کو تقویت بخشتا ہے۔

نمبر دو: یہ نظم جس قبیل سے ہے، اس میں ایسی نظم شاذ و نادر ہی نظر آئے گی۔ عموماً دریا ، کشتی، ملاح ہا نا خدا کا ذکر غزل کے دیرینہ استعاروں میں ملتا ہے۔ اس موضوع پر نہیں ملتا، جس میں ناخدا سے یہ استدعا ہو کہ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، مجھے بھی ساتھ لے جاؤ۔

نمبر تین: اگر استعارے کو ایک مرقع تسلیم کر لیا جائے تو اس کے حصص میں یہاں، سیپیاں، مونگھے موتی (ندی کی تہہ سے متعلق) چنری کے رنگ (سطح کا استعارہ جس میں چنری بھگوئی یا دھوئی جاتی ہے اور اس کے رنگ مدھم پڑ جاتے ہیں)۔۔موجود ہیں۔

نمبر چار : چنری والی کا تشخص ایک بے بس عورت کا ہے، جو بیٹ (لق و دق صحرا) میں ندی کے کنارے اس امید پر محو انتظار ہے کہ مانجھی (کھِویا، ملاح، نا خدا) اسے ندی کے پار اس کے گھر (مائکہ؟ سسرال؟) تک لے جائے گا۔ اس گھبراہٹ میں وہ اس قدر بے حال ہے کہ مناظر قدرت، درخت ، گھاس، پرندے سب اس کو لے جانے کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں، لیکن کشتی ران ۔۔۔؟ جو کوئی بھی ہے۔ (مالک، خاوند، ماں باپ، خدا
کو پسِ پردہ رکھا گیا ہے۔) 

نمبر پانچ: آخری بند بہت پر اثر ہے۔ رات اگر اس کنارے پر پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ انسان نما درندے اور مردار خور پرندے خدا جانے اس کا کیا حال کریں. 
یوں نہ جاؤ ابھی
مر نہ جائے کہیں
چنری والی یہیں

مجھے یہ نظم اس لیے بھی پسند آئی، کہ انگریزی کی ہندوستانی شاعرہ سروجنی نایئڈو نے Sirojini Naidu اسی منظر نامے کو لے کر کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔

جناب ستیہ پال آنند جی کے خوب صورت جائزے کے بعد اس نظم کی شاعرہ محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی صاحبہ کی علمی و ادبی زندگی کا مختصر تعارف نذر قارئین ہے

نام : ڈاکٹر صابرہ شاہین
مقام پیدائش: ڈیرہ غازی خان پاکستان
تعلیم: بی ایس سی (ذوآلوجی، باٹنی، کیمسٹری)
ایم اے آردو – بہاٶالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان
ایم فل اردو (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور)
پی ایچ ڈی اردو
(گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور)
عہدے و ملازمت: 
پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کوٹ چهٹہ تقریبا ( دس سال)
 فی الحال : استاد شعبۂ اردو
غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان
سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق ڈیرہ غازی خان
 ضلعی صدر پاکستان یوتھ لیگ
 ضلعی صدر ادیب فاؤنڈیشن پاکستان
کتب: 
 مختار صدیقی حیات و خدمات (تنقید)
 باقیات مختار صدیقی (تحقیق)
خالی بک
(سرائیکی شعری مجموعہ)
مرکزہ
(اردو نظموں کا مجموعہ)
زیر ترتیب:
 اردو غزلوں کا مجموعہ
 کالم تمام، کالموں کا مجموعہ
متفرقات
سفر نامے
(اردو اور سرائیکی زبان میں )
تنقیدی و تحقیقی مضامین
ایوارڈ و اسناد:
بے شمار ادبی ایوارڈ اور اسناد کے علاوہ شیلڈز۔
محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی صاحبہ ہر دل عزیز اور مقبول استاد ہونے کے ساتھ اردو کی ایک اچھی ادیبہ اور شاعرہ بھی ہیں۔ ان کا شمار باوقار اور پر عزم و پر اعتماد خواتین میں کیا جاتا ہے.
***
ظفر معین بلے جعفری کی گذشتہ نگارش: شائستہ مفتی منفرد لہجے کی معتبر شاعرہ اور افسانہ نگار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے