حسین الحق کا افسانہ "نیو کی اینٹ" : تاثرات

حسین الحق کا افسانہ "نیو کی اینٹ" : تاثرات

نثار انجم

*نیو کی اینٹ*
حسین الحق
تاثرات
*نثارانجم*
نیو کی اینٹ” حالاتِ حاضرہ کے سیاسی, سماجی اور معاشرتی منظر نامے ہیں ۔ جس کی دہکتی أنچ کو شعور کی جلد پر محسوس کرسکتے ہیں۔یہ پچھلی تین دہائیوں کی بہترین عکاسی کرنے والے وہ منظر نامے ہیں جسکا مشاہدہ افسانہ نگار نے سر کی أنکھوں سے کیا ہے اور روداد دل پر روح مضطر نے درج کیا ہے۔۔ زیر مطالعہ افسانہ اپنے نفسیاتی مفاہمانہ کرب پاروں کے ساتھ عصری تاریخی حوالے والی تحریروں کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔
تاریخی عمارت کی
شہادت کے بعد اکثریتی علاقوں میں رہنے والی اقلیتی زندگی کے مفاہمانہ رویے کی نفسیاتی مجبوریوں اور بے چینوں کو افسانے کے تار و پو میں سمو دیا گیا ہے۔سچے اور أنکھوں دیکھے کربناک تجربوں کو جوں کا توں افسانوی قالب میں منتقل کرنا بڑا کٹھن مرحلہ اور استادانہ مشق ہے۔ صحافت یا خبرکے اسلوب کے رنگ کی ہلکی سی پرت تخلیقی رنگ پر چڑھنے کا خطرہ جملوں اور مناظر کے نواح میں زینۂ فکر سے پھسل کر منڈلاتا رہتا ہے اور اس سے بچنے میں فنکار اپنی پوری تخلیقی بصیرت اور چوکسی جھونک دیتا ہے ۔بالکل یہاں تخلیق کا چابکدست مظاہرہ اور مشاطگی فن دیکھنے کو ملتا ہے ۔افسانہ نگار نے افسانے کو صحافتی انداز کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ہے۔تخلیقی نثر اور سلاست بیاں نے افسانوی تکنیک کے اس گاڑھے رنگ کو مانجھ کراور بھی صیقل کردیا ہے
یہاں مفاہمت جس نے مطابقت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
ایک تاریخی سانحہ کے بعد اکثریتی نفسیاتی نرغے میں رہنے والی اقلیتی زندگی دبی دبی سی خاموشی اوڑھے جی رہی تھی۔ جیت اور ردعمل کی نفسیاتی أنچ کو زندگی کے سماجی رویۓ اور رابطے کی کڑیوں میں بھی محسوس کر رہی تھی۔ ایسے ماحول میں نفرت اور أستھا کی سلگتی بھٹی دہکنے کے لئے تیار تھی یا پھر تپ رہی تھی۔
مفاہمت کے پانی سے خو دکو بھگوۓ رکھنے
میں ہی بچ نکلنے کا راستہ تھا ۔
مصنف نے اسی نفسیاتی زندگی کو اسکے ٹریٹمنٹ
اس کے سوچنے اور برتنے کے طریقے کو کہانی کی ریڑھ کی ہڈی میں اس طرح سمودیا ہے کہ ہم ایسی سہمی سہمی سی دونوں فرقوں کی زندگی کو ملک کے اس کونے سے اس کونے تک
بپھری ہوئی سانسوں کو درست کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ خوف اور بے یقنی کی ایک ألودہ فضا تیار کردی گئ تھی
جو عمارت گرانے کی تیاری سے شہادت تک ایک عذاب کی طرح دونوں طرف طاری رہی۔یہاں ان کے درمیان زندگی جیتے ہوۓ اسی خوف ودہشت کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح یہ طبقہ اس شہادت کے ایپی شوڈ سے مرحلہ وار متاثرہوا اور مصالحت سے جو جھنے اور مطابقت بھری زندگی کے لۓ نفسیاتی طور پر مجبور ہوا۔۔
یہ زندگی تناؤ کے ماحول میں مفاہمت کی روش ہے جس کا بیان یہاں ہوا ہے
۔ معاشرتی منافقت سے نڈھال مفاہمت کی پکار ہے ۔ایک غیر مرئی احساس ہے جو تہذیب کی پیشانی پر تفکر کی کھردری جھریوں کی طرح عرق ألود دعوت فکر دیتا ہے۔ جس کو افسانہ نگار نے بڑی فنی چابکدستی سے اس کےفکری و وجودی نقوش کو اس کی نوک پلک سمیت سنوارا ہے۔
نیو کی اینٹ لفظوں پر مشتمل نثر میں رنگوں کی ایک آرٹ گلیری کی طرح ہے۔ جس میں تخلیقی زبان کی جدت و ندرت کے نئے نمونے ہیں موضوعاتی تنوع کے رنگ برنگے پیکرہیں۔ جسے نئے نقوش کو اظہاری اسلوب کی انفرادیت اور تکنیکی تجربے کے معنوی حسن کے ساتھ آمیز کر کے ایک نیا جہان حسن ِمعنی اور حسن ِفکر دونوں کی ایک امتزاجی کیفیت پیدا کر دی گئ ہے۔
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ ہو:تنویر احمد تما پوری کے افسانہ رومانہ کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے