اساتذۂ کرام کی عظیم شخصیت : حقیقت کے آئینے میں

اساتذۂ کرام کی عظیم شخصیت : حقیقت کے آئینے میں

 مظفر نازنین، کولکاتا
استاد کی شخصیت ایک عظیم، پاکیزہ اور معتبر شخصیت ہوتی ہے. کہتے ہیں:
"Teacher build the shape of the nation.”
یہ وہ شخصیت ہے جس کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جس سے ایک صحت مند معاشرے اور صحت مند سوسائٹی کی تشکیل ہوتی ہے۔ لیکن اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ طلبا و طالبات کو بھی سچی لگن اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی انسانیت کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتی ہے۔ مشہور مفکر کا قول ہے:
"There is no alternative of hard labour, and there is no shortcut way to achieve success.”
اساتذہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 5 /ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس خاص دن کا تعین کرنا ضروری نہیں، بلکہ ایک طالب علم اپنی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہی بات ہوتی ہے کہ یہ کامیابی اساتذہ کرام کی ہی دین ہے۔ ایک طالب علم کی کامیابی کا سہرا اس کے والدین اور اساتذہ کرام کے سر جاتا ہے۔ ہر لمحہ ان اساتذہ کرام کی یاد آتی ہے۔ جن کی ہدایتیں، نصیحتیں زندگی کے ہر موڑ پر ان کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔
روشن خیال والدین اپنے بچے کی اعلا تعلیم اور کیرئیر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ سوسائٹی میں ان کا نام روشن کرے۔ جن کے لیے وہ دامے، درمے، سخنے، قدمے، فہمے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ شاید تعلیم ہی وہ شے ہے جو آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس تسلسل سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ ”آدھی روٹی کھاؤ، بچوں کو پڑھاؤ“، ”بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ“ بہت کار آمد ہے۔ تعلیم ہی وہ حربہ ہے جس سے ایک مہذب، سلیقہ مند انسا ن کی تشکیل ہوتی ہے۔ استاد جب اپنے شاگر کو پڑھاتے ہیں تو اس وقت ان کو اپنے زمانے کی یاد آتی ہے۔ وہ تمام مناظر جس طرح ایک استاد نے انھیں پڑھایا تھا، وہ تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہونے لگتے ہیں۔ مشہور مفکر اور مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا:
"Learn from the cradle to the grave”
”علم حاصل کرو، گود سے گور تک“
حقیقت کی نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ بڑی بڑی عظیم شخصیتیں جیسے حسرت موہانی، خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ انھیں کیسے اساتذہ کرام کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا اور ان کی شخصیتوں کو جلا بخشنے میں ان کے اساتذہ کرام کا کیا رول رہا ہے۔ اسی طرح ادب، سیاست، صحافت غرض کہ ہر شعبہ ہائے جہان میں اساتذہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح شعراے کرام کے حالات زندگی کو سمجھنے اور ان کے اشعار کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے کن سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ان کے نگراں کا ان پر کیسا اثر پڑتا ہے۔ دراصل کیرئیر کی تشکیل میں ٹیچر کا challenging role ہوتا ہے۔ آج بہت سے اساتذۂ کرام ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ اِس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے لیکن پس پشت یادوں کے خزانے چھوڑ گئے۔ تابناک ماضی میں استاد کی نصیحتیں، ہدایتیں ہمیں درخشاں اور تابندہ مستقبل کی طرف گامزن کرتی ہیں۔
استاد چاہے نرسری (درجہ اطفال) کے ہوں یا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، Associate Professor ہوں یا انسٹی ٹیوٹ کے Director ہر مقام پر ان کی عزت افزائی ہونی چاہیے۔ ان کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ کوئیIPS, IAS، ڈاکٹر، انجینئر، MBA جو زندگی میں بہت کامیاب ہیں بلکہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان اساتذہ کرام کو جنھوں نے عالم طفلی میں ان کی ننھی انگلیوں کو پکڑ کر انھیں حروف تہجی لکھنا سکھایا۔ William Shakespeare اور William Wordsworth کو پڑھنے والے، سمجھنے والے، ریسرچ اسکالر یا ماڈرن فزیکس میں Ph.D کرنے والے تھیسس لکھنے والے طلبا و طالبات یکلخت فراموش نہیں کر سکتے. اس Montessori کے استاد کو جنھوں نے A for Apple اور B for Ball پڑھایا تھا۔ والدین کے بعد اگر کسی کی شخصیت بہت عظیم ہے تو وہ ہے استاد کی شخصیت۔ بیش تر استاد زندگی میں آتے ہیں اور بیش تر نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دارِ بقا کی طرف چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد ایک دور، ایک عہد اور ایک باب کا خاتمہ یقینا ہوگیا، لیکن اپنے پس پشت تابناک ماضی کی یادیں چھوڑ گئے۔ گنجینۂ علم لٹا گئے۔ ایسا باب دے گئے جن میں نصیحت آمیز اقتباس ہوتے ہیں۔ سنہری یادوں کا انمول خزانہ چھوڑ گئے۔ تابندہ ماضی سے لے کر درخشاں مستقبل کی راہیں ہموار کر گئے۔ اپنی فردیت میں تقریباً دو نسلوں کو روشنی دے گئے۔ ان کی نگرانی میں ظلمت کے سائے چھٹ گئے اور علم و حکمت کی روشنی سے خوابیدہ سماج کو بیدار کرگئے۔ زندگی انسانیت کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتی ہے، جہادِ زندگانی میں استاد کی شخصیت شاعر کے اس شعر کی مانند ہے:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کے چٹانوں پر
بیش تر استاد ایسے تھے جنھوں نے اپنی محبت اور جان فشانی سے اس چمنستان ادب کی آبیاری کی تھی، جہاں سے ننھا سا تخم تناور درخت بن جاتا ہے۔ وہ جولان گاہ ادب میں نئی نئی راہیں نکالتے۔ انھوں نے گلستان میں ایسے پھول کھلائے جہاں سے ادب کے جواہر پاروں کی تشکیل ہوئی اور تشنگان علم و فن نے جنم لیا۔ ان کے نہیں رہنے پر کان ان کی سماعت کو، چشم ان کی دیدار کو، ذہن ان کے مشورے کو، دماغ ان کے نظریات، افکار و خیالات کو ترستے رہیں گے۔
خدائے پاک رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ خدا ہمارے ان اساتذہ کرام کی مغفرت کرے جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت بخشے۔ ان کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ اشک بار آنکھوں سے ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
آج Advanced Technology نے زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر کر دی ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ عہد ماضی اور عصر حاضر میں تعلیمی معیار کا تقابلی جائزہ لیں تو آج اعلا تعلیم بغیر انٹرنیٹ کے ممکن نہیں ہے۔ آج سائنس کی ترقی نے ہمیں بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ چاند اور سیاروں کی تسخیر ترقی یافتہ معیار کی روشن مثال ہے۔ آج ہم سب ترقی کے منازل طے کر چکے ہیں اور معیار تعلیم کافی بلند ہے۔ آج کے نوجوان شعوری طورپر بیدار ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے علم و آگہی کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بقول شاعر مشرق:
عقّابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم رہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو Spiritual education کے ساتھ western education کی ترغیت دی۔ ساتھ ہی تعلیم نسواں کی پُر زور حمایت کی۔ تعلیم کے سلسلے میں ان کے کہنے کا مفہوم تھا:
Women and men should be given equal opportunity to flourish.
آج ایسے تعلیم کی ضرورت ہے جہاں ایک ہاتھ میں دینی علوم کا عَلَم ہو تو دوسرے ہاتھ میں دنیاوی تعلیم کا پرچم۔ جس کا خواب برسوں پہلے سر سید احمد خاں جیسے عظیم مصلح اور اکبر الہ آبادی جیسے عظیم شاعر نے دیکھا تھا:
سبق پھر پڑھ شجاعت کا عدالت کا صداقت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
***

مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش: پروفیسر ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی: بنگال کے ادبی افق کا روشن ستارہ

شیئر کیجیے

One thought on “اساتذۂ کرام کی عظیم شخصیت : حقیقت کے آئینے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے