سمندر کی دوستی

سمندر کی دوستی

آبیناز جان علی، موریشس

موریشس کا ساحل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سمندر کا دل فریب منظر آنکھوں کو خوش کرتا ہے۔ جہاں تک نگاہ جاتی ہے سفید اور باریک ریت ہے۔ پانی بالکل صاف ہے۔ کہیں پر پانی ہلکا نیلا نظرآتا ہے تو کہیں پر گہرا نیلا اور کہیں کہیں ہرا نیلا معلوم پڑتا ہے۔ آسمان بالکل صاف رہتا ہے اور سورج کی گرمی پانی کو ہر وقت گرم رکھتی ہے۔ غروب آفتاب اور طلوعِ آفتاب کی دل کشی دل کو سکون دیتی ہے۔ ساحل پر اونچے اونچے درختوں کی قطاریں راحت مہیا کرتی ہیں۔ سمندر میں طرح طرح کے جانور رہتے ہیں جو اس جزیرے کی خوب صورتی پر ناز کرتے ہیں۔ انھی جانوروں میں سے ایک کیکڑا تھا۔
ایک دن کیکڑا موریشس کے سمندر کے کنارے چل رہا تھا۔ نمکین پانی کی مہک اس کو خوش رکھتا۔ لہروں کا شور اسے مسرور کرتا۔ سمندر اس کا گھر تھا۔ وہ اسی جگہ پیدا ہوا۔ سمندر اس کا دوست بھی ہے۔ وہ اپنے دوست سے اپنی ساری باتیں بتاتا۔ اس پرسکوں جزیرے میں اس کی زندگی آرام سے گزر رہی تھی۔ چلتے چلتے اس کے پیڑوں کے نشان ریت پر پڑتے۔ کیکڑا اپنی چھوٹی ٹانگوں سے بنائے گئے نشانات کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ موریشس کے ساحل کی سفید ریت دھوپ میں ہیرے کی طرح چمک رہی تھی۔ چمکتی ریت میں کیکڑے کی ٹانگوں کے نشانات اور زیادہ خوش نما نظر آتے۔ اچانک سمندر کی لہریں ان نشانات کو بہا لے گئیں اور سب پہلے کی طرح ہوگیا۔ جیسے یہاں سے کبھی کوئی نہیں گذرا تھا۔
کیکڑا مایوس ہوا۔ اسے یوں لگا کہ کسی نے اس کے وجود کو فنا کردیا۔ اس نے سمندر سے کہا : ”میں نے یہ سمجھا تھا کہ تم میرے بہترین دوست ہو۔ پھر تم نے میری ٹانگوں کے نشانات کیوں مٹائے؟ میرا دل اداس ہوگیا۔“
سمندر نے جواب دیا: ”میرے عزیر دوست ایک ماہی گیر تمھاری تلاش میں نکلا ہے۔ وہ تمہاری ٹانگوں کے نشانات سے تم تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس لیے میں نے وہ نشان مٹادیے۔ اگر ماہی گیر تمھیں پکڑتا تو تم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ میں اپنے سب سے قریبی دوست کو کھونا نہیں چاہتا۔“
یہ سنتے ہی کیکڑے کا دل بھر آیا۔ ”مجھے معاف کردو میرے دوست۔ میں نے تمھیں غلط سمجھا. جب کہ تم میری بھلائی کا خیال کر رہے تھے۔“ کیکڑا شرمندہ ہوا۔
سمندر میں اس کی طرح اور بہت سارے کیکڑے تھے۔ کسی زمانے میں وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ لیکن وہ سب اس کو ساحل پر چلنے سے روکا کرتے۔ اس بات سے ننھے کیکڑے کو تکلیف ہوتی۔ اس کے دوست اس کو وہ کام کرنے سے روک رہے تھے جو وہ بہت پسند کرتا تھا۔ وہ آزاد ماحول میں رہنا چاہتا تھا۔ اس لیے اپنے کنبے کو چھوڑ کر وہ سمندر سے دوستی کرنے لگا۔ اس دن کیکڑے نے یہ سبق سیکھا کہ جب پرانے دوست دھوکا دیتے ہیں تو ضروری نہیں کہ نئے دوست بھی دھوکا دیں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا نہیں چاہئے۔
لوگ اکثر دوسروں کی نیت پر شک کرتے ہیں جس طرح کیکڑا سمندر کی نیت پر شک کر رہا تھا۔ لیکن سمندر کا ارادہ کیکڑے کے نشانات مٹانا نہیں تھا بلکہ وہ ماہی گیر سے اس کی جان بچانا چاہتا تھا۔ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملا کہ دوسروں پر شک کرنے کی جگہ اور ان کے عمل کا غلط مطلب نکالنے کی جگہ ان کے ارادوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ درحقیقت وہ آپ کو تکلیف نہیں بلکہ آپ کی مدد اور آپ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔

آبیناز جان علی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: سنگ مرمر کا مجسمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے