مولانا ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی

مولانا ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ

ایک سال ہو گیے، تاریخ 25/ اگست 2020ء کی تھی، جب بھری دوپہر میں ”شمسؔ“ غرب ہو گیا تھا، غروب کے اس المناک کربناک اور دردناک منظر کا گواہ بنا تھا، ہمدرد یونی ورسٹی کا مجیدیہ ہاسپیٹل، وقت تھا کوئی گیارہ بجے کا، مولانا عبد القادر شمس قاسمی کے اعز واقربا، جان سے عزیز بھائی مولانا عبد الواحد رحمانی، سب منہ دیکھتے رہ گیے اور موت کے فرشتے نے اپنا کام کر لیا، وہ یکم اگست سے ہی بیمار چل رہے تھے، پہلی نماز جنازہ ہمدرد یونی ورسٹی کے احاطہ میں ادا کی گئی، امامت مولانا شمس تبریز قاسمی ملت ٹائمز نے کی، دوسری نماز جنازہ ان کے وطن ثانی اور نانی ہالی گاؤں ڈوبا ضلع ارریہ میں ان کے بھائی مولانا عبد الواحد رحمانی کی امامت میں ادا کی گئی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، تہہ خاک آرام فرما ہونے کی تاریخ تھی، 26/ مئی 2020ء۔
مولانا عبد القادر شمس قاسمی بن مولانا عبد الرزاق بن علیم الدین کی پیدائش ان کے نانی ہالی گاؤں (جہاں ان کے والد نے بود وباش اختیار کر لی تھی) ڈوبا ارریا میں ہوئی، سال 1972ء کا تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی، یہاں انھوں نے اپنے نانا حاجی اولاد حسین کے علاوہ حافظ محمد اسماعیل ؒ، مولانا عبد الرحیم ؒ، منشی نظام الدین ؒ وغیرہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ابھی حیات مستعار کی آٹھ بہار ہی دیکھ چکے تھے کہ جرائم پیشوں نے 1976ء میں ان کے والد کو شہید کر دیا، اس طرح زندگی یتیمی کے سائے میں آگئی، با حوصلہ ماں صالحہ خاتون نے بیوگی کے باوجود مولانا اور ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الواحد رحمانی اور تین بیٹیوں کی بہترین تعلیم و تربیت اور پرورش وپرداخت کا انتظام کیا، ثانوی تعلیم کے لیے مدرسہ دارالعلوم ڈوریا سونا پور میں داخل ہوئے، وہاں سے جون پور مدرسہ قرآنیہ جامع مسجد گئے، عربی پنجم تک کی تعلیم وہیں پائی، وہاں سے دار العلوم دیوبند جانا ہوا، جہاں عربی ششم میں داخلہ لے کر1989ء میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی، رغبت عصری تعلیم کی طرف بھی تھی، اس لیے دیوبند سے واپسی کے بعد الشمس ملیہ کالج میں انٹر میں داخل ہوئے، یہیں سے بی اے بھی کیا، دوران تعلیم ہی مثالی مڈل اسکول ارریہ میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے، جس سے تھوڑی یافت ہونے لگی، جب ملی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو مولانا اسرار الحق صاحب کی قربت نے انھیں ملی کونسل سے قریب کر دیا، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی نگاہ التفات ان پر پڑ گئی، چنانچہ وہ آل انڈیا ملی کونسل بہار کے مرکزی دفتر ایفا بلڈنگ پھلواری شریف منتقل ہو گئے، اس زمانہ میں مفتی نسیم احمد قاسمی ؒ ملی کونسل بہار کے جنرل سکریٹری اور میں سکریٹری ہوا کرتا تھا، یہ دوسری میقات کا دور تھا، مولانا عبد القادر شمس ملی کونسل کے ترجمان کے طور پر 1995ء سے ملی کارواں نکالنے لگے، جو 1998ء تک جاری رہا، جس سے ان کے لکھنے پڑھنے کے ذوق کو جلا ملی، قاضی صاحب کے حکم سے آپ دہلی منتقل ہو گیے، ملی کارواں بند ہو گیا، اس کی جگہ ملی اتحاد جاری ہوا، تو مولانا عبد القادر شمس اس کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے، اور 1998ء سے 2003ء تک اس حیثیت سے کام کیا، مولانا اسرار الحق قاسمی ؒ کے عملا ملی کونسل سے کنارہ کش ہونے اور قاضی صاحب کے انتقال کے بعد انھوں نے3/ مئی 2003ء کو عالمی سہارا جوائن کر لیا، پھر راشٹریہ سہارا میں آگئے، سہارا سمیے پر بھی تھوڑا وقت دیا کرتے، نئی نسلوں کی صحافت کے حوالہ سے تربیت کرتے، اسی درمیان انھوں نے پروفیسر اختر الواسع کی نگرانی میں الموسوعۃ الفقہیہ کویت پر تحقیقی کام کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، اس کے قبل وہ جامعہ ملیہ سے ایم اے اور جے ان یو سے ماس میڈیا میں ڈگری لے چکے تھے، انتقال کے وقت ان کا شمار دہلی کے نامور مسلم صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ تمام ملی تنظیموں سے جُڑے ہوئے تھے، ان کے کام آیا کرتے تھے، لیکن کسی سے بھی رکنیت اور ملازمت کا تعلق نہیں تھا۔
مولانا عبد القادر نے عمر تو مختصر پائی، لیکن عجلت پسند واقع ہونے کی وجہ سے پل پل جیا اور خوب کام کیا، انھوں نے مولانا محمد عارف قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ حمیدیہ پانولی گجرات کی رفاقت میں اپنے گاؤں میں کئی تنظیمی، تعلیمی اور رفاہی منصوبوں کو زمین پر اتارا، جامعہ دعوۃ القرآن، عبد الغفور میموریل ہوسپیٹل، دعوت پبلک اسکول ان کے گاؤں ڈوبا میں اسی رفاقت کی یادگار ہے، ارریہ شہر میں دعوۃ کمپیوٹر سنٹر بھی کام کر رہا ہے، 2017ء میں سیلاب متاثرین کے لیے پورا ایک گاؤں انھوں نے ریلیف فنڈ سے تعمیر کروادیا۔
وہ دہلی کی طرح اپنے علاقہ میں بھی معروف ومقبول تھے۔
میری ان سے ملاقات 1993ء سے تھی، پٹنہ اور دہلی میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا، ان سے مل کر خوشی ہوتی اور ان کی ترقیات دیکھ کر دل کو فرحت اور سکون ملتا. ان کی زندگی ہر دم رواں پیہم دواں تھی، اکسیڈنٹ کی وجہ سے پاؤں میں تکلیف تھی، وہ کئی مہینے صاحب فراش رہے تھے، لیکن عزم وحوصلہ جواں تھا، اس لیے سب کو جھیل جاتے، درد و الم کو بھی اور بھانت بھانت کے لوگوں کو بھی، جب 25/ اگست کو وہ دنیا سے سدھارے تب اندازہ ہواکہ ہر کام میں ان کو اتنی عجلت کیوں تھی، شاید انھیں احساس تھا کہ وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے، آنکھ بند ہوجاتی ہے، کام باقی رہ جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے پس ماندگان میں ایک لڑکا، اہلیہ اور تین لڑکیوں کو چھوڑا ہے، لڑکا ندوی بھی ہے قاسمی بھی اور عصری علوم کا رمز شناش بھی، اللہ کرے کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر ان کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا ذریعہ بن جائے، اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اور پس ماندگان کو صبر جمیل، خصوصا ان کے بھائی مولانا عبد الواحد رحمانی کو جن کے لیے سب کچھ مولانا عبد القادر شمس ہی تھے، اب نہ دادی ہال میں کوئی بچا ہے اور نہ نانی ہال میں کوئی ہے، والدہ بھی بیٹے کے غم میں چل بسیں، لیکن قادر مطلق موجود ہے، ہر وقت اور ہر جگہ ہے، عبد القادر کے پس ماندگان کو قادر مطلق کا سہارا بہت ہے، اللہ بس باقی ہوس۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں : مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے