جو کرے اتحاد کی بات : پوچھو اس سے مسلک کیا ہے!

جو کرے اتحاد کی بات : پوچھو اس سے مسلک کیا ہے!

حافظ جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

کتنا آسان ہے زبان سے یہ بات کہنا کہ اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور خاص کر جب اتھل پتھل کی صورت ہو تو اتحاد کی ضرورت محسوس ہو تی ہے اور جب ماحول سازگار ہوتا ہے تو مسلمان ہی مسلمان کو ایسے کلمات سے نوازتا ہے کہ غیر بھی سنتا ہےتو بڑی حیرت کرتاہے اور وہ سوچتا ہے کہ آخر یہ لوگ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں. آخر کب تک اتحاد کا کھوکھلا نعرہ لگایا جاتا رہے گا اور کس بنیاد پر اتحاد قائم ہوگا اور اب تو اتحاد کی مختلف کٹیگری کا ذکر ہوتا ہے. سیاسی اتحاد، بین المذاہب اتحاد، دلت مسلم اتحاد لیکن یہ کبھی نہیں کہا جاتا ہے کہ دلت مسلم اتحاد اور بین المذاہب اتحاد سے پہلے بین المسالک اتحاد کی ضرورت ہے. جب کہ ہر حال میں اسی کی ضرورت ہے. کیونکہ مسلکی اختلاف ہی سب سے مضبوط اختلاف ہے اور یہ اختلاف بھی سب سے مضبوط مسلمانوں کی پس ماندہ برادریوں میں ہے اور ان میں سے مومن انصار برادری سب سے زیادہ مذکورہ اختلافات کا شکار ہے اور یہی برادری سب سے زیادہ جلسہ بھی کراتی ہے اور انہی کے جلسوں میں مسلکی اختلافات پر مبنی تقریریں بھی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انصاری برادری سیاسی بیداری اور سیاسی شعور سے بہت دور ہے. مسلمانوں کی دیگر برادریاں شادی بیاہ میں اکثریت سے صرف اپنی برادری دیکھتی ہیں اور انصاری برادری کا حال یہ ہے کہ برادری کے ساتھ مسلک بھی دیکھتی ہیں. لیکن رنگت اور صحبت سے اتنا فرق پڑتا ہے کہ اب اکثر و بیش تر ایسا بھی دیکھنے میں آرہاہے کہ والدین نہ چاہتے ہوئے بھی اولاد کے آگے مجبور ہوکر مسلکی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہیں اور رشتہ داریوں کا قیام کرتے ہیں. مکتب فکر کی بنیاد پر مبنی پہچان کو اتنا فروغ دیا گیا ہے کہ ایک دوست اپنے کسی دوست کو لے کر اپنے تعلقات میں پہنچتاہے تو ساتھ میں جانے والا سائیں سائیں اور پھس پھس کر کے پوچھے گا یہ کیا ہیں. بھلے کرتا، ٹوپی، پائجامہ، تہبند پہنے ہو، بھلے نماز ہی پڑھ کر کیوں نہ آرہاہو، بھلے ہی باتوں باتوں میں اللہ و رسول کا نام بھی زبان پر آتا ہو پھر بھی پوچھے گا کہ یہ کیا ہیں؟ مطلب کس مکتب فکر سے تعلق ہے. مسلمانوں کی فرقہ بندی کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں، پھر بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے. جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی ہورہی ہے، ایک دوسرے کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں، آپس میں بحث و مباحثہ ہورہا ہے، ایک دوسرے پر فتاوے بھی لگائے جارہے ہیں، ایک دوسرے کے بڑے بڑے علما پر طنز کسے جارہے ہیں اور خامیاں نکالی جارہی ہیں پھر بھی کہاجاتاہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد ہونا چاہیے. اور یہ اتحاد کی بات چائے خانوں پر، شاہ راہوں پر، چوراہوں پر کی جاتی ہیں. یہاں تک کہ سیاسی اسٹیج پر بھی کی جاتی ہیں. مگر دینی اسٹیج پر نھیں کی جاتیں. مدارس میں نہیں کی جاتیں. اب یہاں سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ آخر مسلمانوں میں اتحاد کیسے ہوگا اور کس بنیاد پر ہوگا. ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی اتحاد شرائط کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، دنیاوی مختلف مسائل کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، وزارت اور ملازمت میں شراکت و شمولیت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، سماجی اور معاشی بنیاد پر ہوسکتا ہے لیکن مسلم اتحاد کا مطلب ہے کہ پورا مسلمان ایک دھاگے میں موتیوں کی طرح پرو جائے، کانھم بنیان مرصوص کے مصداق شیشہ پلائی دیوار بن جائے. تو یہ سب سے اہم مسئلہ ہے کہ کس بنیاد پر ایسا ہوسکتا ہے. آج تو مسلم نوجوانوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا جو اپنے آبا و اجداد و اسلاف کو بھلا چکا ہے، خود اپنے مجاہدین آزادی کو بھلا چکا ہے، یہاں تک کہ ائمہ اربعہ کے ناموں کو بھی بھلا چکا ہے،ان کی حیات و خدمات کو بھلا چکا ہے. مسلم نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ملے گی جو حضرت امیر حمزہ و عثمان غنی کی شہادت سے بھی ناواقف ہے. کیونکہ اسے بتایا نہیں جاتا. لیکن اسے یہ معلوم ہے کہ ہمارا تعلق کس فرقے سے ہے. کیونکہ گھر سے لے کر مدرسے تک یہ بتایا جاتا ہے. تو ظاہر بات ہے کہ جو بتایا جائے گا وہی معلوم ہوگا. ایسی صورت حال میں مسلمانوں میں اتحاد تو صرف کتاب اللہ کی ہی بنیاد پر ہوسکتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ممکن ہوتا تو خانقاہوں سے اتحاد کا نعرہ بلند ہوتا، مدارس سے اتحاد کا نعرہ بلند ہوتا، مساجد سے اتحاد کا نعرہ بلند ہوتا. ایک مکتب فکر کے جلسے میں دوسرے مکتب فکر کے علما و خطبا کو مدعو کیا جاتا لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ راہ چلتے کوئی شکل صورت سے مسلمان نظر آتا ہے تو سکون قلب کے لیے اس سے اس کا مسلک پوچھا جاتا ہے، مساجد کو بھی مسلک و مکتب فکر کے نام سے سجایا جاتا ہے، مدارس کو بھی اسی رنگ میں رنگا جاتاہے. پھر بھی کہاجاتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے. یہ اتحاد کے نام پر بالکل کھوکھلا نعرہ ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس کا بھرپور فائدہ اغیار اٹھارہے ہیں اور ہم سیاسی طور پر بالکل مفلوج ہو چکے ہیں اور دینی طور پر ہم بہت کم زور ہو چکے ہیں. آج پوری امت روایات کا شکار ہو گئی. آج پوری امت اختلافات کا شکار ہو گئی-

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)، محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:زمزم و فرات و انا ساغر اور شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے