ملک کے پرآشوب حالات اور دو اہم سیاست داں

ملک کے پرآشوب حالات اور دو اہم سیاست داں

…..گزشتہ سے پیوستہ

محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005

پندرہ اگست یوم آزادی سے پہلے جو مضمون رقم کیا گیا تھا، وہ مضمون دراصل قسط وار شائع ہونے کا حامل تھا، کیوں کہ اس میں ملک کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے دو اہم سیاسی لیڈران کا تذکرہ بھی تھا۔ یہ بات پہلے ہی واضح کر دی گئی تھی کہ: ان دونوں لیڈران میں سے ایک وہ صاحب ہیں، جو ہمیشہ جذباتی اور ہنگامہ خیز بیان بازی کرتے ہیں، مگر حکومت کا رویہ ان کے ساتھ دوستانہ اور ہم دردانہ معلوم ہوتا ہے، وہ سر زمین حیدرآباد سے نکلتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں اپنی مرضی کی بھاشا کا استعمال بے دھڑک کرتے ہیں۔ ان پر نہ کوئی کیس درج ہوتا ہے اور نہ ہی ملک مخالف یا حکومت مخالف مقدمہ درج ہوتا ہے، ان سب کے پس پشت کیا عوامل و وجوہات ہیں؛ یہ انہی کو معلوم ہوگا۔ دوسری اہم شخصیت محمد اعظم خاں کی ہے، جن کی اسیری کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اور انھیں ابھی رہائی تک نصیب نہیں ہوئی ہے۔ یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ ملک کے مسلمانوں خاص کر ریاست اترپردیش کی مسلم آبادی کی یہ مضبوط و بے باک آواز قید سلاسل میں جکڑی ہوئی اپنی بے بسی اور لاچاری پر آنسو بہا رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بل کہ ان کے ساتھ ان کے جواں سال و ہونہار بیٹے (عبداللہ اعظم خاں) کو بھی پس زنداں کیا ہوا ہے۔
سرزمین رام پور سے تعلق رکھنے والے اس عظیم فرزند اور سیاسی بصارت و بصیرت کے حامل شخص محمد اعظم خاں کی زندگی کا ایک بڑا حصہ میدان سیاست میں گزرا ہے، جہاں انھیں ہر قسم کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے، 9/مرتبہ اپنے شہر رامپور سے عوام کے بے تحاشا پیار اور تعاون کی بنیاد پر ممبر اسمبلی چنے جانا اور طویل تجربہ کی بنیاد پر ریاستی حکومت میں کابینہ وزیر کی حیثیت سے اہم اور ضروری ذمہ داریاں پوری امانت و دیانت داری کے ساتھ نبھانا، دوران اقتدار بلاتفریق مذہب و ملت ریاستی عوام کو درپیش مسائل کے حل میں خود کو متحرک و سرگرداں رکھنا؛ اس لیڈر کی امتیازی و نمایاں صفات رہی ہیں۔ علاوہ ازیں ایک مرتبہ ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں اپنی قوم کی بے باک و بے خوف ہوکر نمائندگی کرنا اور قوم کے حقوق کے لیے لڑنا بھی تاریخ نے جلی حروف میں رقم کر رکھا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی سیاست کا الاؤ بھلے ہی حالات اور سیاسی منافقت کی وجہ سے ماند پڑ گیا ہو مگر درحقیقت سیاست کے پڑاؤ میں آج بھی محمد اعظم خاں کا جلوہ برقرار ہے، تبھی تو ریاستی حکومت ان کی زندگی سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ وہ آج بھی اپنے ضلع رام پور سے ممبر آف پارلیمنٹ ہیں، اور ہمیشہ کی طرح اپنی تاریخی جیت کے ساتھ سیاست کے اس مندر کے ممبر بناکر بھیجے گئے ہیں، کیوں کہ شہر رام پور اور ضلع رام پور کی عوام کو اپنے اس چہیتے اور لاڈلے نیتا کی صاف ستھری سیاست اور امانت و دیانت سے بھرپور زندگی کے حامل اپنے اس سیاست داں پر بلا کا اعتماد و یقین تھا، جو ابھی بھی ہے اور آخر تک رہےگا۔ کیوں کہ اعظم خاں کی گفتگو بے لاگ و بے باک ہوا کرتی تھی، ان کی سیاست کا محور ہر خاص و عام کا احاطہ کرنے والی ہوتی تھی، ان کی فکر کا زاویہ پوری قوم کی ترقی اور ریاستی عوام کی فوز و فلاح کا عکس و مظہر ہوا کرتا تھا، ان کی نظر میں امیروں کے لیے الگ اور غریبوں کے ساتھ علاحدہ نششت و برخاست کا کوئی خاکہ اور پہلو نہیں ہوتا تھا، وہ قوم و ملت کی مجموعی آبادی کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنی سیاست کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے میں یقین رکھتے تھے، انھی سب باتوں کی بدولت ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عوام کے سچے قائد و رہ بر اور میدان سیاست میں آج کے امام الہند اور تعلیم کے میدان میں سرسید ثانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نہ کبھی اپنے ذاتی مفاد کے لیے اپنی شخصیت کو مجروح ہونے دیا اور نہ ہی کبھی اپنے عہدے اور رتبہ کا رعب جھاڑ کر کسی غریب مزدور کو ستانے کی کوشش کی، بل کہ سڑک سے لے کر ایوان اقتدار تک بارہا غریب مزدور کی لڑائی لڑی اور ان کے حقوق کے تحفظات کے لیے ہر مشکل و پریشانی کا سامنا کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پولس کی لاٹھیاں کھائیں، حکومتی کارندوں کے مظالم برداشت کیے اور ہر اس جگہ سے اپنی ذات کو گزارا جہاں سے ملت کے ادنی فرد کو بھی اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر فائدہ پہنچ سکتا تھا؛ تو اسے وہ فائدہ پہنچانے میں لگے رہے اور اس فائدہ پہنچانے میں حالات کتنے ہی ناموافق و نامناسب بن کر سامنے آئے ہوں، کتنی ہی اعلا حکام کی مخالفت آڑے آئی ہو اور کتنی ہی مرتبہ عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے ہوں؛ اس مرد مجاہد اور عزم و ہمت کے پیکر نے نہ تو اپنے موقف سے سمجھوتہ کیا اور نہ ہی اپنے قدموں میں لرزا پیدا ہونے دیا۔ پھر بھی اگر کسی سر پھرے اور بدقماش و بدطینت آدمی کو ان کی ہمت و شجاعت کا انکار ہے یا کسی کو ان کی طرف سے قوم و ملت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر شک و شبہ ہے اور قوم کے تن مردہ میں غیرت و حمیت کی روح پھونک دینے کا شکوہ ہے تو یہ اس کی اپنی نظر کی کوتاہی اور دل و دماغ کی کجی تو ہو سکتی ہے، مگر حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوسکتا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ، ان کی جد و جہد کا عظیم شاہ کار، ان کے عزم و ارادہ کی پختگی کا شاہد و عادل اور قوم کے تئیں ان کی جنونیت و فنائیت کا بے مثال و لاجواب تعلیمی جوہر، ملت اسلامیہ کا قومی اثاثہ اور مشترکہ ترقی کا سرمایہ آج بھی اپنے اس محسن و کرم فرما اور مؤسس اعلا کی غیر موجودگی پر اشک کناں ہے، اس گلشن سدا بہار کے پھول اور وہاں کی شگفتہ کلیاں ہر صبح اپنے مالی و باغباں کی رہائی کی دعائیں کرتی ہیں۔ مگر افسوس!!! اپنوں پر حد سے زیادہ اعتماد اور غیروں کی بے وفائی اور بے مروتی کی بدولت ملت کا یہ ہم درد و خیرخواہ آج بھی اپنی بے بسی و لاچاری کے باعث جیل کی سلاخوں کے پیچھے موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہے، جو ٹک ٹکی باندھے ابھی بھی قوم کے سوئے ہوئے ضمیر کی طرف دیکھ رہا ہے۔
جیل کے اندر ان کی کیا کیفیت اور حالت ہے؛ اس کو یہاں تحریر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ واسطہ در واسطہ ہرشخص کو ان کی حالت غیر تشفی بخش کا آئے دن پتہ لگتا رہتا ہے۔
بقول مشہور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جناب سمیع اللہ خان، کہ: "جیل جانے سے پہلے ان کا بولنا طاقتور ہوتا تھا، جیل جانے سے پہلے کی ان کی تقاریر پارلیمنٹ سے لے کر رام پور میڈیا خطاب تک دیکھ لیجیے؛ کیا گھن گرج تھی ان کی آواز میں؟ چوں کہ سَنگھ (آر ایس ایس) کو ایسی مسلمان آواز سے فطری الرجی تھی، کیوں کہ جب وہ بولتے تھے تو لگتا تھا کہ کوئی باوقار انسان بول رہا ہے۔"
حقیقت بھی یہی ہے کہ فرقہ پرست عناصر اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے دشمنوں کو یہ گھن گرج والی آواز ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ہر اس زبان و بیان کے مخالف و دشمن رہتے ہیں، جہاں سے ملک اور ملک کی اقلیتیں شاہ راہ ترقی پر گام زن ہو سکتی ہوں یا جہاں سے اپنے حقوق کے تحفظ و مطالبات تسلیم کرا سکتی ہوں، ہرگز ان آوازوں کو بلند ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ ملک و ریاست کے اقتدار پر قابض طاقتوں اور سیاہ و سفید کے مالک بنے ان حکمرانوں کو کیا اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ میدان سیاست کا یہ بے باک و بے خوف اور عوام کا مخلص و با وفا خادم آج کن حالات سے دوچار ہے یا کس جرم کی اسے سزا دی جا رہی ہے؟ کیا حکومت و اقتدار کی حاصل شدہ یہ دولت سب دن ان کے پاس رہنے والی ہے، جو اعظم خاں کی طرف سے اتنی بےخبری اور بےاعتنائی برتی جا رہی ہے؟ یا پھر موجودہ یوپی سرکار کو کسی اہم بات کا اندیشہ اور خطرہ لاحق ہے اعظم خاں کی طرف سے، جس کی وجہ سے براہ راست انھیں نشانے پر لے رکھا ہے؟ یا پھر ہمارے وزیراعلا یوپی اسی انتقامی سیاست اور مسلم دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جو اب سے پہلے آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیمیں مسلمانوں کے ساتھ کرتی رہی ہیں اور وہ طاقت و اقتدار کے نشہ میں مست ہر مؤثر و پر امن آواز کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے ختم کرا دیتی ہیں۔ مگر یاد رہے کہ ہمارا یہ ملک ایک آئینی اور جمہوری ملک ہے، جہاں ہر کسی کو شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے، یہاں آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ایک کو اپنی، اپنے مذہب کی اور اپنی قوم کی ترقی اور سالمیت کے اختیار و اسباب حاصل ہیں۔ لہذا اگر اسی جمہوری نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جناب محمد اعظم خاں نے اپنی قوم کی سرخ روئی اور باعزت زندگی کے حصول کے لیے اگر تمہاری نظروں میں یہ گناہ اور جرم کیا ہےکہ: انھوں نے ایک عظیم الشان تعلیم کا مندر "مولانا محمد علی جوہؔر یونیورسٹی" کی شکل میں کیوں قائم کیا؟ تو یاد رکھنا وہ اس گناہ کو سو بار کرنے کےلیے تیار ہیں اور ہر بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے خود کو لے جانے پر آمادہ ہیں۔ ان کی اس ہمت و شجاعت پر قوم کا بچہ بچہ خان صاحب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، اس لیے کہ خان صاحب ملت کا حصہ ہی نہیں بل کہ ملت کے قابل فخر سرمایہ ہیں اور ملت کے سرمایہ کی حفاظت کرنا پوری ملت کی ذمہ داری میں آتا ہے، ملت انھیں کسی بھی صورت اپنے سے جدا اور دور ہونا نہیں دیکھنا چاہتی، بس حالات کے متغیر و سازگار ہونے کے انتظار میں ہیں لوگ، پھر دیکھنا کس طرح لوگ آج کے اس مظلوم و مقہور اور پس زنداں شخصیت کو اپنے سر آنکھوں پر سوار کرکے میدان سیاست کا ہیرو بناتے ہیں؟
(mdqasimtandvi@gmail.com)
مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں: ملک کے پُر آشوب حالات اور دو اہم سیاست داں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے