شخصیت : راجہ یوسف

شخصیت : راجہ یوسف

نوٹ: یہ تعارفی سلسلہ کشمیر کے عصری ادبا و شعرا کی شخصیت اور ادبی خدمات کے لیے مختص ہے۔

ایس معشوق احمد

ہر فرد کی چاہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی آپ بیتی، بہادری کے قصے، اپنے احساسات و جذبات، ذات و صفات، اپنے کارناموں، خوابوں، ارمانوں اور مقاصد سے واقف کرائے۔ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اسے کن کن مشکلات کا سامنا رہا، کیا کچھ اسے سہنا پڑا اور کس طرح کام یابی سے ہم کنار ہوا، اس ساری روداد کی جان کاری وہ سب کو دینا چاہتا ہے۔اس سے وہ فخر محسوس کرتا ہے اور یہ سب کچھ دہرانے سے اسے دلی تسکین ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی ادیب ہے تو وہ اپنے جذبات و احساسات تک ہی محدود نہیں رہتا بل کہ اردگرد کیا کچھ ہورہا ہے، کو بھی وہ اپنے مشاہدے کی بھٹی میں بھن کر زبان عطا کرتا ہے اور حال کی روداد کو مستقبل کا حصہ بناتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شاعری کا سہارا لیتا ہے تو کوئی افسانہ یا ڈراما کے ذریعے اپنے مشاہدات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے ایک صنف میں اپنی متنوع شخصیت کو بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے مختلف وسائل اختیار کرتے ہیں۔
اردو ادب کے راجہ، راجہ یوسف اپنے شعور، مشاہدات اور ذات کے اظہار کے لیے کبھی تھیٹر آرٹسٹ بنے اور رنگا رنگ پروگراموں میں اپنے فن اور کاریگری کے ذریعے ناظرین کے دل جیتنے کی کوشش کی تو کبھی شاعری کے ذریعے اپنے جوش، جذبے اور ولولے کو بیان کرنے کی سعی کی۔ متحرک جذبہ اظہار کی تشنگی نہیں گئی تو ڈاکومینٹری فلموں کے ڈائریکٹر بنے اور مختلف تاریخی مقامات اور اہم تاریخی موضوعات کی عکس بندی کی اور لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کے نشانات جو دھندلے ہوچکے تھے کو تازہ دم کیا۔ جب جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور فن، ہنر اور تخلیقی صلاحیت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو اپنے خیالات کےاظہار کے لیے افسانہ کو چنا اور کسی حد تک اس سے تشفی ملی اور اسی صنف میں نام کمایا۔
کشمیر میں عصرحاضر کے افسانہ نگاروں میں ایک ممتاز نام راجہ یوسف کا ہے۔ ان کا اصل نام محمد یوسف بٹ ہے۔ ضلع اننت ناگ کے ایک گاؤں انچی ڈورہ میں 1961 ء میں پیدا ہوئے۔ اپنا پہلا باقاعدہ استاد والد مرحوم (محمد شعبان) کو مانتے ہیں اور خود اقرار کرتے ہیں کہ میں نے ان کے طفیل ادب کو سمجھا اور سیکھا ہے۔ اننت ناگ کے لغوی معنی بے شمار چشموں کے ہیں۔ چشمے کی خوبی یہ ہے کہ اس کا پانی رواں اور شفاف ہوتا ہے۔ راجہ یوسف کے افسانوں میں بھی یہ خوبی در آئی ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان بھی رواں اور شفاف ہے۔ راجہ یوسف اردو اور کشمیری دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور دونوں زبانوں میں ان کی کتابیں اور مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ کشمیری زبان میں ان کی مشہور و معروف کتاب ” ویتھ ” ہے۔ اس کتاب میں تاریخی واقعات کو تمثیل کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے کشمیر کی تاریخ سے واقفیت ملتی ہے اور اس کا دل کش اسلوب اور رواں زبان قاری پر سحر کرتی ہے۔ اردو میں ان کے اب تک دو افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور دونوں کے عنواں غالب کے اس شعر __
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” کاغذی پیرہن" 1988ء میں شائع ہوا ہے۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعے کا نام ” نقش فریادی" ہے جو اسی سال (2021ء) شائع ہوا۔ ان کی شوخی تحریرکو سمجھنے کے لیے ان کے دونوں افسانوی مجموعے” کاغذی پیرہن" اور ” نقش فریادی " میں شامل افسانوں کو ایک نظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
راجہ یوسف متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ رومانوی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور کشمیر کے حالات و واقعات کی دل کش عکاسی اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔ ان کے مشہور و معروف افسانوں میں نقش فریادی، تاجو قصائی، بند کھڑکی کا کرب، چیل چوزے چنار، کلونت کور کی واپسی، روشنی کے لٹیرے، گورکن، جنگل راج، لاک ڈاون، مانگے کا اجالا، ایک فیصدی کا انسان اور افسانچوں میں اب پچھتائے کیا ہوت، آنکھ مچولی، دوہزار اکیس، توکل، خالی پیٹ، دعوت باماتم اور بیٹی نہیں چاہیے خاص ہیں۔

راجہ یوسف نے 1986ء میں اسٹیج اداکاری شروع کی اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی لکھتے رہے۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے درجنوں اسکرپٹ، سیریل اور ڈرامے لکھے۔
دلی، شملہ، جموں، دور درشن اور کاشر چینل کے لیے کام کیا۔ اردو اور کشمیری زبان میں ان کے مشہور و معروف سیریل زمانے کی ہوا، حساب ماسٹر ، سنہرے ورق، آبشار، ست رنگ، اتھ شر، ویتھ چھ پکان، تینگل، سنگر مالن پیو پراگاش، اس چھ نمبرون ، چھوٹی اور ہش تہ تھزی نوشہ تہ تھزی ہیں۔
راجہ یوسف کا پہلا افسانہ ” دیوار کے اس پار" اخبار ” آئینہ" کے گوشہ ادب میں شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانے کشمیر سے نکلنے والے اخبارات کشمیر عظمی، تعمیل ارشاد، آفتاب، لازوال، ہفتہ روزہ شہربین کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی رسائل و جرائد جن میں "بیسویں صدی (دہلی)"، "شاعر( ممبئی)"، "اردو افسانہ_ انسائیکلوپیڈیا( پاکستان)"، "عالمی انوار تخلیق ( رانچی)"، "خرمن انٹرنشنل (حیدر آباد)، "ادب سلسلہ (دہلی)، نئی کہانیاں( کراچی )"، "ندائے گل(پاکستان)"، "حاشیہ(مہاراشٹر)"، ماہنامہ عالمی میراث"، "ماہنامہ ذوق (پاکستان)"،”نگینہ انٹرنیشنل( کشمیر)"، "سہ ماہی شعر و سخن (پاکستان)"، ” ماہنامہ قاشیں"، زبان و ادب (بہار)" ،”سہ ماہی جرس" ،” ماہنامہ ست رنگ "، ” شیرازہ (جموں و کشمیر کلچرل اکادمی)"، اور اخبارات جیسے نیا نظریہ، راشٹریہ سہارا میں شائع ہوتے ہیں۔

راجہ یوسف کو 1999ء میں ادب اور تھیٹر کی خدمات کے صلے میں ” آرٹ اینڈ کلچرل ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ انھیں ایکو فرینڈس ( eco friends) نامی تنظیم نے دیا ہے۔ سال 2015ء میں راجہ صاحب کو فکشن اور ڈراما نگاری میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے عوض ” ان فوٹل ایوارڈ" (infotel award) دیا گیا۔ اسی سال 2021ء میں ایچ ایف فونڈیشن (HF. Foundation ) کی طرف سے ان کی کشمیری تصنیف ” ویتھ " کو یوتھ پاور ایوارڈ( Youth Power Award) دیا گیا۔

راجہ صاحب مختلف رسائل اور اخبارات کے معاون مدیر اور ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ 1988ء میں ہفتہ روزہ اخبار ” بجلی" کے دو سال تک ایڈیٹر رہے۔ ” چراغ آرزو " کے پانچ شماروں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اننت ناگ سے نکلنے والے رسالے ” قاشیں" کے دو سال تک معاون مدیر اور ہفتہ روزہ ” کشمیریت " کے علاوہ کئی اخبارات کے ساتھ مختصر عرصے تک وابستہ رہے۔
راجہ یوسف مراز رائٹرس اینڈ آرٹسٹس گلڈ اور شاہین تھیٹر اننت ناگ کے صدر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جموں و کشمیر فکشن رائٹرس گلڈ، نیشنل سوسائٹی فار ہیومن ویلفیر اور جموں و کشمیر ایکو فرینڈس کے ممبر بھی ہیں۔
راجہ صاحب کا ادبی سفر جاری ہے اور امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید فن پارے وجود میں آئیں گے جن سے دبستان جموں و کشمیر کے ادبی سرمائے میں مزید اضافہ ہوگا.
***
اس کالم کی پہلی قسط یہاں پڑھیں : شخصیت: ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے