پیپر ویٹ

پیپر ویٹ

احسان قاسمی، نوری نگر، خزانچی ہاٹ، پورنیہ ( بہار )

افسانہ ” پیپرویٹ " کو میں اپنے چند بہترین افسانوں میں سے گردانتا ہوں۔ میں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعہ کا نام بھی ‘ پیپرویٹ ` ہی رکھا جس کی اشاعت ؁ ۲۰۱۷ ء میں ہوئی ۔ افسانہ پیپرویٹ میں نے 1978ء کے رمضان کے مبارک مہینہ میں قلم بند کیا تھا۔ افسانہ مکمل ہونے کے بعد سب سے پہلا خیال دل میں یہ پیدا ہوا کہ اس پر استاد محترم جناب طارق جمیلی صاحب کی رائے لی جائے۔ اب رمضان کے مہینے میں افسانہ لے کر جاؤں، خدا جانے انھیں کیسا لگےگا ؟ لیکن میری حالت یہ تھی کہ کسی کروٹ چین نہ ملتا تھا۔ آخرش ایک دن افطار کے بعد کافی ہمت کرکے سر کے دروازے کے باہر حاضر تھا۔ اندر سے استاد محترم کے درود شریف پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ استاد محترم اندر کمرے میں ٹہل رہے ہیں اور ساتھ ہی درود شریف کا ورد بھی جاری ہے۔ گویا کہ عشاء کی اذان کا انتظار ہو رہا ہے۔ اب تو اور بھی گھبرایا کہ ان کی عبادت میں خلل اندازی کس طرح کی جائے؟ پھر بھی کافی ہمت یکجا کر دروازے پر دستک دی، استاد محترم کو مسودہ تھمایا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔۔
چند دنوں بعد حاضر خدمت ہوا تو استاد محترم نے افسانے کی کافی تعریف کی۔ مسودے پر انھوں نے چند توصیفی کلمات بھی لکھے تھے۔ بس ایک جگہ ایک جملے میں کچھ ترمیم کی تھی۔ ان کی وہ ترمیم مجھے کافی پسند آئی اور میں واقعی ان کی استادی کا سچے دل سے معترف ہوا۔
افسانہ میں نے ماہ نامہ ” شاعر " بمبئ کو بغرض اشاعت ارسال کردیا۔ مرحوم بھائی تاجدار احتشام صدیقی ان دنوں شاعر کے مدیر اعلا ہوا کرتے تھے۔ ہندستان سے شائع ہونے والے ادبی رسالوں میں ‘شاعر` کو ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی. بڑے بڑے نامور اور مستند ادیب اس کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ مجھ جیسے نو آموز کی کیا حیثیت ؟ ۔۔۔۔۔۔۔
مگر جب شاعر کے شمارہ نمبر 7 ( جولائی) 1978ء میں افسانہ شائع ہوا تو میری مسرت کی انتہا نہ رہی. اس شمارے کے سرورق پر قرۃ العین حیدر کی تصویر تھی اور ان پر ایک خصوصی گوشہ شائع کیا گیا تھا.
میرے چھوٹے چچا جان جناب شرف الہدی مرحوم اس زمانہ میں بنگلہ دیش ریلوے میں ایگزیکیوٹو انجینئر کے عہدہ پر فائز ہوا کرتے تھے۔ وہ سال دو سال پر ضرور گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ پچھلی دفعہ جب وہ آئے تو انھوں نے مجھے ایک پارکر فاؤنٹین پین تحفے میں دیا تھا جو کسی فارن کنٹری کا بنا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے انھیں خط میں لکھا تھا کہ آپ کے عنایت کردہ قلم سے میں نے ایک بہترین افسانہ لکھا ہے جو ہندستان کے ایک مؤقر جریدے کی زینت بنا ہے۔ ان کی کافی دعائیں ملیں۔ افسانہ کافی پسند کیا گیا اور مجھے قارئین کے کئ خطوط بھی موصول ہوئے.
یہ افسانہ فیس بک پر ” عالمی اردو فکشن فورم " کے ایوینٹ ” عالمی علامتی اردو افسانہ نشست 2017ء" میں بھی شریک اشاعت کیا گیا ۔
***
افسانہ ‘پیپرویٹ` سے متعلق صاحبان نقد و نظر کی آرا:

‘ پیپرویٹ` نہایت کام یاب افسانہ ہے. افسانوی ادب میں یہ ایک قابل توجہ ادب پارہ کہا جا سکتا ہے۔ (پروفیسر طارق جمیلی، پورنیہ)
احسان قاسمی کے افسانہ ‘پیپرویٹ` کو میں مابعد جدید ادب کا ایک نمائندہ افسانہ سمجھتا ہوں۔ اس افسانہ میں احسان قاسمی نے اپنی تخئیلی قوت کو تخئیلی تموج سے آشنا کردیا ہے۔ (رفیع حیدر انجم، ارریہ)
پیپرویٹ ایک تاریخ ساز افسانہ ہے۔ ناچیز کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ اردو کے شروعاتی مابعد جدید افسانوں میں سے ایک ہے۔ ممکن ہے کہ یہ افسانہ لکھتے وقت ان کی فکر کسی نظریہ کے زیر اثر نہ ہو مگر اس افسانے کا موضوع اور ٹریٹمنٹ اسے مابعد جدید ڈسکورس کے قریب لاتا ہے۔ یہ احسان قاسمی کے بہترین افسانوں میں اعلا مقام رکھتا ہے۔
ڈاکٹر اویناش امن

اس علامتی افسانے کےلیے بس ایک ہی لفظ ۔۔۔۔۔۔ کلاسیک !!! ۔۔۔۔ علامتی افسانہ کس چڑیا کا نام ہے اور اس کے پروں میں کتنے رنگ ہوتے ہیں اس کے لیے اس ہفت رنگ افسانہ کو بار بار بغور پڑھنا چاہیے۔ (محمود ظفر اقبال ہاشمی، ریاض، سعودی عربیہ)
افسانہ بہت عمدہ ہے اور اپنے اندر بہت سے حوالوں سے اہم بھی ۔
(ہما فلک، لاہور۔ پاکستان)
علامتی افسانوں کے حوالے سے عموماً ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی ہے وہ یہ کہ افسانہ نگار کسی صورت حال کو ذہن میں رکھ علامات کا چولا پہنا کر مربوط / غیر مربوط علامتی نظام کے تحت برت کر قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ مگر کہیں نہ کہیں قاری ایک مربوط کہانی کی کمی ضرور محسوس کرتا ہے۔ مقام مسرت ہے کہ زیر نظر علامتی افسانے میں قاری کسی طور پر بھی کہانی کی عدم دستیابی کی شکایت نہیں کرسکتا۔
(امین بھایانی، اٹلانٹا۔ جارجیا)
اندھے ایمان اور منطقی انکار کے بین کش مکش کو پیش کرتی یہ تحریر خدا کی زیست میں کچھ نہ کچھ ضرورت ہے کے اختتامیہ پہ پہنچی ہے. بڑے موضوع کو حد درجہ سادگی سے پیش کیا گیا ہے. ادب کے دائرے میں ہے اور خوب ہے ۔
(عامر ابراہیم، جھنگ، پاکستان)
مصنف نے بہ خوبی علامتی تخلیق کے ذریعہ قاری تک اپنے تاثر کی ترسیل میں کام یابی پائی ہے۔
( آل حسن خاں، قائم گنج)
***
پیپر ویٹ (افسانہ) 

وہ سرسبز و شاداب لان میں کھلے رنگین پھولوں کو دیکھ کر خوش خوش کیاریوں میں پانی دے رہا تھا- اچانک اس کی نظر گلاب کی کیاری پر پڑی. پانی پڑنے سے ملائم مٹّی نیچے بیٹھ گئی تھی اور کوئی شے ملائم مٹی سے اپنا سر نکالے اسے تک رہی تھی- تھوڑی سی طاقت صرف کرکے اس نے اسے مٹی سے باہر نکالا – اس نے اس پر پانی کی دو تین بوچھاریں ماریں اور چونک پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ارے ! چار انچ کا خدا ؟"
وہ پتھّر کی اس چھوٹی سی مورتی کو ہاتھ میں لیے حیرت سے دیکھتا رہا- خدا کا یہاں کیا کام؟ اسے تو عجائب خانہ میں ہونا چاہیے تھا- اس کے سر سبز و شاداب لان میں خدا کیا کر رہا ہے؟ سخت اور بنجر زمین کو اس نے بلڈوزر سے ہم وار کیا، ٹریکٹر سے جوتا، لان کا نقشہ تیار کیا، دن رات کی مشقّت، بوند بوند پسینہ بہا کر دھرتی کو سیراب کیا تب جاکر اس حسین لان میں یہ رنگین گل بوٹے مسکراۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خدا یہاں چھپ کر کیا کر رہا ہے؟
اس حسین لان کو تیار کرنے میں اس نے خود محنت کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی کو اس میں حصہ دار نہیں بنا سکتا ۔۔۔۔۔
اس نے اپنے مضبوط پنجے کے درمیان مورتی کو بھینچ لیا جیسے گلا دبا کر اس کا خاتمہ کر ڈالنا چاہتا ہو، جیسے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنا چاہتا ہو مگر خدا بڑا سخت جان تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ مرا، نہ ٹوٹا ۔۔۔۔۔۔ اپنے پتھریلے ہونٹوں پر جمی مسکراہٹ سے اس کا مذاق اڑاتا رہا- وہ ڈر گیا ۔۔۔۔۔۔ شک و شبہات کے جالے میں جیسے کوئی حقیر مکھی نجات کا رستہ تلاش کرتی ہے- وہ کیا کرے؟ اس شے کو کہاں رکھے؟۔۔۔۔۔۔۔ ساری جگہیں تو پہلے سے پر ہیں- غیر ضروری اشیا گھر میں رکھنے کا رواج اس کے یہاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حتّیٰ کہ کباڑ خانے میں بھی جو اشیا ہیں صرف اس لیے کہ ان سے مستقبل میں کچھ ضرورتوں کے پورا ہونے کا اندازہ ہے لیکن یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ وہ سوچ میں پڑ گیا ــــــــــ

” پھینک ہی دیا جاۓ"۔۔۔۔۔ یک بارگی اس نے فیصلہ کر لیا اور لاپرواہی سے ہاتھ جھٹک دیا- مورتی دور جا پڑی۔۔۔۔۔۔۔
” ارے ! یہ تو چہار دیواری کے اندر ہی گر پڑی۔۔۔۔۔۔ تف ہے، ایک معمولی سی چیز کے پیچھے اس نے خواہ مخواہ کتنا وقت ضائع کر دیا- آدمی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسے فالتو کاموں پر ضائع نہیں کیا جا سکتا- اگر اس نے پہلے ہی لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو یقیناً مورتی چہاردیواری سے باہر گرتی اور اس کا قیمتی وقت بچ جاتا- اس نے دوبارہ مورتی کو اٹھا کر چہار دیواری سے باہر پھینکنے کی سعی کی، مگر مورتی چہار دیواری سے ٹکرا کر اندر ہی گر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "عجیب بات ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ میرے ہاتھ میں رعشہ سا کیوں ہے؟" اسے اپنی کم زوری پر سخت غصّہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ "اس طرح ایک ایک کام کو اگر اس نے تین تین دفعہ میں کیا تب تو ہو چکا ۔۔۔۔۔۔۔ ملک میں دوسرے بہت سارے لوگ میری جگہ پر کرنے کے اہل ہیں-"
اس نے مورتی کو سہ بارہ اٹھا لیا- اس کے پتھریلے چہرے پر ایک نفرت انگیز نگاہ ڈالی اور جسم کی ساری طاقت یکجا کرکے چہار دیواری سے باہر اچھال دیا- اپنی جگہ پر ساکت منتشر سانسوں پر قابو پانے کی سعی کرتا رہا- اسے ایک گونا سکون کا احساس ہوا جیسے ذہن پر پڑا ایک بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو- گنگناتے ہوۓ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا- گلاب کے پھولوں پر گرد کی ایک ہلکی سی تہہ جم گئی تھی- شگفتگی و شادابی کم ہو گئی تھی- وہ پانی کے چھینٹے مار مار کر ایک ایک پھول کا منھ دھلانے لگا- کئی دنوں سے بارش نہیں ہو رہی تھی- اپنے قریب کسی کی موجودگی محسوس کر وہ چونک پڑا.
” فرمائیے ! ۔۔۔۔۔۔ اس نے اخلاقاً دریافت کیا-
"پتھر کا ایک ٹکڑا ابھی آپ نے ہی باہر پھینکا تھا ؟
"جی ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ! مگر بات کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔
فوجی نے خاموشی سے اپنا سر آگے جھکا دیا- اس کے زخمی سر سے بہنے والا سرخ سرخ خون اس کی سرخ وردی میں جذب ہوتا جا رہا تھا- وہ گھبرا گیا ـــــــــــ "معاف کیجیے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا ۔۔۔۔۔۔ سخت شرمندہ ہوں، دراصل وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔
فوجی اسے آتشیں نگاہوں سے گھورتا ہوا گرج اٹھا ــــــــــــــ "آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ ۔۔۔۔۔ اس ملک کے ایک ایک فرد کا ایک ایک قطرہ خون قیمتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو اپنی لاپرواہی کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا."
چھ ماہ کی مسلسل دوڑ دھوپ اور عدالتی کاروائی کے بعد لاپرواہی برتنے اور اہم شخصیت کا سر زخمی کر دینے کے جرم میں جرمانہ ادا کرکے جب وہ عدالت سے باہر نکلا تو بہت اداس تھا- عدالت نے مورتی واپس کر دی تھی جو اس کی جیب میں پڑی تھی- وزنی اور پھولی ہوئی جیب بہت گراں محسوس ہو رہی تھی. پھر بھی وہ اسے کسی کوڑے دان میں نہیں پھینک پایا- بلا مقصد شہر کی بے جان سڑکوں پر گردن جھکاۓ بھٹکتا رہا- موٹروں، کاروں اور لاریوں کے دھوئیں اور سڑکوں کے گرد و غبار سے اس کے سفید کپڑے سیاہ ہو گئے مگر وہ چلتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلتے چلتے آخر کار تھک گیا- اس نے سوچا ۔۔۔۔۔۔ "اتنی جلد تو تھکنا نہیں چاہئیے تھا۔۔۔۔۔ اب کہاں جایا جاۓ ؟ ۔۔۔۔۔ ارے ! پاگل ہوگیا ہے کیا؟ ۔۔۔۔۔ اپنا گھر جو ہے- کتنا خوب صورت گھر ہے اور لان کتنا وسیع، کتنا حسین ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس ملک کا ایک معزز شہری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا وقت بہت قیمتی ہے، وہ ان سڑکوں پر کیوں اپنا وقت برباد کر رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ گھر پہنچنے سے یہ اداسی دور ہو جائےگی، ذہن پر پڑا یہ بار گراں سب ہٹ جاۓ گا-
وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا- برآمدہ پر موٹے شیشے کی کرچیاں دروازہ کے پاس فرش پر بکھری تھیں- اس کے جی میں آیا کہ نوکر کو بلا کر اس کی لاپرواہی پر ڈانٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرچیاں کسی کے تلووں میں چبھ گئیں تو ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کے ہونٹ آپس میں جیسے چپک سے گئے تھے- وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گیا- دریچے کے پٹ کھلے تھے- ہوا کے جھونکے کمرے کی ہر شے کو چھیڑ رہے تھے- قالین پر کاغذ کے بے شمار صفحات ادھر اُدھر پھیلے ہوا کے جھونکوں سے بچنے میں مصروف کونے کھدروں میں جاۓ پناہ تلاش کر رہے تھے. اس نے ایک ایک صفحہ چن کر یکجا کیا- لیکن انھیں رکھا کیسے جاۓ؟ ۔۔۔۔۔۔ رائٹنگ ٹیبل پر سے پیپر ویٹ غائب تھا- کسی بچّے نے باہر برآمدہ میں اسے چور کر دیا تھا- لیکن اب ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ! چار انچ لمبا اور آٹھ اؤنس وزنی یہ خدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مصرف اور حسین سجاوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے فوراً مورتی جیب سے نکال لی اور کاغذات پر رکھ دی- دریچے سے ہوا کا ایک زوردار جھونکا در آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خدا کے بوجھ تلے دبے کاغذ کے سارے صفحات پھڑپھڑاتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میز پر دونوں ہاتھ ٹیکے اس منظر کو دیر تک تکتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
***

(عالمی اردو فکشن فورم

عالمی علامتی اردو افسانہ نشست
افسانہ نمبر : 2) 
احسان قاسمی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :حلوہ کا جلوہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے