سید فخرالدین بَلّے علیگ کی سوانح حیات

سید فخرالدین بَلّے علیگ کی سوانح حیات

تحریر و تحقیق: علامہ سید غلام شبیر بخاری، علیگ

میں ایک ایسی شخصیت کا سوانحی خاکہ ترتیب دے رہاہوں ،جس کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی بنیاد پر محبت کا تعلق قائم ہوا. یہ رفاقت نصف صدی کاقصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ وہ ایک شاعر، ادیب، صوفی، دانش ور، تخلیق کار، مقرر، صحافی، مولف، ماہرِ تعلقاتِ عامہ، محقق اور اسکالر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے اور دنیائے علم و ادب میں یہی حوالے آج بھی ان کی پہچان ہیں۔ ساری زندگی خود چین سے بیٹھے نہ دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیا. بزم آرائی ان کا مشغلہ بھی رہا اور شوق بھی. قافلے کے پڑاو کے شرکا بھی یقیناً میری تائید کریں گے۔ اور وہ تمام اربابِ ادب بھی جو اُن کی ادبی اور ثقافتی ہنگامہ خیزیوں میں شریک رہے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں کائنات اور ایک اچھے انسان تو تھے ہی، ایک مکمل داستان بھی ہیں۔ انھوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری. اب ہم میں نہیں لیکن آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مولوی عبدالحق، فراق گورکھ پوری، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، آلِ احمد سرور، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر خواجہ زکریا، اشفاق احمد، این میری شمل، پیر حسام الدین راشدی، فیض احمد فیض، انتظار حسین، ڈاکٹر سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، علامہ سید نصیرالاجتہادی، میرزا ادیب، پریشان خٹک، علامہ سید احمد سعید کاظمی، ڈاکٹر اسلم انصاری، رئیس امروہوی، ڈاکٹر عنوان چشتی، احمد ندیم قاسمی، اورجون ایلیا سمیت کس کس کانام لوں؟ اور کس کس کو چھوڑ دوں؟ نامور اربابِ ادب اس شخصیت کا کام اور کلام دیکھ کر اپنے اپنے انداز میں بَلّے بَلّے کہتے دکھائی دیے۔ اور ان کی سوچ، شخصیت، خدمات اور فن کے مخفی گوشے اجاگر کیے۔ کل کو اگر اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام ہوتا ہے تو اربابِ علم و دانش کے یہی ستائشی کلمات اس کی بنیاد بنیں گے۔

نام و نسب

نام: سیدفخرالدین بَلّے

مکمل نام: سیدفخرالدین محمد بَلّے

قلمی نام: سیدفخرالدین بَلّے

تخلّص اور عرفیت ؛ بَلّے

ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
تھکے تو جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا

سیدفخرالدین بَلّے بوقتِ صبحِ صادق عالمِ وجود میں آئے۔

تاریخ ِ ولادت :15دسمبر 1930ء
یہ تاریخِ ولادت سرکاری دستاویزات کے مطابق ہے۔
اصل تاریخ ولادت 6 اپریل 1930 ہے۔
دن : اتوار . مقامِ ولادت: ہاپوڑ (میرٹھ ) متحدہ ہندوستان

عمر :73سال،9ماہ،22دن
یہ مدت عیسوی ماہ و سال کے اعتبار سے ہے۔
ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے عمر76سال ،ایک ماہ بنتی ہے۔

بَلّے کی وجہِ تسمیہ:

سلطان الہند، غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ نے اپنے صاحب زادے کا نام فخر الدین رکھا تھا اور انھیں پیار سے ”بَلّے“ کہتے تھے۔ اسی مناسبت سے آپ کے والد بزرگوار سید غلامِ معین الدین چشتی نے اپنے بیٹے کا نام فخر الدین رکھا اور انھیں پیار سے ہمیشہ ”بَلّے“ کہہ کر پکارا۔ یوں سیّد فخر الدین ۔ ”بَلّے“ مشہور ہو گئے۔

والد ِ بزرگوار کانام : سید غلامِ معین الدین چشتی

والدہ ماجدہ کا نام: امۃ اللطیف بیگم

دادا حضور:سید غلامِ محی الدین چشتی

دین: اسلام

مسلک : چشتیہ سلسلۂ عالیہ

شہریت: پاکستانی

پہچان: اسلامی جمہوریہ پاکستان

خاندانی پس منظر:
خواجۂ خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ سے ہوتا ہوا آپ کا سلسلہ نسب 43 واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

اجداد کی سیاسی خدمات:
سید فخرالدین بلے کے اسلاف نے قربانیوں کی کئی داستانیں رقم کیں ۔کوئی دور ایسا نظر نہیں آتا کہ وہ غیر متحرک رہے ہوں۔ سماجی سطح پر بھی اہم خدمات انجام دیں۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر رفاہی کام کیے اور محروم طبقات کے دکھوں کامداوا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ آپ کے والد بزرگوار سید غلامِ معین الدین چشتی 1942 کے انتخابات میں شہید ِملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی انتخابی مہم کے نگران تھے۔ جدِ امجد سید غلامِ محی الدین چشتی نے 1906 میں ڈھاکہ میں ہونے والے مسلم اکابر کے تاریخ ساز اجتماع میں صوبہ آگرہ کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔ اسی اجتماع میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ آپ کے پردادا میر قادر علی نے بھی مسلم کاز کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ وہ سرسید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ڈیفنس کمیٹی کے ممبر تھے۔ جو 1893میں بنی تھی۔ میر قادر علی کے والد محترم میر نظام علی نے 1857 کی جنگ آزادی میں میرٹھ کے محاذ پر جامِ شہادت نوش کیا۔

بچپن میں بزرگوں کی صحبتیں:
آپ کو بچپن میں ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولاناحسرت موہانی، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، جگر مراد آبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو، اور مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔

تحریک پاکستان کا ایک چائلڈ اسپیکر:
1944-47 تحریکِ پاکستان کے دوران انھوں نے سیاسی اجتماعات میں چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ جن کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، چوہدری خلیق الزماں، سردار عبدالرب نشتر‘ آئی آئی چندریگر اور حسین شہید سہروردی نے خطاب کیا۔

تحصیلِ علم اور تعلیمی ادارے:
میٹرک: الہ آباد تعلیمی بورڈ الہ آباد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ
ایف ۔ایس ۔ سی ۔
بی ۔ ایس ۔ سی
اور ایم ایس سی (جیالوجی)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ سے کیا
ادیبِ کامل
ادیبِ فاضل
جامعہ الاردو‘ علی گڑھ سے کیا

شعری سفر کاآغاز1944 میں ہوا۔
پہلا شعر

پوچھتا ہے جب بھی کوئی مجھ سے خاموشی کی بات
آسماں کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہوں میں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہم نصابی سرگرمیاں:
سیدفخرالدین بَلّے نے ہم نصابی سرگرمیوں میں گرم جوشی سے بھر پور حصہ لیا۔ بیت بازی کے مقابلوں، مباحثوں، مشاعروں اورتقریری مقابلوں میں جوہر دکھائے۔ سینئر اساتذہ سے بھی خوب داد سمیٹی۔مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یونی ورسٹی کے مجلے دی یونین کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا مجلہ ماہنامہ جھلک، علی گڑھ جاری کیا۔ حلقہ یاراں بڑا وسیع رہا۔ اساتذہ اور تلامذہ میں یکساں مقبول رہے۔

شادی/ نکاح : سید فخرالدین بلے کی شادی مورخہ 15مٸی 1950 حکیم عقیل الرحمن کی دختر نیک اختر محترمہ مہر افروز سے عالی شان انداز میں انجام پاٸی۔

سید فخرالدین بلے اور مہر افروز بلے کی اولاد :
(چار بیٹے اور چار بیٹیاں)
چار بیٹے اور چار بیٹیاں
.1.محترمہ عذرا کمال. 2.سید انجم معین بلے. 3.سیدہ اسماء رضوان. 4.سید عارف معین بلے. 5.آنِس معین . 6.سیدہ ناز اظہر. 7.سیدہ آمنہ آصف چشتی. 8.ظفر معین بلے جعفری

ترکِ سکونت کافیصلہ:
اپنی خوب صورت یادوں کو سمیٹ کر بھارت کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے کے لیے پرتول لیے۔

ہجرت: لاہور میں پہلا پڑاٶ ڈالا۔
کراچی میں کچھ عرصہ قیام کیااور روزگار کے امکانات کاجائزہ لینے کے بعد بالآخر ستلج کنارے پڑاو ڈالنے کافیصلہ کرلیا۔

ڈومیسائل: بہاول پور (بہاولپور ہی سے سرکاری کیرئیر کا آغازکیا۔)

سراپا: علمی اعتبار سے قد آور لیکن ظاہری اعتبار سے میانہ قامت۔
سر بڑا تھا۔ جیسے کسی سردار کا ہوتا ہے۔
گھنگھریالے بال۔ درمیان میں مانگ ۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آتش جوان تھا۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ انھوں نے مانگ نکالنا بند کردی تھی، البتہ کنگھا کرتے تو تھوڑی دیر بعد خود بخود مانگ نکل آتی تھی۔
بڑی بڑی دل کش آنکھیں ۔
آنکھوں میں سرخ ڈورے۔ جن سے سفیدی اور سیاہی مزید نمایاں ہوگئی تھی۔
کشادہ پیشانی. پیشانی پر سوچوں کی تین چار محرابیں ۔
وہ گہری سوچ میں ہوتے تو یہ محرابیں اور گہری ہوجاتیں۔
خوب صورت نقش و نگار کے مالک تھے ۔
کلین شیوڈ۔بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ کسی محفل میں کبھی نظر نہیں آئے۔
سینے پر بال اور بالوں کی ایک لکیر ناف تک موجودتھی۔
نسبتاً لانبی کلائیاں. گداز ہتھیلیاں.
ہاتھ ملاتے تو لگتا کہ ان ہاتھوں نے کبھی مشقت نہیں کی۔ حالاں کہ ساری زندگی مشقِ سخن جاری رکھی۔

شخصیت:
باوقار اور باغ و بہار شخصیت کا نام سید فخرالدین محمد بلے ہے۔ خوش لباسی ان کی خوش مزاجی کا آئینہ تھی۔ طبیعت میں نفاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی محسوس ہوتی. جو ملے اسے اپنا گرویدہ بنالیتے. گفتگو میں طنز نہیں، البتہ مزاح ضرور جھلکتا تھا۔ دوسروں کو آگے بڑھتا دیکھ کر جی اٹھتے. دل میں کسی کے لیے میل نہیں۔ اعلا ظرف، دریا دل اور کشادہ نظر تھے۔ تواضع ان کا خاصا اور مروت و رواداری ان کا شعار رہی۔

لباس:
خوش لباسی بھی عالمِ نوجوانی میں ان کی مقبولیت کاسبب بنی۔
تھری پیس سوٹ، اور شوخ رنگ کی ٹائی۔ اس پر میچنگ شوز۔ کبھی کبھار جواہر کٹ واسکٹ، کرتا شلوار ۔
شیروانی کے کالر والی بوشرٹ اور پینٹ۔
شیروانی، کرتا شلوار کے ساتھ کھسہ، میچنگ پینٹ شرٹ کے ساتھ میچنگ شوز۔
زندگی کے آخری دور میں صرف سفید قمیض شلوار اور سفید شوز کو ترجیح دی۔
سرد موسم میں کالی، سفید یا سلیٹی رنگ کی چادر اوڑھنا پسند کرتے تھے۔ ساتویں محرم الحرام کو سبز کرتا اور سفید شلوار اور دسویں محرم الحرام کو کالا کرتا اور سفید شلوار اُن کا پہناوا ہوتا۔ یہ روایت عمر بھر برقرار رہی۔

چلن: فقیرانہ

انداز : شاہانہ

فکر:صوفیانہ

شیوہ:انسانیت سے محبت اور احترامِ آدمیت

فطرت:
مسکرانا۔ برائی کابدلہ بھلائی سے دینا۔ پریشاں حال لوگوں کی دل جوئی کرنا، بائیں ہاتھ کو خبر دیے بغیر دائیں ہاتھ سے ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔ مثبت پہلووں پر ہمیشہ نظر رکھا۔

شوق:
کتب بینی، بزم آرائی اورشب بیداری

شعبے:
علم و ادب، فنون، ثقافت، تصوف، آثارِ قدیمہ، مذاہبِ عالم، تحقیق، سیاحت، معدنی وسائل، صحافت، تعلقات عامہ

محکمے:
اطلاعات، تعلقات عامہ، سیاحت، پروٹوکول، آرٹس کونسل، سوشل ویلفئیر، بلدیات، وزارت مذہبی امور، وزارتِ اقلیتی امور اور وزارت سمندرپار پاکستانیز

غیر ملکی سرکاری دورے:
ایران، چین، سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھارت۔
بھارت کا دورہ ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ پاکستان کے ساتھ کیا۔ واپسی پر بھٹو صاحب نے ان کی کارکردگی کو بے مثال قراردیا اور جو ریمارکس دیے، وہ بلاشبہ ایسے ہیں، جن پر فخرہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل میری یادداشتوں میں محفوظ ہے۔

کھیل اور مشاغل:
مختلف ادوار میں مختلف میدانوں میں نظر آئے۔کرکٹ، بیڈمنٹن، رِنگ، ٹیبل ٹینس، اسکریبل، کیرم، لڈو، شطرنج، اور بریج ۔

تالیفات و مطبوعات:
جن شعبوں، اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے ان سے متعلق (150) سے زیادہ مطبوعات تالیف و تدوین کیں اور ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ان میں کتابیں، کتابچے، سووینئیرز، اور بروشرز شامل ہیں۔ یہ تالیفات انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی زبانوں میں مرتب کی گئیں۔ ان میں سید فخرالدین بلے کی علمی وسعت، فکر کی رفعت، پاکستانیت، پاکستانیات سے متعلق علمیت، زبان و بیان پر قدرت اور وطن ِعزیز سے محبت نظرآتی ہے۔

دو تحقیقی کتابیں:
ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
آپ نے باب العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ الکریم کی سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب
ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم لکھی۔

فنون ِ لطیفہ اور اسلام
مندرجہ بالا عنوان کے تحت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی تحقیقی کتاب بڑا علمی سرمایہ ہے، جو دل کشا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔

سات صدیوں بعد، دو تخلیقی کارنامے
امیر خسروؒ کے بعد سیّد فخر الدین بَلّے نے قول ترانہ اور “نیا رنگ" تخلیق کیا۔ جس کی دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیار کیں۔ ان دونوں تخلیقات کو جید علما، صوفیا اور مشائخ نے7 صدیوں بعد اہم تاریخی اور تاریخ ساز کارنامہ قرار دیا ہے۔

محسنِ فن ….”مین آف دی سٹیج"۔ اسٹیج کے لیے خدمات پر دو خطابات سے نوازا گیا
فنون و ثقافت کے فروغ اور 1982ء میں ملتان میں 25 روزہ جشنِ تمثیل کرانے پر ثقافتی تنظمورں اور اسٹیج فنکاروں کی طرف سے آپ کو ”محسنِ فن“ کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ مین آف دی اسٹیج قرار دیا گیا۔

سکونت:
سرکاری ملازمت نے خانہ بدوش بناکر رکھ دیا۔کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سرگودھا، ملتان، کوئٹہ، قلات، خضدار اور بہاولپور میں دورانِ ملازمت قیام رہا۔ ان شہروں میں آپ کا وسیع حلقہء یاراں موجود ہے۔

ریٹائرمنٹ:
ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ، حکومت پنجاب ۔گریڈ 20..15.دسمبر۔1990

روزگار بعد از ریٹائرمنٹ:
فری لانس (جرنلسٹ )، میڈیا کنسلٹنٹ۔ پبلک ریلیشنز پریکٹیشنر

جادۂ صحافت پر انمٹ نقوش:
سیدفخرالدین بلے نے دنیائے صحافت میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں. اخبارات و جرائد میں کالم بھی لکھے۔ سیاسی اور سماجی مسائل و معاملات پر ان کے قطعات بھی توجہ کا مرکز بنے۔ پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے لیے جتنی تقریریں لکھیں، انھیں شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔ دوست احباب ان کے پاس آ کر مضامین لکھوایا کرتے تھے اور پھر انھیں اپنے نام سے چھپواکر خوش ہوتے تھے۔ ایسا کبھی کبھار نہیں اکثر ہوتا تھا۔ ان کی عنایات کی بنیاد پر بہت سے لوگ صاحبِ کتاب بنے۔

سید فخرالدین بلّے نے صحافتی دنیامیں کچھ جرائد کے بانی مدیرِ اعلا یا مدیر کی حیثیت سے قابلِ قدرکام کیا۔ سرکاری جرائد پر بھی ان کی شخصیت کے دستخط ثبت نظرآتے ہیں۔ جو جرائد آپ کے زیرادارت شائع ہوئے، ان کی تفصیل یہ ہے۔

ایڈیٹر پندرہ روزہ دی یونین علی گڑھ
بانی ایڈیٹر ماہنامہ جھلک علی گڑھ
جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ نو روز، کراچی
جوائنٹ ایڈیٹر بہاولپور ریویو‘ بہاولپور
ایڈیٹر ماہنامہ لاہور افیئرز، لاہور
ایڈیٹر ہفت روزہ استقلال ،لاہور
ایڈیٹر ماہنامہ ویسٹ پاکستان، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ فلاح لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اوقاف اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہم وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ یارانِ وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آوازِ جرس‘ لاہور
بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ مسلم لیگ نیوز ، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوائے بلدیات لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہمارا ملتان ، ملتان

ادبی تنظیمیں اور ادارے:
ادبی تنظیم قافلہ کے بانی
تخلیق کاروں، فن کاروں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی تنظیم ”قافلہ“ بنائی۔ جس کے ”پڑاﺅ“ لاہور اور ملتان میں سیّد فخر الدین بَلّے کی اقامت گاہ پر بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوئے۔ ان کی خواہش پر ہی ”قافلے“ کے پڑاﺅ بہاولپور میں نامور علمی ادبی شخصیت سیدتابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوتے ہیں۔

پنجند اکادمی
سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ، فن کاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ”جوہرِ قابل“ کی دریافت اور پذیرائی کےلئے آپ نے نئی راہیں تلاش کیں۔ پنجند اکادمی بنائی اور اس کے قیام پرجو کتابچہ شائع کیا، اس کی ایک ایک سطر میں فخرالدین بلے کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی حقیقت کے رنگ بھرے جاسکتے ہیں۔

معین اکادمی
اپنے بزرگوں کے نام پر معین اکادمی کی بنیاد رکھی۔ اس اشاعتی ادارے کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔

دل کی بیماری سے دل لگی:
اگست 1980 میں انھیں دل کادورہ پڑا۔ ڈاکٹروں نے آرام کے ساتھ سگریٹ نوشی ترک کرنے کامشورہ دیا لیکن انھوں نے آرام کیا نہ سگریٹ نوشی ترک کی۔ دل کی بیماری کے ساتھ ایسی دل لگی شاید ہی کسی نے کی ہو۔ دل کی اس بیماری کے ساتھ وہ چوبیس برس تک زندہ رہے۔ جب دورہ پڑتا تودوچار دن بچوں کی دل جوئی کے لیے مصروفیات ضرور ترک کردیتے اور پھر ان کی دن رات جاری رہنے والی سرگرمیاں زیادہ زور شور کے ساتھ نظرآتیں۔ معالجین کا کہنا تھا ان کاصرف ایک چوتھائی دل کام کر رہا ہے۔ آخری ایام میں اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے آکسیجن کی نالی ناک سے لگی رہتی لیکن یہ بیماری بھی انھیں غیر فعال کرنے میں ناکام رہی۔ ایسی قوتِ ارادی اور خود اعتمادی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جنوری2004کے دوسرے ہفتے میں انھیں نشتر اسپتال داخل کرا دیا گیا۔ شدید علالت میں بھی کلمۂ شکر زبان پر رہا۔ ہرحال میں شکر بجا لانا ان کے مزاج کاحصہ تھا۔

وفات: آئی ۔سی ۔یو، نشتر اسپتال ،ملتان
تاریخِ وفات:
28.جنوری2004=اٹھاٸیس ۔جنوری دو ہزار چار .6.ذوالحج ۔بدھ ؛رات 8 بج کر 5 منٹ پرخالق حقیقی سے جاملے۔
بہاولپور میں تدفین : جمعرات .29.جنوری.2004.انتیس جنوری دوہزار چار
آخری ”پڑاﺅ“: قبرستان نور شاہ بخاری ‘ بہاولپور

جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جاکے اِس مٹی کا قرض
***
سید فخرالدین بلے کی یہ تخلیق بھی پڑھیں :حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے