سید فخرالدین بلے : ایک کثیرالوصف شخصیت

سید فخرالدین بلے : ایک کثیرالوصف شخصیت

سید منصور عاقل
مدیراعلیٰ الاقرباء، اسلام آباد

یہ نصف صدی سے بھی زیادہ کا قصہ ہے کہ میں اور بلے مرحوم (جنہیں اب مرحوم لکھتے ہوئے میرا ہاتھ کانپ گیا ہے) انیس سو تریپن میں سابق ریاست بہاولپور کے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ میں ایک دوسرے کے رفیقِ کار کے طورپر متعارف ہوئے اور چند ہی دن میں ذہنی قربت کے وہ فاصلے بھی طے کرلیے کہ جن سے گزرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ دفتر میں ہماری نشست ایک ہی کمرے میں تھی، جہاں جب چائے منگوائی جاتی تو بلے صاحب اکثر و بیش تر خود پہل کرتے اور مجھے میزبانی کا موقع بہت ہی کم ملتا۔
چائے کے ساتھ ”توشہ“ بھی ہوتا، جو ان کی مرغوب مٹھائی تھی۔ حسنِ اتفاق کہ دفتر میں ہمارے سینئر کیپٹن ممتاز ملک (مرحوم) تھے جو انیس سو پچاس، اکاون میں جب میں اپنے دور طالب علمی میں روزنامہ ’زمیں دار‘ لاہور کے عملہ ادارت میں سب ایڈیٹر تھا تو وہاں بھی میرے سینئر(نیوز ایڈیٹر) تھے۔ چنانچہ بلے صاحب کی باغ و بہار شخصیت کے اوصاف جہاں ان کی ہم نشینی میں مجھ پر منکشف ہوئے، وہیں کیپٹن ممتاز ملک صاحب بھی ایک ایسی قدرِمشترک تھے کہ ادب و صحافت دونوں شعبے ہی ہماری فکر وعمل کا ناگزیر حصہ بن گئے۔ نور احمد میرٹھی مولف ”تذکرہ شعرائے میرٹھ“ بلے صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
اپریل 1930 کو ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔1942 میں الہ آباد بورڈ سے میٹرک کیا۔ 1948 میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے انٹر اور انیس سو اکاون میں اسی یونی ورسٹی سے سائنس میں گریجوایشن (بی ایس سی) کیا۔ انیس سو باون میں علی گڑھ ہی سے ادیب کامل کا امتحان پاس کرکے سترہ نومبر انیس سو باون کو وطن چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔
بلے صاحب کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ایک خفیف سا فرق یہ ہے کہ ان کے ایک عزیز حیات میرٹھی نے جو ان سے کافی پہلے ہجرت کرکے ریاست بہاولپور آگئے تھے. اپنی کتاب بہاولپور کا شعری ادب شائع کردہ اردو اکیڈمی بہاولپور 1971 میں سنہ ولادت تو 1930 ہی لکھا ہے۔ البتہ تاریخ 6 اپریل نہیں بل کہ 15 دسمبر لکھی ہے. بہرحال کچھ نسبتیں ایسی ہیں جن کا فیضان بلے صاحب کی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا آبائی وطن ہاپوڑ ضلع میرٹھ یوپی کا ایک مردم خیز قصبہ اور تحصیل کا صدر مقام تھا۔ یہی قصبہ بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کا بھی مولد ومنشا تھا اور نامور شعرا کا مسکن، جن میں حضرت امیر مینائی کے شاگردِ خاص اطہر ہاپوڑی تھے اورسلسلۂ داغ کے تلامذہ میں شمس ہاپوڑی اور لاڈلی لال لائق، جنہیں داغ کے نورتن حضرت سید عبدالوحید فدا سے شرفِ تلمذ حاصل تھا. جو ہاپوڑ سے نومیل کے فاصلے پر قصبہ گلاءوٹھی ضلع بلند شہر کے متوطن تھے۔ مشاعرے آئے دن کا معمول بن چکے تھے. چناں چہ ایسے ماحول میں سید فخرالدین بلے نے ہوش سنبھالا اور ان کا شعری وجدان بیدار ہوا۔ دوسری اہم نسبت مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ تھی، جس کی روایات سرسید کا ورثہ بن کر بلے صاحب کی شخصیت میں منتقل ہوچکی تھیں۔ ان کی وضع قطع اور ان کے آدابِ معاشرت میں علی گڑھ ان کی شناخت بن گیا تھا اور عہد طالب علمی کے سائنسی علوم کی نسبت السنہ شرقیہ کی سند ادیبِ کامل ان کے ادیب ہی نہیں بل کہ شاعر کامل ہونے کی سندِ اعتبار بن گئی تھی۔ البتہ تخلص بلے ہر نو متعارف شخص کے چہرے پر استفہامیہ لکیرکھینچ دیتا تھا۔ چناں چہ انھیں خود بھی متعدد بار یہ وضاحت کرنا پڑی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے اپنے صاحب زادے کا نام فخرالدین رکھا تھا اور پیار سے انھیں بلے کہتے تھے۔ اسی مناسبت سے ان کے والد غلام معین الدین چشتی نے ان کا یہ نام رکھا۔

بہاولپور میں 50 کی دہائی کے نصف اول کو بلے صاحب کی شاعری کے حوالے سے طلوع آفتاب کا ہنگام کہا جا سکتا ہے اور ان کی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں قیام ملتان کودلیل آفتاب۔ بعد کے اس دور میں ان کے فکر وفن نقطۂ عروج کو چھوتے نظر آتے ہیں، جس کی بشارت ان کے ایک معاصر نقاد ماجد قریشی نے اپنی کتاب ’دبستان بہاولپور‘ میں ساٹھ کی دہائی میں درج ذیل جملے میں لکھ کر دے دی تھی۔۔۔۔۔۔۔اس کے جسم میں ایک ایسی نامعلوم آگ سلگ رہی ہے، جس میں سے کبھی دھواں اٹھتا ہے اور کبھی شعلے لو دینے لگتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بلے میں کوئی دوسرا شخص بھی چھپا بیٹھا ہے۔… چناں چہ جب بلے صوفیا و اولیا کی سرزمین ملتان پہنچے تو وہ سلگتی آگ بھی شعلۂ جوالہ بن گئی اور وہ دوسرا شخص بھی ظاہر
ہوگیا، جو چھپا بیٹھا تھا۔
یوں لگی مجُھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے میرے لیے جبریل نے پر کھولے ہیں
دیکھی چمک جو سر پہ مرے آفتاب کی
پرچھائیں تک مری مرے قدموں میں آگری
ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں
ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے
انسان اور حیات وکائنات ان کی فکر کا موضوع بنے اور متصوفانہ مضامین نت نئے انداز میں اشعار میں ڈھلنے لگے۔ ان اسالیب میں قدرت کی شاہ کار تخلیق کی حیثیت سے انسان اورانسانی عظمت کا شعور بلے کی فکری ترجیحات کے اولین نقطے ہیں۔
خداسے روزِ ازل کس نے اختلاف کیا
وہ آدمی تونہ تھا ،جس نے انحراف کیا
وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا
اسی کے رحم و کرم پر ہے عاقبت میری
نہ جس نے پہلی خطا کو مِری معاف کیا
ازل سے عالم موجود تک سفر کرکے
تھکے تو جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
اتنا بڑھا بشر کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
ہنگامہ ہائے کار گہہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا کہ میں تنہا سا رہ گیا
ارتقا کا تیز تر عمل فخرالدین بلے کا نمایاں وصف ہے۔ وہ جدید وقدیم کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعر کی کلاسیکی اقدار انھیں عزیز ہیں اور اسلوب میں جدت کا رحجان عزیز تر۔ وہ فطرت کے مشاہدہ ومطالعہ میں اس طرح مصروف ہیں کہ پوشیدہ حقائق کی جستجو انھیں ہرلحظہ مضطرب رکھتی ہے۔ سحر آفریں مناظر سے مفاہیم و معانی تراشنا ان کا مستقل مشغلہ ہے۔ ان کی باطن کی آنکھ مظاہرِ فطرت کا تجزیہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔
رنگِ صحن چمن اک معما سا ہے
روئی شبنم، کلی کو ہنسی آگئی
پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ
میں کیا بتاؤں کہ قلب ونظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرۂ شبنم میں جب شگاف کیا
کھل کے گل بن گئی کلی چپ چاپ
اِک قیامت گزر گئی چپ چاپ
سوچ کے آسماں سے اتری ہے
دل کے آنگن میں چاندنی چپ چاپ
میں کس سے پوچھوں کہ پھولوں نے کس لیے آخر
بسنت رُت کو چُنا چاک دامنی کے لیے

معروضیت اور عصری معنویت بلے کے کلام میں غزل کی صنفی حدود میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن رمزیت و اشاریت کے تمام لوازم کے ساتھ، جو بر ملا بھی ہیں اور لباسِ حریر میں ملبوس بھی۔
رُتوں کی ریت یہی ہے، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے
میں اس مقام پر تو نہیں آگیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود
یہی نہیں بل کہ بلے کی فکری معروضیت میں کہیں کہیں اساتذہ کے اسلوب وآہنگ کا پر تو صاف جھلکتا ہے اوران کا انداز تنقید بھی تو اردو مماثلت کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔1947 میں تقسیم برصغیر کے انسانی سانحات نے جگر مرحوم جیسے غزل گو شاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ:
فکرِجمیل خوابِ پریشاں ہے آج کل
شاعر کہاں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
سازِ حیات ساز شکستہ ہے ان دنوں
بزمِ خیال جنتِ ویراں ہے آج کل
جمہوریت کا نام ہے جمہوریت کہاں
فسطائیت حقیقتِ عریاں ہے آج کل؟
چناں چہ فخرالدین بلے کے عہد میں تاریخ جب خود کو دہراتی ہے تو ان کا لہجہ بھی اسی طرح تلخ و درشت ہو جاتا ہے۔
جنت خیال و فکر کی ویراں ہے آج بھی
آدم حقیقتوں سے گریزاں ہے آج بھی
جمہوریت کا نام ہے جمہوریت کہاں
پابندیاں ہیں ،قید ہے، زنداں ہے آج بھی
مجھے خود بھی اندازہ نہ تھا کہ سیدفخرالدین بلے کا شعری سفر اتنا تاریخ ساز ہوگا کہ فکرونظر کے چراغوں سے راستوں کے سنگ ہائے میل کو روشن کرتا چلاجائے گا۔ وہ جب بہاولپور میں بحیثیت شاعر متعارف ہوئے تو محفلوں میں ”بلے بلے“ کی آوازوں سے انھیں داد و تحسین سے نوازاگیا۔ یہاں تک کہ انہی دنوں حکیم راغب مراد آبادی مرحوم نے جو اپنی بدیہہ گوئی کے باعث شہرت حاصل کرچکے تھے اور بہاولپور آئے ہوئے تھے، ایک شعری نشست میں جو معروف مقامی شخصیت اور صحافی عبدالحمید صحرائی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی، بلے صاحب کو برجستہ شعر کہہ کردعوتِ سخن دی کہ:
قوافی اب نہیں ہیں میرے پلے
مدد فرمائیں فخرالدین بلے
اس شعر نے محفل کو زعفرانِ زار بنادیا اور رفتارِ زمانہ نے سرکاری ملازمت کے ہاتھوں انھیں ملک کے طول وعرض میں ایسے ایسے مقامات تک پہنچایا، جنھیں تہذیب وثقافت اور علم وادب کے مراکز کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح انھیں جو پذیرائی میسر آئی، اس نے انہیں اہلِ فکر و دانش میں مقبول بنادیا اورجب وہ سفر آخرت کی تیاری کے لیے ملتان پہنچے تو ان کے فکر وفن بلندیوں کو چھونے لگے۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی جیسے ثقہ ادیب و شاعر اور متوازن الفکر نقاد نے ان کی رحلت پر دل کھول کر داد دی۔
فخرالدین بلے ایک شخص کا نہیں، ایک یونی ورسٹی اور تہذیبی ادارے کا نام تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ جس گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ تھے، اس کا واضح عکس ان کے اشعار میں من جملہ ذاتی اوصاف یعنی خود داری وخود آگہی اور دانش وحکمت میں اصل و نقاب کے امتیازی شعور کو دیکھاجاسکتا ہے. مثلاً:
سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک سوچ کو رستہ دکھائی دے
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
میرے تجزیے کے مطابق ان کی ادبی وشعری عمارت کو جوبلند و بالادکھائی دیتی ہے۔ خشت اول ادیب کامل کے نصابی مطالعہ نے مہیا کی، ورنہ ابتداً تو وہ سائنس کے طالب تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ شخصیتوں اور ماحول کا فیضان بھی ان کی خوش بختی بن گیا۔ حسنِ اتفاق کہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے انھیں جو تہذیبی ورثہ عطا کیا، وہ بھی ان کے شعور ولاشعور میں خوش بو بن کر رچ بس گیا۔ غزل کی صنف میں ان کا سنِ فکر خوب جولانیاں دکھاتا ہے۔ تغزل جو کلاسیکی فکر کا عطیہ ہے، بلے مرحوم کے کلام میں پوری طرح جلوے دکھا رہا ہے۔ اس پر مستزاد ان کا فکری اچھوتا پن اور لطیف و دل پذیر لب ولہجہ ہے۔ ملاحظہ ہو۔
کیا چاہتا تھا اور یہ کیا دے گیا مجھے
قاتل بھی زندگی کی دعا دے گیا مجھے
ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھری ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ
میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مرا انتخاب کیسا ہے
پڑا ہوا ہے بہت سے چہروں پہ مستقل جو غبار کیا ہے
ذرا کبھی آئینوں سے پوچھو نگاہ کا اعتبار کیا ہے
پلے ہیں جو دل کی دھڑکنوں میں لہو ہے، جن کی رگوں میں جاری
بھلا انھیں کوئی کیا بتائے؟ سکون کیاہے؟ قرارکیا ہے
ہے پیار کا کھیل مصلحت اور خیالِ سود و زیاں سے بالا
لگا ہی لی ہے جو دل کی بازی تو جیت کیا اور ہار کیا ہے

سیدفخرالدین بلے نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ تصوف تو ان کا غالب رحجان تھا ہی۔ اس لیے نعت اور سلام ومنقبت میں محتاط و مودب اسلوب اپنے اندر خاص دل کشی رکھتا ہے۔ مثلاً نعت کے یہ شعر۔
ہے خوفِ خدا اُن کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
الفاظ جھجکتے ہیں لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صل علیٰ کہہ نہیں سکتے
اورآخر میں غیرملکی صنف سخن ہائیکو میں ایک شہ پارہ ملاحظہ فرمائیں :
اُس نے پوچھا علوم کتنے ہیں
میں نے بھی اس سے یہ سوال کیا
آسماں پر نجوم کتنے ہیں
***
یہ بھی ملاحظہ فرمائیں : مسعود اشعر ملتانی اور سید فخرالدین بلے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے