امارت شرعیہ ملت کا قیمتی اثاثہ، اس کے وقارکی حفاظت ہم سبھوں کی ذمہ داری !

امارت شرعیہ ملت کا قیمتی اثاثہ، اس کے وقارکی حفاظت ہم سبھوں کی ذمہ داری !

محمد اشرف علی پورنوی قاسمی
رابطہ نمبر :9760778018

اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، اسلامی احکام و فرائض صرف عبادات پر محیط نہیں ہیں بل کہ عبادات کے ساتھ معاملاتِ زندگی کے تمام مرحلوں میں انسان کی راہ نمائی موجود ہے، اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں احکام شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، اور ظاہر ہے کہ اسلامی زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے اجتماعیت پربڑا زور دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پہ اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ امیر کی اطاعت کرے، ارشاد باری تعالی ہے: "قل اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم ". تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو، چناں چہ اللہ کے رسول کے زمانے سے امت مسلمہ ہمیشہ اس فریضے پر عمل پیرا رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین کا دور آیا پھر مختلف زمانے میں مختلف امرا اور حکمرانوں کا دور آیا، عمل ہوتا رہا، ایسے ملک جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی ہے وہاں مذہبی امور کے فرائض کے لیے اس طرح کا نظام بناہوا ہوتا ہے، لیکن ہندستان جیسا ملک جو سیکولر اسٹیٹ کہلاتا ہو، جہاں کا اپنا ایک آئین ہو جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے میں سے کسی قابل اور بڑی شخصیت کو اپنا دینی راہ نما بنا کر ان کی اطاعت میں اجتماعی زندگی گزارے، چناچہ موجودہ دور میں امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ اس کی بہترین عملی تصویر ہے۔
ہم سبھوں کو معلوم ہے کہ ہندستان میں مختلف ملی جماعتیں ہیں اور سارے ملت کے اثاثے ہیں اور اپنی حیثیت سے سب لوگ نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ، جس کا بظاہر دائرۂ کار صرف تین صوبوں پر محیط ہے، لیکن اپنے فکر و عمل، بے پایاں خدمات اور روشن نظریات و افکار کی بنیاد پر ملت اسلامیہ ہندیہ کا دھڑکتا ہوا دل کہلایا جانے والا ادارہ ہے، آج سے سو سال قبل جب علما و مشائخ کو خلافت تحریک میں ناکامی ہوئی تو اس وقت کے درد مند علما خصوصاً ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مضطرب اور پریشان ہو گئے کہ آنے والے وقت میں ملت اسلامیہ کا تحفظ اور ملت کے اندر احکام شرعی کا اجرا و نفاذ ہندستان جیسے ملک میں جہاں سیکولر آئین نافذ ہورہے ہیں؛ یہ بڑے سنگین مسائل ہیں، اسی فکر کے تحت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ پورے ملک میں اپنے درد کو بانٹتے رہے، اور جمعیۃ علماے ہند جو ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کے وہ ناظم اعلیٰ تھے، اس تنظیم سے بھی وہ کوشاں رہے کہ امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آئے، لیکن اس وقت کے لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انھیں کل ہند امارت شرعیہ کے قیام کی راہ نہ مل سکی تو انھوں نے صوبائی سطح پر صوبہ بہار کے علما و مشائخ بالخصوص قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری، حضرت مولانا سید بدرالدین صاحب قادری رحمہم اللہ اور امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی تائید و حمایت سے انیس سو اکیس میں امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کو قائم فرمایا اور اس کا مکمل نظام کتاب و سنت کی روشنی میں رکھا، اس کے عہدے اور مناصب میں دوسری تنظیموں سے الگ ہٹ کر خالص اسلامی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے سارے شعبوں کو سامنے رکھا، الحمدللہ امارت شرعیہ اپنے مقاصد میں اپنے بانی کی فکر کے مطابق ملت کی خدمات میں سوسالوں سے سرگرم عمل ہے، جس کے تمام امراے شریعت قیام سے لے کر اب تک ملت کے درد مند اور فکر مند علما و مشائخ رہے ہیں، جنھوں نے ہر سطح پر ملت کی خدمت کی ہے، خاص طور پر جب انیس سو ستاون میں امیر شریعت حضرت مولانا محمد منت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ امیر مقرر ہوئے تو انھوں نے امارت شرعیہ کو ایک چھوٹے سے چھپر سے نیشنل ہائیوے سڑک پر ایک عظیم الشان صحن اور بڑے احاطے میں بڑی بلند و بالا عمارتوں میں منتقل فرمادیا، اور جس کی شہرت جو صرف پھلواری شریف یا پٹنہ تک محدود تھی اس کو ملکی پیمانے پر بل کہ علمی حلقوں میں ملک سے آگے نکل کر دنیا کے مختلف علمی حلقوں میں متعارف کرادیا اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کے مطابق پورے بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ میں دارالقضا کے نظام کو عام فرمادیا، اور جن صوبوں میں امارت شرعیہ نہیں ہے ان تمام صوبوں میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے دارالقضا کے نظام کو پھیلانے کی کوشش کی گئی، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ علمی ،فکری ،انتظامی ، مالی ہر لحاظ سے کوششوں میں ان کے تربیت یافتہ کئی اصحاب فکر شامل رہے ہیں جن میں نمایاں نام حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام صاحب نوراللہ مرقدہ اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، ان حضرات کی شبانہ روز محنت سے امارت شرعیہ نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا، آخر دور میں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہر لحاظ سے امارت کے دائرۂ کار اور اس کے نظام کو وسعت دی۔

موجودہ وقت میں حضرت امیر شریعت کے وصال کے بعد ہی سے امارت شرعیہ کے نئے انتخاب امیر کو لے کر ایک عجیب فضا بنی ہوئی ہے، اور اس فضا کے ننگے حمام میں ہر کوئی داخل ہونا چاہتا ہے، پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ہمارے بعض نوجوان فضلا، ادارے اور شخصیات دونوں کے وقار کو مجروح کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یاد رکھیے شخصیتیں اور ادارے دونوں ملت کے لیے بہت قیمتی ہوتے ہیں، اور دونوں بڑی مشکل سے بنا کرتے ہیں، ایک ادارے کی تعمیر و ترقی میں صدیوں وقت لگتا ہے اور بڑی بڑی نابغہ روزگار شخصیات اور عامۃ المسلمین کے خون پسینے لگتے ہیں، اسی طرح شخصیتیں بڑی مشکل سے بنتی ہیں، بہت تعمیر و ترقی کے بعد کوئی ایک نمایاں شخصیت تیار ہوتی ہے، لیکن آج ہر کوئی اپنی پسندیدہ شخصیات کے مقابل شخصیات کے عیوب کے ظاہر کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ عیوب جو یقیناً بحیثیت انسان ہر کسی میں ہوسکتے ہیں، اور وہ پردے میں رکھنے کی چیز ہے پڑھے لکھے ہمارے نوجوان فضلا ایسی چیزوں کو کار ثواب سمجھ کر عوامی پلیٹ فارم پر لاتے ہیں، ظاہر ہے اس سے امت کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور شخصیتوں کا وقار بھی مجروح ہورہاہے، اور ادارے کا بھی وقار مجروح ہورہاہے، جو ملت کے لیے انتہائی بد نصیبی کی بات ہے، باوقار زبان ملت کی پہچان ہے کہ اپنے ادارے کے وقار کو بڑھائیں اور اپنی شخصیتوں کی حفاظت کریں، اس لیے یقین ہے کہ عامۃ المسلمین بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ اور پورے ملک کے نوجوان علما، فضلا اور دوسرے حضرات امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ یا اس سے منسلک شخصیات کے تعلق سے کسی بھی منفی گفتگو یا منفی تحریر سے گریز کریں گے، ہماری آپ کی تحریر ایک امانت ہے، اگر ہم نے اپنے خیالات کا غلط استعمال کیا تو اللہ تعالی کے دربار میں جواب دہ ہوں گے، اور سنی سنائی باتوں پر اپنے علما ومشائخ کے تعلق سے ایسی باتوں کو پھیلائیں گے جو تحقیق کے بعد ان سے صادر نہ ہو تو اللہ کے یہاں اس کی جواب دہی مشکل ہو جائے گی. ہمیں اپنی اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے. ان شاءاللہ یہ ادارے اور شخصیتیں محفوظ رہیں گی.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے