دوبچے کیوں ، ایک ہی کیوں نہیں؟

دوبچے کیوں ، ایک ہی کیوں نہیں؟

نظامِ قدرت میں قوموں کے عروج و زوال کا وقت بھی مقرر ہے

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور
09279996221

رَبِّ ذُ والجَلالِ وَا لاِ کرَام
ساری کائنات کا خالق و مالک ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے خزانہ رحمت و فضل و کرم سے جو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ دولت، شہرت، عزت، حسن وجمال، میٹھی آواز، طاقت اور حکومت وغیرہ وغیرہ۔ اِن نعمتوں کو پاکر بہت سے بندگانِ خدا اس کی مخلوق کے ساتھ رحم وکرم کا برتاؤ رکھتے ہیں اور رب کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اور بہت سے رذیل(پاجی، کمینے، کم ذات) فرعون و نمرود، شداد کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں اور طاقت و حکومت کے غرور ونشے میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رہتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ
’’نظام قدرت میں‘‘ قوموں کے عروج وزوال کا وقت بھی مقر ر ہے۔"

قر آن مجید میں جابہ جا مغروروں، گھمنڈوں، ظالموں کو کیفرو کردار تک پہنچانے کا ذکر موجود ہے رب تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فر مایا: أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ ۔ترجمہ: اے محبوب کیا تم نے نہیں دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے باد شاہی دی۔(القر آن سورہ البقرہ:2آیت258) (کنز الایمان)۔
(حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ ):آیت کریمہ میں تاریکی والوں کے بیان کے ساتھ نور والوں کے پیشوا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر رب تعالیٰ فر مارہاہے، تاریکی والوں کا پیشوا نمرود تھا۔ نمرود کو اللہ نے عظیم سلطنت عطا فر مائی تھی لیکن اس نے شکر و اطاعت کے بجائے تکبر و غرور اور سر کشی کا راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ اپنی ’’رَبُوبِیّتْ یعنی رب ہونے کا دعویٰ کرنے لگا‘‘۔ سب سے پہلے سر پر تاج رکھنے والا یہی بادشاہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر مناظرانہ گرفت فرمائی وہ عاجز ہو گیا اور ہَکَّا بَکّّا ہو گیا، کوئی جواب نہ دے سکا، ذلیل وخوار ہوا۔(قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام و نمرود کا دل چسپ مناظرہ موجود ہے) حضرت امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب احیا ئُ العلوم میں مناظرے کی تفصیل پر بحث فر مائی ہے ضرور مطالعہ فر مائیں۔( علومُ الدین،کتاب العلم،بیان آفات المناظرۃ۔۔۔ الخ،1/69)۔

حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان، بہ مشہور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’ جو تمام فنون کا ماہر ہو، تمام پیچ جانتا ہو، پوری طاقت رکھتا ہو، تمام ہتھیار پاس ہوں اس کو بھی کیا ضرورت کہ خواہ مخواہ بھیڑیوں کے جنگل میں جائے، ہاں اگر( اس ماہر عالم کو) ضرورت ہی آپڑے تو مجبوری ہے۔ اللہ عز وجل پر توکل کرکے اِن ہتھیار سے کام لے۔( ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص:434)۔

آج کل TV ڈیبیٹ میں کم علم علما پیسے کی لالچ میں جاکر خود تو ذلیل ہوتے ہیں اسلام کو بھی بدنام کراتے ہیں، یہ کام’’ مباحثہ، مناظرہ،بحث کرنا‘‘ ماہر عالمِ دین کا کام ہے ،نہ کہ کم علم جا ہلوں کا۔

نئی آبادی پالیسی کا اعلان، کوئی حسرت رہے نہ باقی:
اتر پردیش میں آبادی کنٹرول کرنے کی پالیسی کا اعلان ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا کا منصوبہ ہے، بڑھتی آبادی ترقی میں رکاوٹ کا واویلا کرنے والے خدائی نظامِ قانون کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ ہر ذی روح کو زندہ رہنے کا حق ہے چاہے وہ کوئی بھی جنس ہو، اسلامی شریعت اسے زندہ درگور کرنے یا لڑکی کی وجہ سے حمل گرا کر اس کی شمع حیات کو گل کرنے کی اجازت قطعی نہیں دیتی۔ چناں چہ اسلام نے زمانہ جاہلیت(حضور کی بعثت سے پہلے کا زمانہ) میں رائج زندہ در گور کرنے والے عمل کی سخت مذمت کی ہے، قرآن مجید تحدید (حدبندی، حدوں کا تعین) آمیز لہجے میں کہتا ہے:وَإِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ (8) بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ۔تر جمہ: اورجب جانوں کو جوڑا جائے گا۔ اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟۔(قر آن،سورہ تکویر:81آیت7 سے 8) جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جو زندہ دفن کی گئی ہوگی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا اور آج جدید زمانے میں پیٹ میں ٹھہرے حمل جنین (لڑکی،لڑ کا) معلوم کرکے لڑکی ہونے پر اسقاطِ حمل، حمل گرانا Abortion، قیامت میں حشر کے میدان میں پوچھا جائے گا اور اس عظیم جُرم کو کسی حالت میں بخشا نہیں جائے گا. ور نہ ہی دنیا میں بھی کسی حالت میں اسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے، اسلام میں لڑکی ہونا جُرم نہیں، یاد رہے جتنی عزت اسلام نے عورتوں کو دی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دی ہے۔اسی طرح مفلسی و تنگ دستی کی وجہ کر بچوں کے پیدائشی عمل کو روکنا، یا حمل گرادینا، بچے کو بیچ دینا وغیرہ وغیرہ اِنتہائی بڑا گناہ، گھناؤنا اور شرم ناک و قابل مذمت کام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُم إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْا کَبِیْراً۔تر جمہ: اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی، بے شک انھیں قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ( القر آن،سورہ بنی اسرائیل:17آیت31)۔ (وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ :اوراپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔) قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر کبیرہ گناہوں کے بارے میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ ان سے بچو، چناں چہ یہاں بیان کردہ پہلا گناہ اولاد کو قتل کرنا ہے۔
آپ غور فر مائیں کہ پہلی آیت میں ماں باپ کے رزق کا ذکر ہے پھر اولاد کے رزق کا لیکن دوسری آیت میں اس کے برعکس پہلے اولاد کے رزق کا ذکر ہے پھر ماں باپ کا۔
رزق کا ضامن رب تعالیٰ ہے:
پہلے زمانہ میں اِنسان مفلسی اور تنگ دستی سے دو چار تھا اور چوں کہ اس زمانے میں انسان سب سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کو دیتا تھا لہذا اس کی ہلاکت سے ڈرتا تھا اور آج بھی کم وبیش ایسی حالت میں اِنسان رہ رہا ہے. رب تعالیٰ اِطمینان( ڈھارس، تسلّی، دلاسا) دلا رہا ہے کہ پہلے وہ اس کے رزق کا ضامن ہے اور دوسرے درجے میں بھی اس کی اولاد کے رزق کو بھی اپنے فضل وکرم پر لیا ہو اہے: نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ : اے مفلس ونادار اِنسان ہم تمھیں بھی رزق دیں گے اور تمھاری اولاد کو بھی رزق عطا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ احادیث طیبہ وبزرگوں کی بیاض میں اولاد کی پرورش و رزق کے معاملات کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور قر آن مجید میں تو105 جگہوں پر آیا ہے۔ اولاد کے قتل یا اولاد کی پیدائش میں رکاوٹ کو وحشی، بہیمانہ اور اِنسانیت سوز طریقوں(حمل گرانے کو) اسلام نے سختی سے منع کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے اور گناہِ عظیم قرار دیا ہے۔ حیاتِ اِنسانی کے لیے اسلام نے بہترین فکر دی ہے. زندگی فقط ایک حق ہی نہیں بل کہ یہ ایک امانت الٰہی ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق بہ شمول انسانوں کو عطا فر مائی اور ودیعت (ڈپوزٹ، امانت، سپرد) کی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی امانت کو حفاظت سے رکھنا، پرورش کرنا اور زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنا ہے، اپنا فرض نبھانا ہے کوئی دو کا قانون لائے یا ایک کا، خدائی نظام کے خلاف کوئی فلاح پانے والا نہیں۔ اللہ ہم سب کو احکامِ خداوندی کی پابندی اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کی عزت کرنے کی توفیق رفیق عطا فر مائے. آمین ثم آمین۔ رابطہ.
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020 09386379632,hhmhashim786@ gmail.com
صاحب مضمون کی دوسری نگارش :اولاد کی پرورش بھاری، کتے پالنا شوق ٹھہرا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے