رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند!

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند!

مظفر نازنین، کولکاتا
وطن عزیز ہندستان بالآخر 15/ اگست 1947ء کو انگریزوں کی غلامی کے شکنجے سے آزاد ہوا۔ ہر طرف شادیانے بجنے لگے اور لال قلعے کی فصیل پر ترنگا لہرانے لگا۔ 26/ جنوری 1950ء کو ہندستانی دستورِ اساس کے نئے قوانین نافذ ہوئے۔ اور وطن عزیز ہندستان میں جمہوری نظام حکومت کا نزول ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب سینکڑوں برسوں کی کوششوں کے بعد ملک کو آزادی ملی۔ جس کے لیے ہمارے رہ نماؤں نے جان کی بازی لگا دی تھی۔ بے مثال قربانیاں پیش کی گئیں۔ جن کے لیے تاریخ کے اوراق شاہد ہیں۔ تاب ناک ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ کس کس طرح مسلمانوں نے برادرانِ وطن کے ساتھ شانہ بہ شانہ تحریکِ آزادی میں حصہ لیا۔ اور بے شمار محبان وطن نے اپنے ملک کے لیے اپنی جان نچھاور کی۔ بہادر شاہ ظفر اردو کے معروف شاعر تھے جنھیں انگریزوں نے قید کر کے برما کی راجدھانی رنگون بھیج دیا۔ ان کا ذہن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا۔ اسیر زنداں بہادر شاہ ظفر نے شکستہ دل، چشم پُر نم اپنے لرزیدہ ہاتھوں سے قلم کو جنبش دے کر اس شعر کو رقم کیا تھا ؎
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر جو دلتوں کے مسیحا تھے، کی قیادت میں دستورِ اساس کی تشکیل ہوئی۔ جہاں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق دیے گئے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ وطن عزیز ہندستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین، پارسی جن کے روحانی عقائد بلاشبہ مختلف ہیں۔ لیکن یہ سب ہندستانی ہیں۔ جہاں ایک فرقے اور مذہب کے ماننے والے کو دوسرے فرقے اور مذہب کے ماننے والوں کا احترام لازمی ہے۔ ہمیں وطنِ عزیز ہندستان سے گہرا لگاؤ ہے۔ ہمیں اس سر زمین پر فخر و ناز ہے۔ سنہرے ماضی میں اسی ہندستان کے لیے شاعر نے کہا تھا ؎
ہندوستان! رشکِ خلد بریں
اُگلتی ہے سونا وطن کی زمیں
وطن عزیز ہندستان جنت نشاں ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں قدت کے انمول خزانے موجود ہیں۔ یہاں ہر طرح کی زمینی شکلیں ہیں۔ سر زمین ہند کے شمال میں کشمیر جنت نظیر تو جنوب میں دکن کا سطح مرتفع، نیلگری کی پہاڑی، مغرب میں تھار کا ریگستان تو مشرق میں ابر آلود چھوٹی چھوٹی شمال مشرقی پہاڑی ریاستیں۔ پھر گنگا کا زرخیز وسیع میدانی علاقہ اور پھر کارگل اور دراس کی چوٹیاں۔ کل ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہندستان قدرت کا انمول عطیہ ہے۔ شاعر نے سر زمین ہند کی تعریف کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ؎
کشمیر سے عیاں ہے جنت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہہ رہا ہے دریائے گنگ اب تک
غنچے ہمارے دل کے اس باغ میں کھلیں گے
اس خاک سے اٹھے ہیں اس خاک میں ملیں گے
یہاں کے پیرہن، شال، پشمینہ اور لباسِ فاخرہ غیر ممالک درآمد کر کے بہترین زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ وہی ہندستان ہے جس کی شاں عہدِ ماضی میں نرالی تھی۔ جس کی تہذیب پر ساری دنیا رشک کرتی ہے۔ جہاں قدرت کے حسین نظارے سے لطف اندوز ہونے کے لیے غیر ممالک سے سیاح آتے ہیں۔ اس کے درخشاں اور تابندہ ماضی کی نظیر نہیں ملتی۔ آزادی کے بعد و طنِ عزیز ہندستان نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ سیاسی مدو جزر کے باوجود آج ہندوستان کا شمار عظیم ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ مختلف مذاہب، قوم، زبان اور تہذیب کے باوجود یہاں کثرت میں وحدت (unity in the midst of diversity) کا راز مخفی ہے۔ جس کا مظاہرہ کرنے کے لیے فلم، documentary بنائی گئی۔ مختلف زبانوں میں حب الوطنی پر مبنی نغمات لکھے گئے۔ دیش بھکتی کے گیت گائے گئے۔ ہر شعبہ ہائے حیات سے منسلک لوگوں نے دیش بھکتی اور حب الوطنی کا ثبوت مختلف انداز میں پیش کیا۔ لیکن افسوس صد افسوس جب کہ مسلمانانِ ہند جاں نثارانِ وطن ہیں۔ شہید کھودی رام بوس، شہید بھگت سنگھ نے وطنِ عزیز ہندستان کے لیے اپنی جان نچھاور کی، ان شہدائے کرام کے اسمائے گرامی بھی ہندستان کی تاریخ میں آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
فرقہ پرستی کے زہر نے ہندستانی سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہر مذہب کا احترام لازمی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جمہوریت کے ماتھے پر کلنک ہے۔ شاعر فخریہ انداز میں سر زمین ِ ہند سے یوں مخاطب ہے ؎
تیری مقدس خاک سے نانک اٹھے، اکبر اٹھے
آج عصری اور دینی تعلیم کی ضرورت ہونے کے ساتھ اخلاقیات کی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ آج کے نوجوانوں کو تابندہ ماضی سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی زندگی کو قوم و ملت کے لیے وقف کرنا عصرِحاضر کی پکار ہے ؎
مجاہدینِ صف شکن، بڑھے چلو بڑھے چلو
روش، ربد، چمن چمن بڑھے چلو بڑھے چلو
خدا کرے سال ِ رواں کا سورج نئی تابندگی لائے جس کی تابانی سے وطنِ عزیز ہندوستان میں گھرے ہوئے فرقہ پرستی کے گھنے کہرے کا خاتمہ ہو۔ فرقہ پرستی کے گھنے بادل چھٹ جائیں۔ اور قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے نور سے سارا بھارت جگمگائے اور اس کی روشنی سے دوبارہ ہندستانی نوجوانوں کو توانائی ملے۔ وہ توانائی جو نوجوانوں کے ذہن کو تقویت دے اور پھر ایک منظم اور مستحکم ہندستان کی تشکیل کے لیے کمبربستہ ہو جائیں۔ وہ تہذیب جس پر ہم ہندوستانیوں کو ناز ہے ؎
مر کر ملی ہے چادر، خاکِ وطن مجھے
مٹی نے اس زمین کی دیا ہے کفن مجھے
اجڑا ہوا دیار ہے فخر دمن مجھے
اے ہند! پھر دکھا وہی شانِ کہن مجھے
یہی وہ ملک ہے جہاں نانک، سرمد، چشتی، گوتم اور مہاویر نے جنم لیا۔ شاعرِ  مشرق جن میں جذبۂ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، یوں رقم طراز ہیں ؎
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش، محبت میں فرد تھا
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل ِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
خلیج منار، آبنائے پاک ہندستان کی سر حد پر اس کی پاسبانی کرتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا میدان جو Gangetic plain کے نام سے جانا جاتا ہے اور سندر بن کا ڈیلٹا جو mangrove vegetation کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے، تہذیب یہاں پھولی پھلی، پروان چڑھی، آداب، تہذیب، کلچر، tradition تو پڑوسی ممالک اور دوسرے ایشیائی ممالک نے ہم سے ہی سیکھا ہے۔ گویا یہ ملک بالکل مختلف اور جداگانہ ہے۔ اس لیے تو اس کی خوب صورتی سے متاثر ہو کر اس کی شان اور عظمت کی داد دیتے ہوئے شاعر مشرق ڈاکٹر سرعلامہ اقبال نے کہا تھا ؎
یہ ہندیوں کے فکر و فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
آج کے موجودہ پس منظر میں یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بلبل کو گل مبارک، گل کو چمن مبارک
شیدائے بوستاں کو سر و سمن مبارک
ہم بے کسوں کو اپنا پیارا وطن مبارک

Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com

مظفر نازنین کی دوسری نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی مرتب کردہ کتاب: ’تذکروں کا اشاریہ‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے