مچلتا ہے مچلنے دے میری تقدیر ارماں کو

مچلتا ہے مچلنے دے میری تقدیر ارماں کو

صلاح الدین رضوی
مظفر پور بہار انڈیا

مچلتا ہے مچلنے دے میری تقدیر ارماں کو
بدل ڈالوں گا اک دن دیکھنا رنگ گلستاں کو

اب اس گلشن میں رہتے ہیں بہت رسوائیاں لے کر
جہاں دیتے تھے ہم انسانیت کا درس انساں کو

نمی آتی ہے آنکھوں میں سمندر ٹوٹ پڑتا ہے
اسیران قفس جب یاد کرتے ہیں گلستاں کو

نہ کر ناداں میری غربت پہ اب تو طعنہ و تشنیع
تجھے بھی لوٹ چلنا ہے کبھی گور غریباں کو

بھلا شیخ و برہمن کی کریں تقلید ہم کیوں کر
چھپا رکھے ہیں ہم لالہ رخان جان جاناں کو

کوئی مومن نہیں ہوتا فقط روزہ نمازوں سے
نظر میں رکھ تو اسوۂ فخر رسولاں کو

صلاح الدین رضوی کی گذشتہ غزل : اس کی رگ رگ میں شرارت ہے ادب کچھ بھی نہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے