رسالہ ’ثالث‘ کا گوشۂ شمس الرحمان فاروقی

رسالہ ’ثالث‘ کا گوشۂ شمس الرحمان فاروقی

محمد عدنان عالم
شعبۂ اردو، بی۔ این۔ کالج، پٹنہ

زبان جب اپنی ارتقائی منزلوں کو طے کر کے ادب کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو اس میں تخلیقی اور تنقیدی عمل کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ ان تنقیدی اور تخلیقی ادب پاروں کو عوام الناس اور زبان کے قاری تک پہنچانے کی غرض سے رسائل وجرائد کا اجرا و اصدار ہوتا ہے۔ رسائل اپنے دور میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ہم اس دور کے قلم کاروں کے اسلوب وانداز سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ علمی اور ادبی رسائل قلم کاروں کی علمی استعداد، تخلیقی کمال، ادیبوں اور شاعروں کے ادبی مذاق نیز اس زمانے میں رائج ادبی رجحانات کے افہام و تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ رسائل کو زبان کی غیر مرتب تاریخ کے بہ طوربھی دیکھاجاتا رہا ہے۔
سائنسی ایجادات نے جہاں ہر شعبۂ حیات میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں رسائل و جراید کو بھی اس میں سہولت میسر آئی۔ اردو میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں رسائل سامنے آئے۔ تعداد تو بڑھی، لیکن اس بھیڑ میں مٹھی بھر سے بھی کم رسائل ادبی افق پر اپنا مقام بنا پانے میں کام یاب ہوئے۔ مدیر بننے کے جنون نے تو رسائل کے معیارکو اور بھی نقصان پہنچا یا ہے۔ ان لا تعداد رسائل کی بھیڑ میں اقبال حسن آزاد اور ثالث آفاق صالح کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالہ ”ثالث“ نے اردو کی ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کا فی حد تک کام یابی حاصل کی ہے جس کا تازہ شمارہ ابھی ابھی منظرِعام پر آیاہے۔
رسالہ ’ثالث‘ کے اداریے کی پہلی سطر’صدق وصفا کا مہر درخشاں نہیں رہا‘ پڑھتے ہی یہ احسا س ہو گیاکہ ضرور ہم سے جدا ہونے والو ں کی یہاں تفصیل ہوگی۔ اداریے میں اقبال حسن آزاد نے اس مرض میں ہم سے جدا ہونے والے نمایندہ اشخاص کو تعزیت پیش کی ہے۔ اقبال حسن آزاد کا اداریہ تعزیتی ہونے کے ساتھ ساتھ مرحومین کا سوانحی خاکا اور ان کی خدمات کا اقرار نامہ بھی ہے۔کورونا وبا میں مرنے والوں میں عظیم نقّاد شمس الرحمان فاروقی بھی رہے۔ اقبال حسن آزاد صاحب نے یہ اچھا کیا کہ ان کی یاد میں ایک مختصر گوشہ مرتب کر دیا۔
شمس الرحمان فاروقی کی ادبی خدمات سے ہماری اردو آبادی کا فرد فرد واقف ہے۔ محض ادبی منافرت کی بنا پر ان کے ادبی کارناموں کو فراموش کرنا ظلم کے مترادف ہوگا۔ فاروقی اردو زبان وادب کے ہر محاذ پر اپنا علمی لوہا منوا کر خود کو اپنے دور کے سب سے بڑے عالِم کے طور پر پیش کرنے میں کام یا ب رہے۔ فاروقی کے ادبی کارناموں کے لیے کوئی مخصوص جہت متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان کے کارناموں کا ایک سرا جہاں تنقید وتحقیق کی جڑوں سے وابستہ ہے تو دوسرے سرے کا رشتہ افسانوی ادب سے جڑتا ہے۔ فاروقی ماہر مترجم اور کام یاب مدیر کی حیثیت سے بھی اپنا تعارف پیش کرا پانے میں صد فی صد کا م یاب رہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ’شب خوں‘ کی ادارت نے ہی فاروقی کو جدیدیت کے تحریک کاروں کے سربراہ کا مقام بخشا۔ ادبی دنیا میں وہ ایک شاعر کی بھی شنا خت رکھتے تھے۔”ثالث“کے مدیر مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے شمس الرحمان فاروقی پر گوشہ شائع کر کے عملی خراج عقیدت پیش کی۔ اس مضمون میں رسالے کے اس گوشے کا خصوصی تعارف پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’ثالث‘ کے گوشۂ فاروقی کا پہلا مضمون صفدر امام قادری کا لکھا ہو ا ”شمس الرحمان فاروقی اور ہما ری نسل“ ہے۔ یہ مضمون فاروقی کی ادبی زندگی کا اجمالی گوشوارہ پیش کرتا ہے۔ فاروقی کی ادبی زندگی کے آغاز، ارتقا اورانجام کو بڑی خوبی سے یہاں پیش کیا گیا ہے۔فاروقی جب ایک نقاد کی حیثیت سے خود کو ادبی منظر نامے پر پیش کر رہے تھے، اس وقت کوئی ان کا مدِّ مقابل نہ تھا۔ قادری صاحب فاروقی کی شخصیت اور کارناموں میں در آنے والی موضوعی تبدیلیوں سے بھی بحث کرتے ہیں اور ان اسباب پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ آخر فاروقی نے کیوں کر جدیدیت کے تحریکی موضوع سے غیر اعلانیہ طور پر کلاسیکی ادب کی طرف رجوع کرنا مناسب سمجھا۔ قادری صاحب نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر فاروقی کلاسیکی ادب کی طرف رجوع نہ کرتے تو ان کے ادبی کارناموں میں توازن پیدا نہیں ہوتا۔ ایک کام یاب قلم کار کی طرح قادری صاحب نے بھی فاروقی کی تنقیدی حدود کی نشان دہی کر دی ہے۔ فاروقی کے ادبی کنبے کی پرورش اور ان کی حمایت میں لکھی گئیں جن تحریروں کی طرف قادری صاحب نے اشارہ کیا ہے، شاید کہ ان کا سختی سے احتساب اہل علم یا خود صاحب تحریر آنے والے وقت میں کردیں تو نا مناسب نہ ہو۔
فاروقی ایک باکمال مترجم بھی تھے۔ بحیثیت ترجمہ نگار فاروقی کے کئی قابل قد رکارنامے ہیں۔ ڈاکٹر ارشد جمیل کا مضمون ”شمس الرحمان فاروقی کی ترجمہ نگاری“ فاروقی کی ترجمہ نگاری سے بحث کرتا ہے۔ ارشد جمیل کے اس مضمون کو فاروقی کی ترجمہ نگاری کے تعلق سے کوئی کامل بحث تو نہیں کہہ سکتے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ ان کی ترجمہ کردہ کتا بوں کے تعارف کو کسی حد تک پیش کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ ارشد صاحب اصل مواد کے مقابل ضمنی بحثوں میں زیادہ دل چسپی دکھا تے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ابتداے مضمون میں ہی ہوجاتا ہے۔ فاروقی کی ترجمہ نگاری یا ان کے فن پر کچھ خاص گفتگو ممکن نہیں ہوسکی جب کہ ترجمہ نگاری کے اصول یا بوطیقا کی تفصیل میں غیر ضروری طور پر کا فی قوت صرف کی گئی ہے۔
محمد اقبال لون کا مضمون ”شمس الرحمان فاروقی کی فکشن شعریات۔۔اتفاق واختلاف“ فاروقی صاحب کی فکشن نگاری اور فکشن تنقید کے حوالے سے ان کی انفرادیت پر گفتگوکرتا ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجا تی ہے کہ فاروقی جب تنقید لکھتے ہیں تو وہ اس کے اصول بھی وضع کرتے جاتے ہیں۔فاروقی فکشن میں افسانوں اورداستانوں کا مطالعہ روایتی اسلوب اور رائج اصول سے ہٹ کرکرتے ہیں۔فکشن کی تنقید اگرچہ فاروقی سے پہلے بھی لکھی گئی لیکن فاروقی فکشن کی تنقید میں نئی راہیں نکالتے ہیں۔داستان شناسی اور اس کو اس کا صحیح ادبی حق دلانے میں فاروقی کی گراں قدر خدمات رہی ہیں۔ اقبال لون کا مضمون تقریبا اپنے موضوع کو سمیٹنے میں کام یاب ہے۔ یہ اچھا کیا کہ انھوں نے اس مضمون میں فاروقی کے اصولوں سے اتفاق نہ رکھنے والوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
گوشۂ فاروقی میں ڈاکٹر ناصرہ سلطانہ کا مضمون فاروقی صاحب کی عملی تنقید کی خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے۔ ناصرہ سلطانہ فاروقی کی عملی تنقید کی انفرادیت کے متعلق لکھتی ہیں کہ فاروقی نے عملی تنقید میں اپنے نظریا ت کو بھی شامل کیا ہے، گوکہہ سکتے ہیں کہ فاروقی کی تنقید عمل اور نظریے کا امتزاج تھی۔فاروقی کی عملی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے وہ میر، غالب، اقبال اور نظیر اکبر آبادی کے سلسلے سے فاروقی کے کاموں کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ میر، غالب اور اقبال کی افہام و تفہیم اور تعبیر وتشریح تو بہت کی گئی ہے لیکن فاروقی ان شعرا کی تفہیم میں الگ راہ نکالتے ہیں اور اسی پر چل کر وہ ان شعرا کی غیر مروج خصوصیات کو اجاگر کر کے ان کے مقام اور مرتبہ کو واضح کرتے ہیں۔ ان شعرا کے مطالعے کے متعلق نئے گوشوں کی سیر کا موقع بھی فاروقی کی تنقید فراہم کرتی ہے۔ ناصرہ سلطانہ کا مضمون بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے ارتباط واختلاط کا سلسلہ نہیں ٹوٹتاہے اور وہ نفسِ مضمون سے نہیں بھٹکتی ہیں۔
سیفی سرونجی فاروقی کا مطالعہ’شب خوں‘کی روشنی میں کرتے ہیں۔ وہ فاروقی کی خدمات اور ان کی علمی بصیرت وبصارت کو’شب خوں‘ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فاروقی کی علمی استعداد و کمال کو پیش کرتے ہوئے’شب خوں‘کے کچھ اقتباسات بھی بہ طورِحوالہ درج کیا گیا ہے۔ خطوط کے جواب اور سوانحی گوشوں میں فاروقی کے جو جوہر عیاں ہوئے ہیں، وہ اس کا بھی تذکرہ کرتے جاتے ہیں۔ مضمون موضوعی لحاظ سے اپنے تقاضوں کو تو پرُ کرتا ہے لیکن کچھ جگہوں پر زبان کی سطح پر خامیاں بھی نظر سے گذرتی ہیں۔ گوشۂ فاروقی کے آخری تین مضامین فاروقی کی زندگی کی کسی مخصوص جہت پر گفتگو نہیں کرتے۔ ان مضامین میں قلم کاروں نے فاروقی کی حیات وخدمات اوران کے علمی کا رناموں پر اجمالی طور پر روشنی ڈالی ہے۔ ان مضامین میں فاروقی کی ابتدائی اور طالب علمی کی زندگی، سوانحی امور اور تدریجی ارتقاکے سلسلے سے تعارفی گفتگوکی گئی ہے۔یہاں تعزیت کا رنگ زیادہ حاوی ہے۔
اداریے میں اگر چہ یہ دعویٰ ہے کہ مضامین بغیر پڑھے شائع نہیں کیے جاتے لیکن رسالے کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ محض ایک رسمی گفتگو معلوم ہوتا ہے۔ رسالے کے آخری سر ورق پر جو فاروقی کی تاریخ پیدایش اور جائے پیدائش درج ہے، اس کے برخلاف ابو محمد صاحب فاروقی کی تاریخ پیدایش اور جائے پیدایش درج کرتے ہیں۔ ایک ہی رسالے میں دو الگ الگ حقائق کہاں تک درست سمجھے جائیں؟ اسی طرح فا روقی نے پہلی کوشش میں سول سروس میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن اس کامیا بی کے سال کو بھی دو قلم کاروں نے الگ الگ ١٩٥٧ ء اور ١٩٥٨ء پیش کیا ہے۔ لہذا گر اداریے کی بات مان بھی لی جا ئے تو اسے سرسری مطالعہ ہی کہا جا ے گا جو کہ کسی بھی معیا ری رسالے کے لیے مناسب نہیں۔نیز پروف ریڈنگ کی خامیاں جا بجا محسوس ہوئیں۔شاید ادارہ آئندہ ان امور پر سنجیدگی سے توجہ فرمائے۔عین ممکن ہے کہ وبائی صورتِ حال میں بہت سارے تکنیکی امور پر پوری طرح سے قابو پانا مشکل ہو۔

صاحب تحریر یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو : بنگلا دیش کو میں نے دیکھا: ا یک تبصرہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے