جو لکھنا چاہوں تو کیسے لکھوں محبتوں کا  نصاب اپنا

جو لکھنا چاہوں تو کیسے لکھوں محبتوں کا نصاب اپنا

افضل الہ آبادی

جو لکھنا چاہوں تو کیسے لکھوں محبتوں کا نصاب اپنا
نہ آنکھیں اپنی نہ عکس اپنا نہ نیند اپنی نہ خواب اپنا
عجب ہے نظارگی کا عالم قیامتیں منھ چھپا رہی ہیں
پلٹ رہے ہیں وہ اپنے رخ سے کچھ اس ادا سے نقاب اپنا
عجب ہے دوشیزگی کا عالم عجب ہے رنگ و جمال ان کا
جو ان کو دیکھے تو صدقہ کردے لباس خوشبو گلاب اپنا
سمندروں کے سفر میں ہم نے سنبھال رکھی ہے یہ وراثت
یہ ریت اپنی یہ درد اپنا یہ پیاس اپنی سراب اپنا
کسی روش میں نہ بہہ سکے ہم زمانے بھر سے جدا ہی رکھا
نشیب اپنا فراز اپنا کلام اپنا خطاب اپنا
ستارے جگنو سے کہکشاں سے میں تیری دنیا میں رنگ بھر دوں
ابھی وہ پہلو نشیں ہیں میرے تو زندگی کر حساب اپنا
ابھی سنبھلنا محال ہوگا کسی کی کافر ادا پہ مرجا
ابھی بہکنے کے دن ہیں افضل ابھی ہے عہد شباب اپنا
***
صاحب غزل کی نگارش بھی ملاحظہ ہو : زندگی شہر طلسمات میں رکھی گئی ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے