انسدادِ جہیز کے محرکین علما سے چند گزارشات

انسدادِ جہیز کے محرکین علما سے چند گزارشات

محمد مصطفیٰ کعبی ازہریؔ
فاضل الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر عربیہ
ہم جاگے ہیں انسدادِ جہیز کی تحریک پر
جہیز مٹے گا آج ہی وراثت کی تحریک پر
باعزت علماء کرام ہمارے ! جہیز کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب بہنوں کو شاملِ وراثت کریں گے اور اس تحریک کو چلائیں گے .
فتنہ جہیز کا ٹل جائے گا ھبہ کرو آج ہی
مثلِ بیٹا بیٹی کو بھی وہی دے دو آج ہی
تیرے گھر میں بیٹا لیتا ہے گھراری آج ہی
بأیّ ذنبِِ قُتلت کا دوش نہ لو تم آج ہی

معزز علماء کرام ! جہیز کے مخالفین لوگ برملا بولتے نظر آتے ہیں علماء خود ہی اپنی بہنوں کو وراثت نہیں دیتے ہیں تو ایسی قیادت اور اس دوہرا رویہ سے کس طرح مثبت عمل شروع ہوسکتا ہے ؟
علماے کرام کہتے ہیں کہ جہیز ایک ہندوانہ رسم ہے تو وہ خود ہی اس رسم کی نقل کرتے ہیں کیوں کہ غیر مسلم وراثت نہیں دیتے ہیں ۔
جب جہیز کی بات آجائے تو علما کہتے ہیں یہ حرام ہے اور وراثت کی بات آئے تو بہنوں و بیٹیوں کے حقوق کو سیدھے ڈکار جاتے ہیں ۔
اس پر عمل کی صورت اور آپ کی بات کا سیدھا اثر اس وقت ہوگا جب پہلے سارے متحرکین علما باپ سے جو اپنا حق و حصہ لے چکے ہیں ٹھیک اسی طرح بہن کو بھی اس کا جائز حصہ دے دیجئے ۔ جیسے آپ نے گھر گھراری اور زمینیں لی ہیں تو اسے بھی اس میں سے دلوادیجیے ۔
علماء کرام ۔۔۔۔۔۔اگر مخلص ہیں تو اس ملک میں آسان طریقہ بھی موجود ہے وہ یہ کہ باپ نے اپنی ہی زندگی میں جس طرح بیٹا کو گھراری اور زمین دی ہے جسے شریعت میں ھبہ بولتے ہیں جو کہ زندگی میں برابر ہوتا ہے وہ ھبہ بیٹی کو بھی کردیجئے ۔
یاد رکھئے جس طرح آپ کو پانچ لاکھ دس لاکھ ھبہ کرنے کی صورت میں لوبھ لگتا ہے اسی طرح عدم جہیز کی صورت میں بیٹا والے کا بھی دس لاکھ ڈوب رہا ہوتا ہے ۔
تلک وجہیز تو حرام ہے اور حرام ہی رہے گا۔۔۔۔اس سے انکار کہاں ہے۔
تحریک کے کچھ مفاسد پر غور کیجئے ۔ جیسے جہیز نہ دینے اور برات نہ منگانے کی صورت میں بیٹی دروازے پر اگر سالوں پڑی رہ گئی تو جہیز بڑا فتنہ ہوگا یا اس لڑکی کا عدم برداشت بڑا فتنہ ہوگا ؟ عدم برداشت کی بہت سی صورتیں ہوں گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
دوسری صورت آپ کے سامنے پیش ہے جسے ہم برابر بتاتے آئے ہیں کہ علما اگر مال زوائد کو مال فتنہ کہتے ہیں تو وہی علما بیرونی فنڈ کو حاصل کرکے کس مال زوائد سے بچتے ہیں ؟ اس زوائد سے مراد آپ اپنی کمائی سے کئی گنّا مال و اسباب تو اکٹھا کررہے ہیں جب کہ دوسری طرف عوام کو الّو اور بیوقوف بنانا بھی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ بڑا تعجب ہے ؟
احباب سے گذارش ہے کہ دوسروں کی طرح کسی ایک ہی فقرہ پر نہ ٹوٹ پڑیں بلکہ سوال اٹھانا ہو تو سارے پہلووں کا احاطہ کیجئے ۔ حال آں کہ آپ کی ایک خصلت نزدیک ہی میں دیکھی گئی ہے ۔
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش : تاریخ مسجد اقصٰی اور اس کے فضائل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے